قبول اسلام ناممکن بنانے کے لئے ہندو رہنما سرگرم

کراچی(وقائع نگار خصوصی)ہندو لڑکیوں کے بھاگنے اور مسلمان ہونے کا معاملہ بھی خوب ہے۔ ہر چند ماہ میں کوئی نہ کوئی ایسا واقعہ ہو تا ہے، جسے ہندو کمیونٹی اپنی انا کا مسئلہ بنا کر میڈیا میں اچھال دیتی ہے۔ پھر مظلومیت کی چادر اوڑھ کر رمیش کمار جیسے چرب زبان جو فروش میدان میں آ جاتے ہیں اور اپنی کمیونٹی کے خود ساختہ ترجمان بن کر ذاتی قد ابھارنے کی کوشش کرتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کون شریف آدمی ہو گاجو بیٹی کے بھاگنے کو میڈیا کی زینت بنائے گا؟ ۔ہر شخص جو اپنی عزت، ساکھ اور پردہ داری کا خیال رکھتا ہے، بیٹی کے گھر سے بھاگ جانے کو پیٹ کے ناسور کی طرح چھپاتا ہے۔ وہ کبھی اس سانحے کو لوگوں کے سامنے ننگا کر کے اپنی اور گھر کی عزت کا فالودہ نہیں بناتا۔ لیکن یہاں معاملہ الٹا ہے۔ ہندو لڑکیاں مسلمان لڑکے کے ساتھ گھر سے بھاگ جائیں، تو یہ گھر کا معاملہ نہیں رہتا بلکہ مذہب کا معاملہ بن جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ہندو کمیونٹی نے کبھی کسی ہندو لڑکے کے ساتھ بھاگنے والی ہندو لڑکی کا معاملہ بھی اس طرح اچھالا ہے؟ ۔ جی نہیں۔ اسے تو الٹا دبانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ گویا اصل بات یہ نہیں کہ ہندو لڑکی گھر سے بھاگی ہے۔مسئلہ یہ ہے کہ مسلمان کے ساتھ کیوں بھاگی ہے۔ یہی وہ پرنالہ ہے، جہاں ہندو کمیونٹی کے بڑوں کا پانی مرتا ہے اور اسے وہ دو مذاہب کے تنازع کا روپ دے دیتے ہیں۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ حکومت انتظامیہ اور عدلیہ بھی انہی کی زبان بولتی ہے اور اسے اقلیتوں کے تحفظ کا معاملہ قرار دیتی ہے۔ میرے بھائی۔ لڑکی کے بھاگنے سے اقلیتوں کا تحفظ کیسے خطرے میں پڑ گیا؟ کیا مسلمان لڑکیاں نہیں بھاگتیں؟۔کیا دوسرے مذاہب کے لڑکوں سے شادی نہیں کرتیں؟ بھارت سے لے کر بوسٹن تک ایسی بے شمار کہانیاں بکھری پڑی ہیں۔ لیکن مسلمانوں نے تو اسے اقلیت کے تحفظ کا ایشو نہیں بنایا۔ یہ سیدھا سادھا سماجی مسئلہ ہے۔ جسے پاکستان کی ہندو کمیونٹی مذہبی مسئلہ بنا دیتی ہے۔ لڑکی کا گھر سے بھاگنا غلط ہے۔ خواہ وہ ہندو کی ہو۔ مسلمان کی یا کسی عیسائی کی۔ لیکن حیرانی یہ ہے کہ بھاگنے کے خلاف کوئی نہیں بولتا۔ حکومت ہو، عدالت ہو، پولیس ہو یا این جی اوز الٹا اسے تحفظ دیتے ہیں۔ اس کی خاطر قانونی گنجائش نکالتے ہیں۔اسے عورت کا بنیادی حق قرار دیتے ہیں۔ اب مسلمان اور اہل کتاب کے معاملے میں تو انہیں مشکل پیش نہیں آتی ۔ لیکن ہندو کے معاملے میں پھنس جاتے ہیں اور متضاد دلائل دینے لگتے ہیں۔ مثلاً بھاگنے اور پسند کی شادی کرنے کے معاملے پر لڑکی کو تحفظ دیا جاتا ہے۔ لیکن مذہب کی تبدیلی کی صورت میں گرفتار کر لیا جاتا ہے۔ حالانکہ دیکھا جائے تو وہ لڑکی مذہب کی خاطر مذہب تبدیل نہیں کر رہی، بلکہ عاشق کی خاطر مذہب چھوڑ رہی ہے۔ ہمارا قانون بالغ فرد کی آزادی اور بنیادی حقوق کا تحفظ کرتا ہے، جس کا حکم آئین دیتا ہے۔ نو مسلم لڑکی اسی قانون کا سہارا لیتی ہے۔ ہندو مت چھوڑنے والی زیادہ تر لڑکیاں مسلمان لڑکے سے شادی کی خواہش میں مذہب تبدیل کرتی ہیں، کیونکہ مسلمان ہوئے بغیر ان کا نکاح اس لڑکے سے ہو نہیں سکتا۔ وجہ یہ ہے کہ ہندو اہل کتاب نہیں۔ اور انہیں یہ سہولت حاصل نہیں، جو اہل کتاب یعنی عیسائی اور یہودی لڑکی کو میسر ہے۔ تو ثابت ہوا کہ اصل مسئلہ تبدیلی مذہب نہیں۔ مرضی کی شادی ہے۔ اس طرح دیکھا جائے تو یہ سماجی مسئلہ ہوا نہ کہ مذہبی ۔ لہٰذا ہندو کمیونٹی کو چاہئے کہ اس معاملے سے ایک سماجی مسئلے کے طور پر نمٹے۔ ورنہ یہ اسی طرح بڑھتا رہے گا اور ان کے مفاد پرست لیڈر اسے اچھال کر اپنی سیاست چمکاتے رہیں گے اور مال سمیٹتے رہیں گے۔دیکھا جائے تو ایک سماجی مسئلے کے طور پر یہ صرف ہندوؤں کا نہیں، مسلمانوں کا بھی مسئلہ ہے۔ ان کی بیٹیاں بھی گھروں سے بھاگ کر شادی کرتی ہیں۔ لہٰذا اس مسئلے سے نمٹنے کے لئے دونوں مذاہب کے ماننے والوں کو اپنے اپنے دائرے میں کچھ احتیاطی تدابیر اختیار کرنی ہوں گی۔ مثلاً ہندو برادری اگر یہ چاہتی ہے کہ اس مسئلے کی روک تھام کی جائے تو اسے سب سے پہلے اس مسئلے پر چڑھایا گیا مذہبی رنگ اتارنا ہو گا۔ اسے ہندو مسلم فساد کا بیج بنانے سے روکنا ہو گا اور ایک سماجی مسئلے کے طور پر دیکھنا ہو گا۔ تبھی مسلمان کمیونٹی کے درد مند لوگ آگے بڑھ سکتے ہیں اور افہام و تفہیم سے مسئلہ حل کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔ لیکن اگر انہوں نے دوسروں کے یا اپنے مفاد پرست بڑوں کے کہنے پر اسے مذہبی ایشو بنائے رکھا تو مسلمان کمیونٹی میں اسے حل کرنے کا کوئی جذبہ پیدا نہیں ہو گا۔ الٹا وہ رکاوٹیں ڈالے گی اور اسے اپنے مذہب کی خدمت کا ایک ذریعہ سمجھے گی۔ دیکھیں، عام مسلمان اپنے مذہب کے بارے میں بہت جذباتی ہے۔ وہ کسی بھی ایسے معاملے میں جم کر کھڑا ہو جاتا ہے، جس کا تعلق مذہب کے بچاؤ سے ہو یا مذہب پر حملہ آور کے ساتھ مقابلہ کرنے سے۔ ہندو کمیونٹی دانستہ یا نادانستہ ایک مقابلے کی فضا پیدا کر رہی ہے۔ نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ مسلمان معاشرے کے ہر فرد کی ہمدردیاں مسلمان لڑکے اور نو مسلم لڑکیوں کے ساتھ ہو رہی ہیں۔ مذہب بیچ میں آ جانے کے بعد گھر سے بھاگنے والا اقدام پس منظر میں چلا جاتا ہے اور دونوں مذاہب آمنے سامنے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ ہمارے ہندو بھائی یاد رکھیں کہ جب یہ نوبت آ جاتی ہے تو مسلمان کسی دنیاوی قانون، عدالت، حکومت، پولیس، رینجرز سے نہیں ڈرتا۔ وہ مذہب کے نام پر سب سے لڑ جاتا ہے۔ اور یہ بات ہماری حکومتیں بھی سمجھتی ہیں۔لیکن اگر آپ اس ایشو کو سماجی مسئلے کے طور پر لے کر آگے بڑھیں گے تو شاید کوئی آپ کی بات سن بھی لے،سمجھ بھی لے اور مدد بھی کر دے۔ لیکن ہندو مسلم اختلاف بنا کر اچھالیں گے تو کوئی آپ کے حق میں کلمہ خیر بھی نہیں کہے گا۔ دوسری بات،اپنے گھروں میں بچیوں پر سختی نہ کریں۔ ان کی شادیاں ان کی مرضی سے پوچھے بغیر نہ کریں۔ وہ باشعور ہو گئی ہیں۔ میڈیا اور سوشل میڈیا نے انہیں دنیا سے جوڑ دیا ہے۔ وہ روایات کی پاسداری تبھی کریں گی، جب آپ ان کی پسند نا پسند کا احترام کریں گے۔ انہیں اہمیت دیں گے اور ان کے حقوق کا خیال رکھیں گے اور کبھی زبردستی کوئی فیصلہ تھوپنے کی کوشش نہیں کریں گے۔ تیسری بات،آپ ایک ایسے ملک میں رہتے ہیں، جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے۔ ظاہر ہے، مسلمانوں سے میل ملاپ بھی زیادہ ہو گا۔ آپ کی بچیاں مسلمان بچیوں سے ملیں گی ۔ آپ روک تو نہیں سکتے۔ اسکول ہے، کالج ہے، گھر محلہ ہے۔ اس ملنے جلنے اور آنے جانے سے وہ بہت کچھ ایسا دیکھتی اور سنتی ہیں جو ان کے گھروں میں نہیں ہوتا۔ مثلاً نماز، روزہ، زکوٰة، حج، قرآن شریف کی تلاوت، اسلام کے بارے میں اہم معلومات۔ تو یہ چیز کسی نہ کسی درجے میں اثر انداز بھی ہو گی۔ آپ اسلام کی حقانیت کے بھلے قائل نہ ہوں۔ کیونکہ آپ اپنے مذہب کے ساتھ ساتھ برادری، کاروبار، روایات، پرکھوں کی پَرم پرا، مفادات و مصلحتوں سمیت نہ جانے کس کس چیز سے بندھے ہیں، لیکن بچی یا بچہ تو ان زنجیروں سے آزاد ہے۔ ان کے دل تو حق بات سننے کے لئے زیادہ کشادہ ہوتے ہیں۔ تو اگر وہ اسلام سے متاثر ہوتے ہیں یا اسلام قبول کرنا چاہتے ہیں تو آپ کشادہ قلبی کا مظاہرہ فرمائیں۔ مسلمان ہو کر بھی وہ آپ ہی کی اولاد رہے گی۔ بہت ممکن ہے کہ اس ایک کا مسلمان ہو نا آپ کے پورے گھرانے کو جہنم سے بچانے کا سبب بن جائے۔ اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ اسلام بھی ایک آفاقی مذہب ہے تو پھر گھبرانا کیسا؟ بچہ یا بچی اللہ یا بھگوان کے بتائے ہوئے مذہب ہی میں تو جا رہے ہیں۔ کمیونزم میں تو نہیں۔ اور ایک اور بات۔ اگر آپ ہندوستان میں ہندو مسلم شادیوں پر اعتراض نہیں کرتے تو پاکستان میں اسے ایشو کیوں بناتے ہیں؟ وہاں بے شمار جوڑے ایسے ہیں جن میں سے کوئی ایک مسلمان ہے اور دوسرا ہندو۔ بھارتی فلمی صنعت ایسی مثالوں سے بھری ہوئی ہے۔ وہاں ان شادیوں پر اعتراض کرنے والوں کو خود ہندو کمیونٹی برا کہتی ہے۔ لیکن آپ یہاں مذہبی تنازع بنا دیتے ہیں۔باقی رہا مذہب کی تبدیلی کا معاملہ تو بھائی میرے پاکستان کا آئین اسے ہر انسان کا ذاتی حق قرار دیتا ہے۔اسے شخصی آزادی اور بنیادی حقوق کے دائرے میں لاتا ہے۔ آپ خود سوچیں مسلمان جب پہلی بار ہندوستان آئے تو ان کی تعداد کتنی تھی؟ لیکن حسن سلوک اور اسلام کی تبلیغ سے لاکھوں کروڑوں ہندو مسلمان ہو گئے۔ ان میں عورتیں بھی تھیں اور مرد بھی۔ سوال یہ ہے کہ اگر تب اسلام قبول کرنا جائز تھا، تو اب غلط کیسے ہو گیا؟ مذہب تو دل کا معاملہ ہے، روح کا معاملہ ہے۔ انسان اور رب کے درمیان تعلق کا معاملہ ہے۔ آپ اسے ایک سماجی مسئلے کو آگ دینے کے لئے استعمال کیوں کر رہے ہیں؟ ویسے بھی ہندو مذہب میں پیدا ہونے والے افراد پر ایسی کوئی مذہبی قدغن نہیں کہ وہ کوئی اورمذہب اختیار نہیں کر سکتے۔ اس کے علاوہ بچیوں کا گھروں سے بھاگنا ایک اجتماعی مسئلہ ہے۔ یہ ہندو، مسلم، عیسائی،سکھ سب کا مسئلہ ہے۔ آپ مذہب کو بیچ میں لا کر اس مسئلے کو مذہب کی بنیاد پر کاٹ دیتے ہیں اور نقصان اٹھاتے ہیں۔ آپ کو اپنی بچی عزیز ہے یا اسلام دشمنی؟ آپ کا فوکس تو بچی بھاگنے پر ہونا چاہئے۔ خواہ مسلم کے ساتھ بھاگے یا عیسائی کے ساتھ یا ہندو کے ساتھ نہ کہ بھگانے والے کے مذہب کے ساتھ۔ آپ کی یہ دلیل کون تسلیم کرے گا کہ لڑکی ہندو یا عیسائی کے ساتھ بھاگے تو ٹھیک ہے۔ مسلمان کے ساتھ بھاگے تو ٹھیک نہیں؟ ذرا سی عقل رکھنے والا انسان بھی اسے بودا و غلط قرار دے گا۔ لیکن برسرزمین حقیقت یہی ہے کہ مسلمان لڑکے کے ساتھ بھاگنے پر آپ کا ردعمل اور ہوتا ہے اور ہندو عیسائی کے ساتھ اور۔ آپ کا اگر یہی رویہ رہا تو یہ سلسلہ کبھی نہیں رکے گا۔ اور آپ یقین کر لیں کہ مسلم معاشرہ کبھی آپ کو ہمدردی نہیں دے سکے گا۔ اسے بچی کے بھاگنے سے زیادہ اسلام عزیز ہے۔ اورآپ اس کے اسلام ہی کو فوکس کر رہے ہیں۔

 

اسلام آباد(امت نیوز)پاکستان تحریک انصاف کے اقلیتی رکن قومی اسمبلی و پاکستان ہندو کونسل کے سربراہ ڈاکٹررمیش کمار وانکوانی قبول اسلام ناممکن بنانے کیلئے سرگرم ہو گئےہیں ۔ڈاکٹر رمیش کمار وانکوانی نے گھوٹکی سے تعلق رکھنے والی 2 نومسلم بہنوں کے مبینہ اغوا اور مبینہ قبول اسلام کے حوالے سے قومی اسمبلی سیکریٹریٹ میں 2 بل جمع کرا دیے ہیں ۔تحریک انصاف ،پیپلز پارٹی اور نواز لیگ کے اقلیتی اراکین قومی اسمبلی نے مذہب کی مبینہ جبری تبدیلی کیخلاف قرارداد کا مسودہ بھی قومی اسمبلی سیکریٹریٹ میں جمع کرا دیا ہے ۔تفصیلات کے مطابق تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے اقلیتی رکن قومی اسمبلی اور پاکستان ہندو کونسل کے سربراہ ڈاکٹر رمیش کمار وانکوانی نے بدھ کو گھوٹکی سے تعلق رکھنے والی 2 نومسلم بہنوں کےمبینہ اغوا اور جبراً قبول اسلام کے دعووں کے تناظر میں 2بل جمع کرا دیے ہیں ، جس میں جرائم کےمرتکب افراد کی سزا کی مدت میں اضافے کی تجویز دی گئی ہے ۔ ایک بل کو چائلڈ میرج ریسٹرینٹ ایکٹ(ترمیم) 2019 کا نام دیا گیا ہے جبکہ دوسرے بل کا عنوان ضابطہ فوجداری (اقلیتوں کے تحفظ)2019ہے ۔ ڈاکٹر رمیش کمار وانکوانی نے قومی اسمبلی سیکریٹریٹ میں پیپلز پارٹی اور نواز لیگ کے اقلیتی اراکین قومی اسمبلی کے دستخطوں کے ساتھ ایک قرارداد بھی جمع کرائی ہے ۔ قرارداد کے 5 نکات کے ذریعے ایوان پر مذہب کی مبینہ جبری تبدیلی کے خلاف قانون بنانے کا مطالبہ کیا گیا ہے ۔ سندھ اسمبلی نے 2016 میں ایسا ہی ایک قانون منظور کیا تھا تاہم بعد میں شدید دباؤ کے باعث اسے واپس لے لیا تھا ۔ڈاکٹر رمیش کمار کی پیش کردہ قرارداد پر تحریک انصاف کے اقلیتی اراکین اسمبلی لال ملہی ،شنیلا روتھ کے علاوہ نواز لیگ کے اقلیتی رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر درشن اور پیپلز پارٹی کے رمیش لال نے بھی دستخط کئے ہیں۔ اس قرارداد میں بھر چونڈی شریف کے میاں مٹھو اور پیر ایوب جان سرہندی اور دیگر مذہبی شخصیات و علما کو متنازع قرار دیتے ہوئے انہیں اور دیگر افراد کو جبراً مذہب تبدیل کرانے کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے کارروائی کرنے کا مطالبہ کیا ۔قرارداد میں کہا گیا ہے کہ مذہب کی آڑ میں نفرت کا پرچار کرنے والوں کے خلاف کالعدم قرار دی گئی تنظیموں کی طرح کارروائی کی جائے۔2 بل اور قرارداد کا مسودہ قومی اسمبلی سیکریٹریٹ میں جمع کرانے کے بعد میڈیا سے بات چیت میں ڈاکٹر رمیش کمار وانکوانی نے کہا کہ انہوں نےقوانین اور قرارداد کے مسودات قانون پاکستان ہندو کونسل کی قرارداد کی روشنی میں جمع کرائے ہیں ۔ہندو کونسل نے یہ قرارداد گھوٹکی سے تعلق رکھنے والی 2 نو مسلم بہنوں (سابق نام روینا اور رینا ) اور میرپور خاص سے تعلق رکھنے والی شانیہ کے مبینہ اغوا اور مبینہ طور پر جبراً قبول اسلام پر منظور کی تھی ۔اس قرارداد میں کہا گیا ہے کہ سندھ اسمبلی پہلے ہی شادی کیلئے عمر کی حد 18 سال مقرر کر چکی ہے جبکہ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق نے کم عمری کی شادی کے قانون کے حوالے سے بھی عمر کی یہی حد مقرر کی ہے ۔قرارداد میں کہا گیا ہے کہ وہ مجوزہ قانون کو فوری طور پر منظور کرے اور قانون کو اس کی روح کے مطابق ملک بھر میں نافذ کرے۔ڈاکٹر رمیش کمار وانکوانی کے تجویز کردہ اقلیتوں کے تحفظ کے قانون میں کہا گیا ہے کہ حکومتی افسران ،پولیس اور عدلیہ کے افسران کو حساسیت کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔مذہب کی جبری تبدیلی کے کیسر کی شنوائی کیلئے خصوصی عدالتیں قائم کی جائیں ،متاثرین کے لئے خصوصی پناہ گاہیں بنائی جائیں۔بلوغت کی عمر کو پہنچنے سے قبل کسی بھی نو عمر کےتبدیلی مذہب کا دعویٰ تسلیم نہ کیا جائے۔جبری مذہب تبدیل کرانے والے کوجرم ثابت ہونے پر سزا کی کم از کم مدت 5برس اور زیادہ سے زیادہ عمر قید دی جائے۔ مجرم کو متاثرہ شخص کو ہرجانہ دینے کا پابند بھی بنایا جائے۔اس ضمن میں شادی کی تقریب کرانے والا ،اسلام قبول کر کے شادی کرنے والوں کو سفری سہولیات فراہم کرنے والوں کو مجرم قرار دیا جائے ۔ حکومت اس نوعیت کی شکایات کے ازالے کیلئے طریقہ کار وضع کرے۔عدالتیں مذہب کی مبینہ جبری تبدیلی کے مقدمات کی ان کیمرا سماعت کریں ۔اس نوعیت کی شکایت ملنے کے 7 روز کے اندر ہی عدالت سماعت کی تاریخ مقرر کرے۔مذہب کی مبینہ جبری تبدیلی کے معاملے کو عدالت 90 روز میں نمٹا دے۔مدعی کو مقدمے کے دلائل تحریری طور پر پیش کرنے کی اجازت بھی دی جائے ۔چائلڈ میرج ریسٹرینٹ ترمیمی بل 2019 کے مسودے میں کہا گیا ہے کہ کم عمری کی شادیوں میں ملوث افراد کو ایک ماہ کے بجائے3سال قید کی سخت ترین سزائیں دی جائیں ۔جرمانے کی رقم ایک ہزار روپے سے بڑھا کر 2 لاکھ روپے کی جائے۔مسودہ قانون میں کم عمر کی شادی کی وجہ غربت اور جہالت قرار دی گئی ہے ۔اقوام متحدہ 18 سال سے کم عمر افراد کو بچہ تسلیم کرتی ہے ۔ بدقسمتی سے کم عمری کی شادی ملک بھر میں عام ہے اور پولیس ملزمان کے خلاف کاررروائی نہیں کرتی۔

Comments (0)
Add Comment