پرکشش اداکارائیں یا ٹریکٹر کے ٹائر؟

ملاکا کی شاہراہ ’’جالان چان کون چینگ‘‘ سے گزرتے ہوئے میری نظر ملاکا ہائی اسکول کی عمارت پر پڑی تو مجھے ماضی کے دن یاد آگئے۔ خاص طور پر وہ فٹ بال میچ یاد آیا جو ہماری نیول اکیڈمی کے اسٹاف نے اس اسکول کے اساتذہ کے ساتھ آج سے تقریباً 28 برس قبل 1983ء میںکھیلا تھا اور ہم بری طرح ہارے تھے۔ ہماری ٹیم میں تمام غیر ملکی جہاز چلانے والے کیپٹن اور چیف انجیئر تھے، جو سمندری ملازمت چھوڑ کر ملاکا کی ’’میری ٹائم اکیڈمی ملائیشیا‘‘ میں تدریس کے لئے آئے تھے۔ ہم اگر بڑی عمر کے تھے تو ملاکا ہائی اسکول کے ٹیچر بھی کچھ کم عمر نہ تھے۔ لیکن ملئی لوگ فٹ بال کھیلنے کے شوقین ہیں۔ یہاں کا چھوٹا بڑا کھیلتا رہتا ہے۔ اگر ہم نے فٹ بال کھیلی تھی تو صرف اسکول اور کالج کے دنوں میں۔ اس کے بعد ہم نے صرف دوسروں کو کھیلتے ہوئے دیکھا، وہ بھی ٹی وی پر۔
ملاکا پہنچنے پر ہمیں پہلے ہی دن بتا دیاگیا کہ ہمارے لئے ہفتے کے چھ دن پڑھانا ضروری ہے، یعنی یہ ہماری ڈیوٹی اور ذمہ داری ہوگی۔ اس کے علاوہ دو دن شام کو کھیلنا لازمی ہے۔ انڈیا کے ایک کیپٹن نے پہلے ہی ہفتے کھیلنے سے انکار کردیا تھا اور اس نے ہمیں بھی سمجھایا کہ ہرگز نہ کھیلنا۔
’’یہ ملئی لوگ بھی عجیب ہیں۔‘‘ اس نے کہا ’’اگر انہیں شوق ہے تو اس کا مطلب ہے سب کھیلیں۔ کوئی ان کو سمجھائے کہ چالیس سال سے زائد عمر کے لوگوں کو جاگنگ بھی آہستہ کرنی چاہئے۔‘‘
لیکن اس کیپٹن کا احتجاج صرف دس بجے کی چائے پر ہم دو تین جہازیوں کے سامنے تک ہی محدود رہا، جن کا تعلق برصغیر کے ملکوں سے تھا۔ ہم کھل کر دو ٹوک انداز میں انکار کر بھی کیسے سکتے تھے۔ کیوں کہ ہمارے اس ادارے میں ہم مردوں سے تین گناہ زیادہ عورتیں اور لڑکیاں تھیں۔ جب وہ والی بال، نیٹ بال اور بولاسیپک جیسے کھیل خوشی سے کھیلتی تھیں تو ہم کیسے انکار کرسکتے تھے۔
کھیل سیپک ٹکرا ( sepak Takraw ) نہ صرف یہاں ملائیشیا میں بلکہ اس اطراف کے ملکوں انڈونیشیا، تھائی لینڈ، سنگاپور، میانمار (برما)، ویت نام، کمبوڈیا، لاؤس اور فلپائن میں بھی بڑے شوق سے کھیلا جاتا ہے۔ اسے والی بال کی طرح کھیلتے ہیں، لیکن دونوں میں فرق ہے۔ سیپک ٹکرا میں جو بال استعمال ہوتی ہے، وہ والی بال سے چھوٹی ہوتی ہے اور بانس کی تیلیوں (Rattan) سے بنائی جاتی ہے۔ دوسری بات یہ کہ والی بال میں صرف ہاتھ اور کبھی کبھی سر سر استعمال کیا جاتا ہے، جبکہ ’’سیپک ٹکرا‘‘ میں ہاتھ، سر، پیر، گھٹنے اور چھاتی بھی استعمال کی جاتی ہے۔
یہاں کی تاریخ ’’سیجارا ملایو‘‘ سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ کھیل پندرہویں صدی سے ملاکا سلطنت میں عام ہے۔ نکاک میں جو wat phrakaeo مندر ہے، اس کی دیواروں پر 1785ء کے نقش موجود ہیں، جن میں سے ایک منظر میں ہندوؤں کے دیوتا ہنومان کو ایک گول دائرے میں بندروں کی ایک ٹولی کے ساتھ سیپک ٹکرا کھیلتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ تاریخ میں سیامی بادشاہ ناریسیان کا بھی ذکر ملتا ہے جس نے تھائی لینڈ کے سابق دارالحکومت آیوتھایا پر 1590ء سے 1605ء تک حکومت کی۔ اسی کے دور میں اس کھیل کے مقابلے منعقد ہوتے تھے۔ تھائی لینڈ میں اس کھیل کو صرف ’’ٹکرا ‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہاں کے ایک پروفیسر نے بتایا تھا کہ ’’سیپک‘‘ ملئی لفظ ضرور ہے، جس کا مطلب ٹھڈا، ٹھوکر یعنی kickلگانا ہے، لیکن Takraw کے معنے بنی ہوئی بال (Wo ven ball) ہے، جو دراصل تھائی زبان کا لفظ ہے۔ سو اس کھیل کے بڑے چیمپئن ملائیشیا اور تھائی لینڈ میں موجود ہیں۔ تھائی لینڈ میں تو ہر سال کنگز کپ ورلڈ چیمپئن شپ منعقد ہوتی ہے۔ اس میں حصہ لینے کے لئے دنیا کے مختلف ملکوں کے کھلاڑی آتے ہیں۔
سیپک ٹکرا کا نیٹ والی بال کے نیٹ جیسا ہی ہوتا ہے اور والی بال کی طرح دو ٹیموں کے درمیان مقابلہ ہوتا ہے۔ ایک کھلاڑی پیچھے کھڑا ہوتا ہے، جسے تیکونگ کہا جاتا ہے۔
باقی دو کھلاڑی آگے نیٹ کے قریب کھڑے ہوتے ہیں۔ دائیں طرف کھڑا ہونے والاRight Inside اور بائیں طرف والا Left Inside کہلاتا ہے۔ ایک کک کے ذریعے سروس بال کو نیٹ کے اوپر سے دوسری سمت پہنچایا جاتا ہے۔ پھر سامنے کی ٹیم کے کھلاڑی پیروں، ہاتھوں یا سر کی ٹکر سے واپس لوٹاتے ہیں اور بال کو زمین سے گرانے سے بچاتے ہیں۔ بال کے زمین پر گرنے سے مخالف ٹیم کو ایک پوائنٹ ملتا ہے۔ کھلاڑیوں کے نیٹ سے بھی دور رہنا پڑتا ہے۔ ہاتھ، سر یا قمیض کا حصہ نیٹ کو لگنے سے بھی مخالف ٹیم کو ایک پوائنٹ ملتا ہے۔ 21 پوائنٹ حاصل کرنے والی ٹیم فاتح قرار پاتی ہے۔
بہر حال ملاکا میں رہنے کے لئے آنے والے ہم غیر ملکیوں کو ابھی دو ہفتے بھی نہیں گزرے تھے کہ ہمارے باس داتک کیپٹن حمزہ نے اعلان کیا۔
’’ملاکا ہائی اسکول کی فٹ بال ٹیم کے ساتھ میچ کھیلنا ہے۔ میں نے انہیں چیلنج کیا ہے۔‘‘
ہماری جانب سے بس بھرکر ملاکا ہائی اسلکول پہنچی۔ کیپٹن حمزہ بہت پرجوش تھے اور کئی بار دہرا چکے تھے کہ ہمیں یہ مقابلہ جیتنا ہے۔ میچ شروع ہونے سے پہلے وہ ہماری زبانی حوصلہ افزائی کے ساتھ ہمیں دو دو آئس کریم کون بھی کھلاتے رہے۔ انڈیا کے سکھ کیپٹن نے سرگوشی کرتے ہوئے کہا۔
’’جو کچھ کھانا پینا ہے، میچ سے پہلے کھا پی لیں۔ بعد میں تو ڈانٹ پھٹکار ہی ملے گی۔‘‘
واقعی ایسا ہی ہوا۔ ہمارے جو کھلاڑی آگئے تھے، ان سے مخالف ٹیم کے گول تک بال کو پہنچایا نہیں جاتا تھا… اور ہم، جو پیچھے کھڑے تھے، ان سے بال روکی نہیں جاتی تھی۔ مخالف ٹیم کے کھلاڑی جیسے ہی زور دار ککوں کے ساتھ بال کو لے کر ہماری طرف آتے تو ہماری ٹیم کے کھلاڑی بوکھلا کر ایک طرف ہو جاتے اور مخالف ٹیم گول کر جاتی۔ پھر سارا ملبہ گول کیپر پر گرتا۔ طویل قامت ہونے کی وجہ سے مجھے گول کیپر بنایاگیا تھا۔ لیکن محض قد سے تو میچ نہیں جیتے جا سکتے نا…
مخالف ٹیم کے کھلاڑی بال کو آرام سے گول کے D کے قریب لے آتے اور پھر ایسی زوردار کک مارتے کہ بال گولی کی طرح سنسناتی ہوئی نکل جاتی۔
’’یار الطاف! کچھ تو خیال کرو۔‘‘ سینٹر بیک پر کھڑے برما کے کیپٹن پیٹر نے کہا ’’گول کیپر، ٹیم کی جان ہوتا ہے۔‘‘
’’جان گول کیپر کو بھی پیاری ہوتی ہے دوست!‘‘ میں نے جواب دیا۔ ’’آپ شوق سے میری جگہ آسکتے ہیں۔‘‘
ایک مرتبہ اندازے کی غلطی سے میں بھاگ کر ایک طرف نہ ہو سکا اور بال بجلی کی تیزی سے میری ٹانگوں کے درمیان سے نکل کر گول میں چلی گئی۔
’’الطاف! کم از کم اپنی ٹانگیں ہی بند کر لیتے تو اس گول سے بچ جاتے۔‘‘ کیپٹن پیٹر نے شکوہ کیا۔
’’میں یہ خطرہ مول نہیں لے سکتا۔ پہلے مجھے
Abdomin گارڈ لاکر دیں، پھر میں ٹانگیں بند کر کے گول روکنے کی کوشش کرسکتا ہوں‘‘۔ میں نے جواب دیا۔
درجن بھر گول ہونے کے بعد ہاف ٹائم ہوا۔ مجھے یقین تھا کہ سب مجھے ہی لعن طعن کریں گے۔ اس لئے کولڈ ڈرنک لیتے ہوئے میں نے اعلان کیا کہ اب میں گول کیپر نہیں بنوںگا، کسی اور کو بنایا جائے۔ میرے اس جملے نے جادو کا کام کیا اور سب میری حوصلہ افزائی کرنے لگے۔
’’ایسی کوئی بات نہیں… ہار جیت کھیل کا حصہ ہے… آپ دل چھوٹا نہ کریں… وغیرہ وغیرہ۔‘‘ میں سمجھ گیا کہ گول کیپر ہونے کا جوکھم کوئی نہیں اٹھائے گا۔ تمام کھلاڑی مجھے آمادہ کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ میں نے بھی سوچا کہ باقی کھیل میں بھی مجھے ہی توپ کے دہانے پر کھڑا ہونا پڑے گا۔
واپسی پر آفس کی لڑکیوں نے بھی ہمارا خوب مذاق اڑایا اور پورے راستے طعنے دیتی رہیں۔
’’اتنے بڑے اور سینئر کیپٹن، چیف انجینئر ہو کر بھی آپ لوگ ہمیں فٹ بال کا میچ نہیں جتوا سکے۔‘‘
بنگلا دیش کے چیف انجینئر نے انہیں جواب دیا ’’بیبیو! ہم سمندر میں جہاز چلاتے رہے ہیں یا فٹ بال کھیلتے رہے ہیں۔‘‘
انگلینڈ کے کیپٹن کیرو نے جھینپ مٹانے کے لئے جواب دینا ضروری سمجھا۔ ’’آپ لوگ رف سی میں جہاز چلانے کا مقابلہ منعقد کرائیں تو آپ کو لگ پتا جائے گا کہ یہ کوئی کھیل نہیں، جانبازوں کا کام ہے۔‘‘ اس بات پر پوری بس میں قہقہہ گونجا تھا۔
بہر حال دس برس ملاکا میں رہنے کے دوران ہر دوسرے تیسرے مہینے ملاکا ہائی اسکول اور دیگر اداروں کی ٹیموں کے ساتھ ہمارا فٹ بال میچ ہوتا رہا۔ یہ بات دیگر ہے کہ ہم کبھی بھی کسی ٹیم سے نہیں جیتے۔ لیکن ہفتے میں دو دن فٹ بال کھیلتے رہنے سے ہم اس قابل ضرور ہوگئے تھے کہ اپنی طرف آنے والی بال کو واپس کرنے میں کامیاب ہو جاتے تھے۔ گول ہونے کے خطرے کو ٹالنے کے لئے ایک دو کھلاڑی بھی میرا ساتھ دینے لگے تھے۔
ملائیشیا میں سیپک ٹکرا اور والی بال جیسا ایک اور کھیل بھی مشہور ہے۔ اسے نیٹ بال کہا جاتا ہے۔ ملائیشیا میں ہمارا تعلیمی ادارہ ’’اکیڈمی لاؤت ملائیشیا‘‘ جہاں میں ملائیشیا کی نوجوان نسل کو جہاز رانی اور جہاز سازی کی تعلیم دیتا تھا، سمندر کے کنارے پر واقع ہے۔ ہماری رہائش کیمپس کے اندر تھی۔ ملازمت کے لئے بیرون ملک سے آنے والے ہم Expatriates کے لئے چودہ عدد گھر نیم دائرے میں بنے ہوئے تھے، جن کے گیٹ آگے پیچھے دونوں طرف تھے۔ ایک دروازہ ملاکا اسٹرائٹ سمندر کی جانب کھلتا تھا۔ گھر کے سامنے کھڑے ہوکر سمندر کی اس تنگ راہداری میں سے جہازوں کو گزرتے ہوئے دیکھ کر ماضی کے دن یاد آجاتے تھے، جب ہم جاپان یا کوریا جانے کے لئے گزرتے تھے۔ اس تنگ سمندر کے دائیں بائیں ملائیشیا اور انڈونیشیا کی دھرتی ہونے کے سبب گزرنے والے جہاز سکون کی سانس لیتے ہیں۔ کیوں کہ تنگ سمندری گلی جن دو سمندروں، بحیرۂ ہند اور جنوبی چینی سمندر کو ملاتی ہے، وہ دونوں سمندر جہاز چلانے والوں کو لہو رلا دیتے ہیں۔ بہر حال ہمارے گھر کے عقبی گیٹ سے متصل کچھ حصہ باغیچے پر مشتمل تھا اور اس کے بعد وسیع و عریض میدان تھا، جہاں فٹ بال، والی بال، نیٹ بال اور دوسرے کھیل ہوتے تھے۔ ہم آفس سے آنے کے بعد نیکر پہن کر کھیلنے کے لئے میدان کی طرف جاتے تھے۔ نیٹ بال پر ہمیشہ نوریشا، رسمالہ، سیتی حوا، خاویہ، فریدہ اور نورشیما ہوتی تھیں۔ یہ لڑکیاں ہمارے آفس میں ٹائپسٹ اور کلرک تھیں۔ ان میںکچھ شادی شدہ تھیں اور اپنے ساتھ چار، پانچ سالہ بچے بھی لاتی تھیں۔ کچھ لڑکیوں کی شادیاں ہماری ملاکا میں موجودگی کے دوران ہوئیں۔ میرے پاس ان کی کھیلتے ہوئے اور شادی کی تصاویر موجود ہیں۔ ملئی لوگ میٹھا بہت پسند کرتے ہیں۔ اس لئے موٹاپے کا شکار رہتے ہیں۔ لیکن ہمارے ادارے میں کام کرنے والی لڑکیوں میں خاویہ کے علاوہ سب نے خود کو اسمارٹ رکھا۔ اب تقریباً تیس سال کے بعد ان کے گاؤں ’’کوالا سنگائی بارو‘‘ میں جا کر ان سے ملا تو سب دادیاں اور نانیاں بن چکی تھیِں اور چکن فرائی، ناسی لیماک (ناریل کے دودھ میں پکے چاول) کھا کر خاصی موٹی ہو چکی تھیں، جس پر وہ شرمندہ بھی نظر آئیں۔
میں نے ان کے بچوں سے کہا ’’آپ کی دادیاں اور نانیاں، تو اب ٹریکٹر کے ٹائر نظر آتی ہیں۔ میں نے ان کے جوانی کے فوٹوز Picasa.com پر اپ لوڈ کردی ہیں، یہ ان دنوں میں آج کی اسمارٹ اور پرکشش فلمی ایکٹریس اور گلوکارہ نور فازورا، لیزا سوریہانی، نورا دانش اور سیتی نور ہالیزا جیسی لگتی تھیں۔‘

٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment