امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے گزشتہ روز پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے غلط ہاتھوں میں جانے کا خدشہ ظاہر کرتے ہوئے دہشت گردوں کو محفوظ پناہ گاہیں فراہم کرنے کا الزام بھی عائد کیا تھا۔ انہوں نے دہشت گردی کو بہت سنجیدہ مسئلہ قرار دیا اور کہا کہ ہم نے گیارہ ستمبر (نائن الیون) کے حملوں سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان پیدا ہونے والی حالیہ کشیدگی کا ذکر کرتے ہوئے امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے کہا کہ یہ کشیدگی پاکستان کے علاقے سے جانے والے دہشت گردوں کی وجہ سے شروع ہوئی۔ پاکستان نے امریکی وزیرخارجہ کے عائد کردہ الزامات کو محض دباؤ کے حربے قرار دیا اور کہا کہ امریکا اس موضوع پر کچھ عرصے خاموش رہا، لیکن اب اس نے دوبارہ دہشت گردی کا مسئلہ اٹھا کر پاکستان کے خلاف الزام تراشی شروع کردی ہے۔ امریکا نے ابتدا ہی سے پاکستان کے بارے میں چھڑی اور گاجر کی جو روایتی پالیسی اختیار کر رکھی ہے، اس پر وہ آئے دن علمدر آمد کرتا رہتا ہے۔ اسے ہماری کمزور حکومتوں اور نااہل سیاستدانوں کی وجہ سے پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کی جرأت ہوتی ہے۔ وقت پڑنے پر گدھے کو باپ بنانے والا امریکا اپنی عالمی بالادستی کے زعم میں پاکستان کے تمام احسانات اور خدمات کو بھول جاتا ہے۔ پاکستان نے دنیا کی دوسری سپر پاور سوویت یونین کے پرخچے اڑانے میں افغان مجاہدین کا ساتھ نہ دیا ہوتا تو امریکا واحد سپر پاور نہ بنتا۔ اس کے بعد افغانستان پر امریکی جارحیت کے وقت سے آج تک اٹھارہ سال کے دوران امریکا کو پاکستان کی جانب سے تعاون ملتا رہا۔ اگر پاکستانی عوام کی مرضی و منشا کے مطابق یہاں کی حکومتیں عمل کرتیں اور امریکا کا ساتھ نہ دیتیں تو امریکا اور اس کے اتحادیوں کا ابتدا ہی میں افغانستان سے بوریا بستر گول ہو جاتا اور اس کی کٹھ پتلی حکومتیں افغانستان پر مسلط نہ ہوتیں۔ آج اٹھارہ سال بعد امریکا وہاں سے بے دخل ہونے اور طالبان سے مذاکرات پر مجبور ہوا ہے تو اب بھی اسے پاکستان کے تعاون کی اشد ضرورت ہے۔ امریکی وزیر خارجہ کا یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ ان کے ملک نے گیارہ ستمبر کے واقعے سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ شدید جانی و مالی نقصان اٹھانے کے بعد بھی امریکا کو دوست اور دشمن کی تمیز اب تک نہیں ہوئی ہے۔ وہ دہشت گردی کے خلاف سب سے زیادہ قربانیاں دینے والے ملک کو، جس نے اپنی سرزمین سے دہشت گردوں کا تقریباً صفایا کردیا ہے، اب بھی دہشت گردی کے فروغ کا مجرم گردانتا ہے۔ تو یہ اس کی کوتاہ نظری یا پاکستان اور مسلمانوں کے خلاف نفرت کا کھلا اظہار ہے۔ پاکستان کی ایٹمی تنصیبات فوج کے ہاتھوں محفوظ ہیں۔ وہ ایک امن پسند ملک کی حیثیت سے ایٹمی عدم پھیلاؤ کے معاہدوں کا پابند ہے۔ نیز ایٹمی اثاثوں کی حفاظت کے لیے پاکستان میں نیشنل کمانڈ اتھارٹی قائم ہے۔ اس پر اگر امریکا کو اعتماد نہیں اور اسے خدشہ ہے کہ یہ اثاثے دہشت گردوں کی تحویل میں نہ چلے جائیں تو یہ دنیا کی واحد سپر پاور ہونے کے دعویدار ملک امریکا کے خوف اور بزدلی کی علامت ہے۔ اگر وہ سمجھتا ہے کہ دہشت گردوں کا کوئی گروہ ہزاروں میل سے امریکا کو نشانہ بنا سکتا ہے، تو یہ دراصل اس کی اپنی دفاعی کمزوری کا اظہار ہے اور اگر یہ سب کچھ نہیں تو پاکستانی دفتر خارجہ کے مطابق امریکا کے تمام الزامات بے بنیاد اور پاکستان پر دباؤ کے حربے ہیں۔ وہ بھارت کے مقابلے میں پاکستان کو ہمیشہ زیردست اورکمزور دیکھنا چاہتا ہے۔ ورنہ امریکی وزیر خارجہ حالیہ پاک بھارت کشیدگی کا ذمہ دار پاکستان کو قرار نہ دیتے۔ بھارت واضح طور پر دنیا کا سب سے بڑا دہشت گرد ملک ہے، جس نے اپنے سات آٹھ لاکھ فوجیوں کے ذریعے مقبوضہ کشمیر میں وحشت و درندگی کے تمام ریکارڈ توڑ رکھے ہیں۔ مسلمانوں، سکھوں اور غریب دلتوں کے خلاف بھارتی حکومت اکثر کارروائیاں کر کے انہیں خوف میں مبتلا رکھتی ہے۔ گزشتہ دنوں پاکستان کی فضائی اور بحری حدود کی خلاف ورزی اور لائن آف کنٹرول پر بھارتی فوج کی مسلسل گولا باری کے باوجود اگر امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو یہ کہیں کہ دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی پاکستان سے جانے والے دہشت گردوں کی وجہ سے شروع ہوئی تو انہیں یہی مخلصانہ مشورہ دیا جاسکتا ہے کہ وہ ذہنی امراض کے کسی ماہر سے معائنہ کرائیں تاکہ اچھے اور برے کی تمیز کے قابل ہو سکیں۔
تھر کول سے بجلی کی خوش آئند پیداوار
سندھ کے لوگوں کو ایک مدت کے بعد یہ خوشی ملی کہ تھرکول سے بجلی کی پیداوار شروع ہوگئی ہے اور ابتدائی طور پر تین سو تیس میگاواٹ بجلی نیشنل گرڈ میں شامل کر دی گئی ہے۔ چیئرمین سندھ اینگروکول مائننگ کمپنی خورشید جمالی کا کہنا ہے کہ تین سوتیس میگاواٹ کا ایک اور یونٹ چند روز میں پیداوار شروع کردے گا، منصوبے پر کام کا آغاز 2016ء میں ہوا تھا۔ کمپنی ترجمان کے مطابق تھر کے اکیس ہزار مربع کلومیٹر رقبے کی نو ہزار تین سو مربع کلو میٹر اراضی میں کوئلے کے ایک کھرب پچھتر ارب ٹن ذخائر موجود ہیں۔ یہ دنیا بھر میں کوئلے کا چوتھا بڑا ذخیرہ ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ نااہلی سے بچ کر بجلی کی نئی پیداوار کس طرح اور کب تک جاری رہتی ہے۔ دوم یہ کہ کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کے حوالے سے فضائی آلودگی کے جو خطرات ظاہر کیے جا رہے تھے، ان پر کس حد تک قابو پایا گیا ہے۔ کیا بجلی کی اس پیداوار کی آمدنی سے تھر کے غریب اور مظلوم عوام کو بھی کوئی فائدہ پہنچے گا۔ یا وہ ہمیشہ کی طرح آئندہ بھی قحط اور امراض میں مبتلا رہ کر ہر ماہ سینکڑوں کی تعداد میں مرتے رہیں گے۔ پھر یہ کہ بجلی کی پیداوار میں چھ سو ساٹھ میگاواٹ کا اضافہ کرنا بجلی کی قلت دور کرنے اور قیمتیں کم کرنے کا سبب بنے گا۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں اپنی ضرورت سے کئی گنا زیادہ بجلی پیدا کرنے کی گنجائش ہے اور جو پیدا بھی ہورہی ہے، لیکن صارفین تک اس کی ترسیل نہیں ہوتی۔ جبکہ بجلی کمپنیوں کو معاہدوں کے مطابق خطیر رقوم پابندی سے ادا کرکے عوام سے بجلی کی بھاری قیمت وصول کی جا رہی ہے۔ حکومت سندھ کو تھرکول سے بجلی کی پیداوار شروع کرنے پر مبارکباد دینے کے ساتھ اس طرف توجہ دلانا ضروری ہے کہ وہ بجلی کے معاملات پر گہری نظر رکھے اور عوام کو بلا تعطل اور کم نرخوں پر بجلی کی فراہمی کے اقدامات سے اپنی ناقص کارکردگی کا داغ دھونے کی کوشش کرے۔ ٭
٭٭٭٭٭