سکھوں کے شادمانے اور کشتی کا سفر

ملاکا میں تعلیم حاصل کرنے، ملازمت کے لیے یا سیر و تفریح کی غرض سے آنے والوں کی معلومات کے لیے تحریر کرتا چلوں کہ یہاں نہ صرف مسجدیں، مندر، گرجا گھر، بدھوں کے پگوڈا ہیں، بلکہ سکھوں کا بھی ایک گوردوارا ہے۔ یہ گوردوارا صاحب ملاکا کہلاتا ہے۔ سکھوں کی یہ عبادت گاہ شہر کے مرکزی علاقے میں واقع ہے۔ ملاکا شہر کا مرکز اور پرانا حصہ وہی ہے جہاں ڈچ دور کی سرخ عمارتیں ہیں اور ان کے سامنے ملکہ وکٹوریا کی یاد میں فوارہ نصب ہے۔ ان عمارتوں کے قریب سے جو سڑک گزرتی ہے وہ جالان لکسامانا کہلاتی ہے۔ آگے جا کر یہی سڑک جالان بیندا ہارا کا نام اختیار کرتی ہے۔ جہاں لکسامانا روڈ اختتام پذیر ہوتا ہے وہیں سے بیندار ہارا کا آغاز ہوتا ہے۔ اس مقام پر ایک جانب اتنہائی وسیع اور کشادہ سڑک جالان تیمین گانگ ہے اور اسی روڈ پر سکھوں کا گوردوارا ہے۔
ملاکا میں رہائش کے دوران ہم جس گجراتی سے آٹا خریدتے تھے، اس کی چکی اس سڑک پر واقع ایک گلی میں تھی۔ یاد رہے کہ ان اطراف میں برما تھائی لینڈ سے جاپان کوریا تک بارش کی زیادتی کے سبب گندم کے بجائے چاول کی فصل کاشت کی جاتی ہے۔ یہ چاول کھانے والے ملک ہیں، جہاں ناشتے میں بھی مختلف شکل میں چاول ہی پیش کیے جاتے ہیں۔ یہاں کیک پیسٹری اور سویوں کی تیاری میں بھی عام طور پر چاولوں ہی کا آٹا استعمال ہوتا ہے۔ یہاں آٹے کے معنی چاولوں کا آٹا لیا جاتی ہے، نہ کہ گندم کا آٹا۔ کھانے کا مطلب چاول ہے۔ اس حد تک کہ جاپان میں کھانے کو Gohan کہا جاتا ہے، جس کا مطلب ہے چاول۔ اسی طرح ناشتے کو، گوہان اسا، کہتے ہیں، پھر خواہ وہ ناشتے میں صرف سوپ ہی کیوں نہ لیں یا انڈہ ڈبل روٹی کھائیں۔ جس طرح ہمارے ہاں دوپہر میں خواہ بریانی ہی کھالے، لیکن کہا یہی جائے گا کہ ہم نے، کھانا کھا لیا۔
بہرحال شروع کے دنوں میں، خاص طور پر آج سے تیس برس قبل جب ملاکا میں ہم غیر ملکیوں کے محض آٹھ دس گھر تھے، اس وقت گندم کے آٹے جیسی چیزیں اس طرح عام نہیں ملتی تھیں، جیسے آج کل دستیاب ہیں۔ ہم فارنرز کے علاوہ ایک شخص احمد کیانی تھے۔ ان کے والدین کا تعلق لاہور سے تھا، جبکہ وہ خود ملائیشیا کی ریاست پیرلس میں پیدا ہوئے۔ ان کی شادی بھی ملئی فیملی میں ہوئی۔ وہ اور ان کی بیوی اعلیٰ تعلیم یافتہ اور ماڈرن ہونے کے ساتھ ساتھ مذہبی خیالات رکھتے تھے۔ انہوں نے ہم غیر ملکیوں کی بہت مدد اور رہنمائی کی۔ انہی سے ہمیں تازہ آٹے کی چکی کا معلوم ہوا تھا۔ میں جب بھی آٹا خریدنے کے لیے چکی پر جاتا تو اس کے قریب ہی واقع سکھوں کے گوردوارے بھی جاتا تھا۔ وہاں مختلف لوگوں سے ملاقات ہوتی تھی۔
ہم نے اپنے ملک میں صرف مسجدیں ہی دیکھی تھیں۔ لیکن یہاں ملائیشیا میں آکر مختلف مذاہب اور دھرموں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی عبادت گاہیں دیکھ کر حیرت ہوئی تھی۔ یہاں آکر احساس ہوا کہ ایک ہی گلی میں نہ صرف مختلف زبانیں بولنے والے بلکہ الگ الگ مذاہب سے تعلق رکھنے والے سکون اور محبت سے رہ سکتے ہیں۔ ہم نے ملائیشیا میں دیکھا کہ کسی کے مذہبی دن کو منانے کے لیے دوسرے مذہب کے لوگ بھی شریک ہوتے تھے۔ یہاں کی گلیوں اور سڑکوں پر پرانے زمانے کے مندر اور گرجا گھر آج بھی قائم ہیں۔ اس کے باوجود قریب رہنے والے مسلمان اپنے دین پر قائم ہیں اور اس کے اصولوں پر عمل بھی کرتے ہیں۔ اس تناظر میں جب میں یہاں کے انگریزی اخباروں کے پہلے صفحے پر خبر پڑھتا ہوں کہ سکھر میں مسلمانوں نے عیسائیوں کے گرجا گھر کو آگ لگا دی۔ ملتان یا کراچی کی امام بارگاہ پر بم پھینکا گیا اور فائرنگ کی گئی تو اس دن میں گھر سے باہر نہیں نکلتا۔ کیوں کہ یہاں کے ملئی مسلمان حیرت سے پوچھتے ہیں کہ آپ لوگ دوسروں کی عبادت گاہوں پر حملے کیوں کرتے ہیں؟ معمولی رنجش پر انسان ذات کا قتل کیوں کرتے ہیں؟ ملاکا میں واقع سکھوں کا یہ گوردوارا تقریباً ایک سو سال پرانا ہے۔ سکھوں کی عبادت گاہیں ملائیشیا کے ہر بڑے شہر میں موجود ہیں۔ لیکن یہ گوردوارا حسن ابدال کی طرح سکھوں کے لیے بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ ہر سال مئی کے آخری ہفتے میں ملائیشیا اور سنگاپور کے سکھ، بابا سوہن سنگھ کی برسی منانے اور انہیں خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے یہاں آتے ہیں۔ بابا سوہن سنگھ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے اپنی شعلہ بیانی کے ذریعے ان علاقوں میں سکھ دھرم کو مشہور کیا۔ ان کا تعلق ملاکا کے اسی گورودوارے سے تھا۔ 24 مئی 1972ء کو ان کی وفات کے بعد باقاعدگی سے ان کی برسی منائی جاتی ہے۔ 21 سے 25 مئی تک یہاں کی گلیوں میں اپنی مخصوص پگڑیوں والے سکھ مرد اور رنگ برنگی ملبوسات اور دوپٹوں والی عورتوں کی بھیڑ ہوتی ہے۔ فضا میں پنجابی زبان کی گونج ہوتی ہے۔
ایسا بھی ہرگز نہیں ہے کہ ملاکا میں سکھ صرف سوہن سنگھ کی برسی پر نظر آتے ہیں۔ سکھ کھیلوں کے شوقین ہیں۔ وہ گلی ڈنڈا سے ہاکی تک تمام کھیلوں میں حصہ لیتے ہیں۔ ان کے آپس میں اور دیگر قوموں کے ساتھ بھی میچ ہوتے رہتے ہیں۔ کبھی کوالالمپور میں تو کبھی اپوح میں۔ کبھی ملاکا میں اور کبھی سنگاپور میں۔
سنگاپور اور ملائیشیا کے شہروں کے بس اسٹاپوں اور ریلوے اسٹیشنز پر ٹکٹ لینے والوں کی قطار میں آپ کو سکھ ضرور نظر آئیں گے۔ ان کے گلے میں سفری تھیلے ہوں گے اور ہاتھوں میں فٹ بال، والی بال یا ہاکی ہوگی۔
کسی بھی ملک میں نوکری یا تعلیم کے لیے جانے والے ایک اجنبی ماحول میں ابتدائی ایک دو دن ہلکے یا ہیوی ڈپریشن کا شکار ضرور ہوتا ہے۔ لیکن ملائیشیا ان باتوں میں بھی ایک نرالہ ملک ہے۔ خاص طور پر ملاکا تو مجھے انتہائی عجیب معلوم ہوا۔ اپنے ملک سے ہزاروں میل دور آکر بھی کئی باتیں اپنی سرزمین جیسی محسوس ہوئیں۔ کھانے، لباس، اپنائیت، کسی دکان میں داخل ہوں تو دکاندار مقامی ملئی زبان کے بجائے گجراتی اور اردو بولتے ہوئے ملے۔ سکھوں کے مذکورہ گوردوارے میں داخل ہوتے ہی ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے ہم امرتسر میں آگئے ہیں۔ سکھوں کا گانا بجانا ان سے متعلق لطیفے جو اس سے قبل ہم نے صرف دوسروں کی زبانی سنے تھے، وہ ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھے۔ سکھوں کے اس مندر میں آکر مجھے معلوم ہوا کہ ملاکا اور اس کے اردگرد کافی سندھی بھی رہتے ہیں جو سندھ سے ہجرت کر یہاں آئے تھے۔ انہوں نے بتایا تھا کہ وہ سندھی ہندو اپنے ہندو مندر کے علاوہ سکھوں کے گوردواروں میں بھی پوجا پاٹھ کے لیے آتے ہیں۔ مجھے اس وقت بہت حیرت ہوتی ہے جب سوہن سنگھ کی سالانہ برسی پر سکھوں کے اس مندر میں نہ صرف مقامی سکھ بلکہ چینی اور ملئی مسلمان بھی اپنے گھروں سے مختلف کھانے اور مٹھائیاں تیار کر کے لاتے ہیں تاکہ پردیس سے آنے والے یاتریوں کو کھانے پینے کے سلسلے میں خرچ نہ کرنا پڑے۔ کئی رضا کارانہ میڈیکل کیمپس قائم ہو جاتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی سکھ یاتریوں کا یہ عمل بھی قابل تعریف ہے کہ ان میں سے اکثر لوگ اپنا خون عطیہ کر جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ملاکا کے اسپتالوں میں قائم بلڈ بینک ہر وقت Over&Low ہوتے رہتے ہیں۔
ملاکا میں آکر ملاکا ندی میں کشتی کی سیر بیرون ملک سے آنے والوں کے لیے Best ہے۔ یہ ندی ملاکا شہر کے درمیان سے گزرتی ہے۔ یہاں کے سیاحتی ادارے کی جانب سے چالیس اور بیس کرسیوں والی بارہ فائبر گلاس کشتیاں چلتی ہیں۔ جن میں بیٹھ کر سیاح پورے شہر کی سیر کرتے ہیں۔ میں ایک آدھ گھنٹے کی اس سیر سے جائزہ لے لیتا ہوں کہ کہاں کہاں نئی عمارتیں، پارک، مسجدیں، اور شاپنگ سینٹر تعمیر ہوچکے ہیں۔ اگر آپ نے کشتی کی سیر نہیں کی تو یہاں آپ کا یہ شوق بھی پورا ہو سکتا ہے۔ اس سیر کے لیے ٹیکسی یا شہر میں چلنے والی بس کے ذریعے اسٹاپ نمبر چھ پر آنا ہوگا، جو Melaka River Craise بس اسٹاپ کہلاتا ہے۔ یہ وہ تاریخی ندی ہے جس کے ڈیلٹا پر مختلف ادوار میں پر تگالیوں، ڈچوں اور انگریزوں نے اپنے جہاز لنگر انداز کیے تھے۔ پھر کشتیوں پر سوار ہو کر اس ندی میں داخل ہوئے اور بم بارود کے زور پر اس شہر پر قابض ہوگئے۔ یورپیوں نے اس ندی کی خوبصورتی اور اہمیت کو دیکھ کر اسے وینس آف ایسٹ قرار دیا تھا۔
کشتی کا سفر ڈچ دور کی سرخ عمارتوں سے شروع ہوکر، کپونگ مورتیم نامی قصبے میں اختتام پذیر ہوتا ہے۔ یہ فاصلہ دس کلومیٹر ہے۔ کشتی اس سفر کے دوران تان بون سینگ پل کے نیچے سے بھی گزرتی ہے۔ یہ پل تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔ جب 1511ء میں پرتگالیوں نے ملاکا سلطنت پر حملہ کیا تو انہوں نے اس پل پر قبضہ کر کے شہر کے دوسرے علاقوں کا رابطہ منقطع کر دیا تھا۔ سیر کرانے والی کشتی اس پل کے علاوہ دو اور پلوں کے نیچے سے بھی گزرتی ہے۔ ایک چان بون چینگ پل جو 1908ء میں تعمیر ہوا جسے 1963ء میں مزید مضبوط اور ماڈرن بنایا گیا۔ یہ آہنی پل ہے جو پرانے چائنا ٹاؤن (کمپونگ پنتائی) کو نئے چائنا ٹاؤن جالان بنگاریا والے حصے سے ملاتا ہے۔ اس کے بعد لوگوں کے گزرنے کے لیے بنایا گیا پل آتا ہے، جسے یہاں کے لوگ پراسرار پلGhost Bridge Of Melacca کہتے ہیں۔ یہ پل کمپونگ ہولو قصبے کو جالان کی این اور سیٹرل مارکیٹ سے ملاتا ہے۔ یہ پل مچھیروںکے لیے بنایا گیا تھا جو مچھلی کا کاروبار کرتے تھے۔ آج بھی اس پل کے آس پاس کئی چینی ریسٹونٹس ہیں جہاں سی فوڈ کے شوقین مچھلی، جھینگے، کیکڑے، آکٹوپس، سیپیاں وغیرہ کھانے کے لیے آتے ہیں۔
1999ء میں تیار ہونے والی جیمز بانڈ کی ہالی ووڈ فلم Entrapment بہت مشہور ہوئی تھی۔ اس میں جیمز بانڈ کا کردار سین کو فری نے ادا کیا تھا اور ہیروئن کیتھرین زیٹا جونس تھی۔ اس فلم کے کچھ سین کوالالمپور کے پیٹروناس ٹاور اور بکت جلیل ریلوے اسٹیشن میں فلمائے گئے تھے۔ اس فلم کے حوالے سے ملاکا کے اس پر اسرار پل کے قریب واقع ریسٹورنٹس میں سے ایک ریسٹورنٹ بہت مشہور ہے، جو اس فلم میں دکھایا گیا تھا۔
سنگائی ملاکا (ملاکا ندی) کا یہ کشتی کا سفر کمپونگ مارتین پر ختم ہوتا ہے۔ ملئی زبان میں سنگائی کا معنی ندی ہے اور کمپونگ گوٹھ کو کہتے ہیں اور گھر کو بھی۔ جس طرح کالج کے دنوں میں ہاسٹل میں رہائش کے دوران عید کی چھٹیوں پر کہا جاتا تھا کہ گوٹھ جا رہے ہیں۔ یعنی اپنے گھر جا رہے ہیں۔ اس طرح ملئی لوگ کہتے ہیں Balek Karnpung یعنی گوٹھ جا رہے ہیں۔ بہرحال آج کل کے ماڈرن ہو جانے والے شہر ملاکا میں اگر اس ملک کا صحیح معنوں میں گوٹھ دیکھنا ہو تو کمپونگ مارتین دیکھئے۔ اس گوٹھ کو دیکھ کر مجھے ساٹھ کی دہائی کے آخری سال یاد آتے ہیں جب گاؤں دیہات میں لکڑی کے بنے گھر ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کیے جاتے تھے۔ ملائیشیا میں شروع ہی سے امن وامان کی حالت بہتر ہونے کے سبب جاپان کی طرح یہاں بھی کھیتوں اور جنگلات میں تنہا گھر نظر آتے ہیں۔ ایک ایسے ہی گھر کے مالک نے اپنی زمین بیچ کر قریبی گاؤں میں زمین خرید لی، وہ اپنے پرکھوں کا چوبی گھر نہیں چھوڑنا چاہتا تھا، جو چار کمروں پر مشتمل تھا۔ پھر یہاں کے دستور کے مطابق اس نے اتوار کے دن قریبی گاؤں کے دو سو افراد کی دعوت کی، جنہوں نے لکڑی کے اس خوبصورت گھر کو طویل بانسوں کے ذریعے اٹھا کر ایک فرلانگ کے فاصلے پر اس شخص کی خریدی ہوئی زمین پر Install کردیا۔ ملائیشیا کے گاؤں دیہات میں لکڑی کے بنے مکانات زمین میں گڑے ہونے کے بجائے چوبی پایوں پر زمین سے قدرے بلند ہوتے ہیں۔ اس لیے انہیں ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کیا جاسکتا ہے۔
بہرحال ملاکا ندی میں کشتی کا یہ سفر نہ صرف دلچسپ بلکہ تاریخی لحاظ سے بھی پرکشش ہے۔ اس کے لیے کسی نے کیا خوب کہا ہے: Malacca River Cruise Allows Visitors To Enjoy History In a Much More Entertaining Way It Is a Picture Of The Melakan State At Its Best
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment