بھارت میں انصاف کا خون

بھارت میں نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی (این آئی اے) کی ایک خصوصی عدالت نے سمجھوتا ایکسپریس بم دھماکہ کیس میں ملوث انتہا پسند ہندو رہنما سوامی اسیم آنند سمیت چار ملزمان کو بری کردیا ہے۔ عدالت نے بارہ سال بعد اس مقدمے کا فیصلہ سنایا۔ اس کا کہنا ہے کہ استغاثہ کی جانب سے ملزمان کا دھماکے میں ملوث ہونا ثابت نہیں کیا جاسکا۔ بھارت کی اس خصوصی عدالت نے بیالیس پاکستانیوں سمیت اڑسٹھ افراد کی ہلاکت میں ملوث ملزموں کو کلین چٹ دے کر انصاف کے منہ پر کالک مل دی ہے۔ اس سے بھارتی حکومت کی جانب سے ہندو دہشت گردوں کو تحفظ اور دہشت گردی کو فروغ دینے کی ریاستی پالیسی کی بھی عکاسی ہوتی ہے۔ یاد رہے کہ سمجھوتا ایکسپریس کا سانحہ اٹھارہ فروری 2007ء کی رات کو پیش آیا تھا۔ اس کے مرکزی ملزم اسیم آنند کا تعلق بھارتی دہشت گرد تنظیم راشٹریہ سیوک سنگھ سے ہے۔ اس انسانیت سوز سانحے کا مقدمہ عام اعلیٰ عدالت میں چلانے کے بجائے قومی تفتیشی ایجنسی کی خصوصی عدالت میں چلانا بجائے خود انصاف کے قتل، ہندو انتہا پسندی اور مسلمانوں کے خلاف تعصب کی واضح دلیل ہے۔ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی تنظیم کا نام بھارتیہ جنتا پارٹی ہے، خود بھی جو راشٹریہ سیوک سنگھ کی طرح اقلیتوں کے خلاف دہشت گردی پر یقین رکھتی ہے۔ دونوں جماعتوں کے انتہا پسند جنونی ہندو بھارت میں کسی اقلیت کا وجود پسند نہیں کرتے۔ پاکستان سے تو وہ خصوصی پرخاش رکھتے ہیں۔ کیوں کہ شدت پسند ہندوؤں نے قیام پاکستان کو بھارت کی گئو ماتا کے دو ٹکڑے کرنے کے مترادف قرار دے کر آج تک تسلیم نہیں کیا ہے۔ ان کی کوشش ہے اور وہ منتظر ہیں کہ پاکستان کو ختم کر کے اور اسے اکھنڈ بھارت کا حصہ بنا کر دوبارہ اپنے ساتھ شامل کرلیں۔ بھارت کی قومی تفتیشی ایجنسی کی خصوصی عدالت نے خطرناک ملزموں کو بری کرتے ہوئے کیا خوب دلیل دی ہے کہ استغاثہ کی جانب سے ملزمان کا دھماکہ میں ملوث ہونا ثابت نہیں کیا جاسکا، جہاں مدعی اور منصف ایک ہی ہو اور وہ خود انتہا پسند اور متعصب ہو، وہاں بے گناہ انسانوں کے قاتل کیوں کر سزا پاسکتے ہیں۔ سمجھوتا ایکسپریس کی بوگیوں میں آگ لگانے والے مجرم سوامی اسیم آنند سمیت چار مجرموں کو اب بری کیا گیا ہے، جبکہ ٹرین میں پاکستانی شہریوں پر حملے کے لیے بم فراہم کرنے والا کرنل پروہت تین سال قبل رہا کیا جا چکا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس حملے میں بھارت کی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ اور فوج کے کرنل پروہت سمیت کئی دہشت گرد شریک تھے۔ جن کے کرتوتوں پر پردہ ڈال کر مجرموں کو رہا کردیا گیا۔ سوامی اسیم آنند کے علاوہ دیگر مجرمان لوکیش شرما، کمل چوہان اور جیندر چوہدری بری ہونے والوں میں شامل ہیں۔ خصوصی عدالت کے جج نے فیصلے میں کہا کہ بھارتی حکومت کی جانب سے سمجھوتا ایکسپریس سانحے کے پاکستانی عینی شاہدین کو پاکستانی ہائی کمشین کے ذریعے سمن جاری کیے گئے تھے، لیکن کسی نے جواب نہیں دیا، حالانکہ ایک پاکستانی خاتون راحیلہ نے گواہی کے لیے درخواست دی تو عدالت نے اسے مسترد کر دیا۔ راحیلہ کے والد مذکورہ سانحے میں شہید ہوئے تھے۔ مقدمے میں ملوث ایک ملزم کو 2007ء ہی میں قتل کردیا گیا تھا، جبکہ دو ملزمان رام چندر اور سندیپ ڈانگے تاحال مفرور ہیں۔ مرکزی ملزم سوامی اسیم آنند مکہ مسجد اور اجمیر شریف میں واقع خواجہ معین الدین چشتیؒ کی درگاہ پر حملے سمیت دہشت گردی کی دیگر کئی کارروائیوں میں ملوث و مطلوب تھا، لیکن اسے متعدد مقدمات میں بری کردیا گیا، کیوں کہ اس دہشت گرد کا تعلق انتہا پسند ہندو تنظیم آر ایس ایس سے ہے۔ اس کی خوش قسمتی یہ بھی ہے کہ فی الوقت بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی ایک انتہا پسند تنظیم بھارتیہ جنتا پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں، جو خود اپنی مسلم دشمنی کے لیے مشہور ہیں۔ ستائیس فروری 2002ء کو بھی ایک بڑی ٹرین میں آگ لگنے کا واقعہ پیش آیا تھا۔ جس میں انسٹھ افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اس کے اگلے روز پورے گجرات میں مسلم کش فسادات ہوئے، جس میں سیکڑوں مسلمانوں کو قتل اور زندہ جلا دیا گیا تھا۔ اس زمانے میں آج کے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی گجرات کے وزیر اعلیٰ تھے۔ ان کی شہ اور حوصلہ افزائی پر مسلمانوں کو بے دریغ قتل اور نذرآتش کر کے ان کی املاک جلائی گئی تھیں۔ پاکستانی وزارت خارجہ نے بھارتی ہائی کمشنر کو طلب کر کے سمجھوتا ایکسپریس کے مجرموں کو بری کرنے کے فیصلے پر سخت احتجاج کیا اور اسے انصاف کا مذاق قرار دیا ہے۔ وزارت خارجہ کے ترجمان کا کہنا ہے کہ ملزمان خود اپنے گھناؤنے جرم کا اعتراف کرچکے تھے۔ اس کے باوجود ان کی رہائی بھارت کی منافقت اور دوغلے پن کا ثبوت ہے۔
دامن کو ذرا دیکھ ذرا بند قبا دیکھ
بدھ کو پیپلز پارٹی کے دونوں دھڑوں کے سربراہ آصف علی زرداری اور ان کے بیٹے بلاول بھٹو زرداری جعلی بینک اکاؤنٹس کیس، پارک لین اور منی لانڈرنگ کے مقدمات میں نیب کے راولپنڈی دفتر میں پیش ہوئے اور دو گھنٹے تک علیحدہ علیحدہ بیان ریکارڈ کرایا۔ انہیں تحریری سوال نامہ پیش کر کے دس دنوں میں جواب طلب کیا گیا ہے۔ اس موقع پر پیپلز پارٹی کے کچھ درجن جیالوں نے تمام رکاوٹیں توڑ کر دفتر پر دھاوا بول دیا۔ ان کے پتھراؤ اور پولیس کے لاٹھی چارج سے نادرا چوک میدان جنگ بن گیا۔ پولیس اہلکاروں اور جیالوں سمیت کئی افراد زخمی ہوئے اور کم وبیش اسّی پارٹی کارکنوں کو گرفتار کیا گیا۔ پیپلز پارٹی کے رہنما مصطفیٰ نواز کھوکھر نے نیب کے ایک افسر پر تھپڑوں کی بارش کردی۔ واضح رہے کہ بلاول بھٹو زرداری نے ایک روز قبل ملک بھر کے کارکنوں کو نیب دفتر راولپنڈی کا گھیراؤ کرنے کا حکم دیا تھا۔ مقدمات کا قانون کے تحت مقابلہ کرنے کے بجائے دفتروں، افسروں اور اہلکاروں پر حملے اپنے کیس کی کمزوری کا اعتراف کرنے کے مترادف ہے۔ پیپلز پارٹی کے رہنما بدھ کی ہنگامہ آرائی پر جمہوریت کی دہائی دے رہے ہیں، جبکہ پاکستان کی پرانی نسل کو یاد ہے کہ پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں جمہوریت اور جمہور کے ایسے بخیے ادھیڑے گئے کہ دنیا پناہ مانگنے لگی تھی۔ مخالفوں اور مزدوروں پر فائرنگ اور بلڈوزر چلانے کے واقعات ابھی ذہنوں میں محفوظ ہیں۔ پیپلز کارڈ کے ’’جسارت‘‘ سمیت کئی اخباروں پر مسلح حملے اور صحافیوں کو پابند سلاسل کر کے اخبار بند کرنے کے واقعات پاکستانی قوم اب تک نہیں بھولی۔ جیالوں کی طرح جیالیوں کی نتھ فورس بھی پاکستان کی تاریخ میں سیاہ باب کے طور پر محفوظ ہے۔ اس پس منظر میں اپنے اقتدار اور لوٹی ہوئی دولت کو بچانے کے لیے پیپلز پارٹی کے دونوں چیئرمین اور دیگر رہنما جو کچھ بھی کر گزریں، کم ہے۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment