برونائی حکومت کا مستحسن فیصلہ

برونائی دارالسلام (Negara Brunei Darussalam) براعظم ایشیا کا ایک چھوٹا سا اسلامی ملک ہے۔ خود مختاری سے قبل یہ بھی برطانوی سامراج کے زیر تسلط تھا۔ یکم جنوری اُنیس سو چوراسی کو اسے مکمل آزادی ملی۔ اس سے قبل برونائی کو داخلی امور کی جزوی خود مختاری حاصل تھی۔ چونکہ اس ملک کو قدرت نے تیل اور گیس کی دولت سے مالامال کر رکھا ہے۔ اس لئے آزادی کے بعد اس کی معیشت نے خوب ترقی کی۔ اس کا شمار دنیا کے امیر ترین ممالک میں ہوتا ہے۔ جہاں فی کس آمدنی کی شرح دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ جبکہ قرضوں کی شرح صفر۔ برونائی میں حسن البلقیہ کی بادشاہت قائم ہے۔ آبادی کا دو تہائی حصہ مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ قانونی نظام اگرچہ برطانوی نہج پر ہے۔ مگر شرعی قوانین کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔ شراب کی خرید و فروخت اور استعمال ممنوع ہے۔ دو ہزار تیرہ میں برونائی کے حکام نے اسلامی قوانین کو مرحلہ وار نافذ کرنے کا اعلان کیا تھا۔ جن کے تحت ہم جنس پرستی اور زنا کے مرتکب افراد کے لیے سنگساری اور چوری کرنے پر اعضا کاٹنے کی سزائیں مقرر کی گئیں۔ یہ قوانین تین مرحلوں پر مشتمل تھے۔ پہلے مرحلے میں جرمانے اور قید کی سزائیں مقرر کی گئیں۔ جبکہ دوسرے مرحلے میں اعضا کاٹنے کی سزائیں شامل تھیں۔ تیسرا مرحلے میں زنا اور ہم جنس پرستی پر سنگساری کی سزائوں کا اعلان ہوا تھا۔ دو مرحلے مکمل ہو چکے ہیں۔ اب آئندہ ہفتے سے تیسرے مرحلے کی سزائوں کو بھی نافذ کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ برونائی کی حکومت نے بدفعلی اور ہم جنس پرستی کو گھناؤنا جرم قرار دیتے ہوئے اس کے مرتکب مجرموں کو سنگسار کرنے کا اعلان کیا ہے۔ تاہم اس قانون کا اطلاق صرف مسلمانوں پر ہوگا۔ جبکہ قتل کرنے کا جرم ثابت ہونے پر سر عام سر قلم کیا جائے گا اور یہ قوانین تین اپریل سے نافذالعمل ہوں گے۔ انسانی حقوق کی نام نہاد تنظیموں نے حسب روایت برونائی حکومت کے اقدام پر واویلا کرنا شروع کر دیا ہے اور شاہ حسن بلقیہ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ان سزائوں کو روکیں۔ کیونکہ یہ انسانی حقوق کے خلاف ہیں۔ جبکہ اقوامِ متحدہ بھی نئے قوانین کے نفاذ پر گہری تشویش کا اظہار کرکے مطالبہ کر چکا ہے کہ ان قوانین کا جائزہ لے کر انہیں بین الاقوامی انسانی حقوق کے مطابق ڈھالنا چاہئے۔ جرائم کو روکنے کیلئے سخت قوانین کا نفاذ کسی کا بھی خالص داخلی معاملہ ہے۔ ہر خود مختار ریاست کو یہ حق ہے کہ جرائم کی بیخ کنی کیلئے سخت ترین سزائیں نافذ کرے۔ دنیا کے کئی ممالک میں معمولی جرائم پر سخت سزائیں دی جاتی ہیں۔ لیکن چونکہ طاغوتی طاقتوں کو اصل چڑ اسلامی قوانین سے ہے۔ اس لئے ان کا نفاذ وہ کسی طرح بھی برداشت کرنے کو تیار نہیں۔ افغان طالبان کا اصل جرم بھی یہی شرعی قوانین کا نفاذ تھا۔ اگرچہ ان کا تختہ الٹنے کیلئے نائن الیون کا بہانہ بنایا گیا۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ جہاں شرعی قوانین نافذ ہوں۔ وہاں جرائم کی جڑ ہی کٹ جاتی ہے۔ اس کی واضح مثال دنیا کے سامنے سعودی معاشرہ ہے۔ جہاں چوری ڈکیتی کا کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا اور قتل عمد پر شہزادوں کو جلاد کے حوالے کیا جاتا ہے۔ اب شاہ حسن بلقیہ نے بھی نہایت مستحسن فیصلہ کیا ہے۔ اس لئے کسی کی تنقید و ملامت کی پروا کئے بغیر خالق کائنات کے وضع کردہ قوانین کو نافذ کرکے ان کی برکات سمیٹنی چاہئیں۔
معمارانِ قوم سے شرمناک سلوک
جمعرات کے روز کراچی میں احتجاج کرنے والے اساتذہ پر پولیس نے تشدد کرکے کئی معماران قوم کو لہولہان کر دیا۔ جس پر گورنمنٹ اسکول ٹیچرز ایسوسی ایشن (گسٹا) نے سندھ بھر میں تدریسی عمل کا بائیکاٹ کرتے ہوئے مطالبات کی منظوری تک احتجاج جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے۔ تقریباً دو ہزار اساتذہ نے کراچی پریس کلب کے باہر احتجاج کے بعد وزیراعلیٰ ہاؤس کی جانب مارچ شروع کیا تو پولیس نے انہیں روکنے کیلئے شیلنگ کے ساتھ لاٹھی چارج کیا۔ جس کے نتیجے میں مظاہرین اور پولیس کے درمیان جھڑپ بھی ہوئی اور متعدد اساتذہ کو گرفتار کر لیا گیا۔ جنہیں رات گئے وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کی ہدایت پر رہا کر دیا گیا تھا۔ جماعت اسلامی سمیت متعدد سیاسی جماعتوں کی جانب سے پرامن مظاہرین پر تشدد کی مذمت کی گئی۔ بائیکاٹ کے سبب جمعہ کو سندھ کے اکثر سرکاری اسکولوں میں طلبہ کی تعلیم متاثر رہی۔ جبکہ اساتذہ کی تعداد بھی نہ ہونے کے برابر تھی۔ گسٹا نے مطالبات کے پورا نہ ہونے کی صورت میں تدریسی عمل کے ساتھ یکم اپریل سے ہونے والے نویں اور دسویں جماعت کے سالانہ امتحانات کے بھی بائیکاٹ کا اعلان کیا ہے۔ جس سے ان امتحانات کے مقررہ وقت پر انعقاد خطرے میں پڑ گیا ہے۔ تاہم صوبائی وزیر تعلیم سردار شاہ پر امید ہیں کہ اساتذہ کے ساتھ مذاکرات کامیاب ہوں گے اور امتحانات کے بروقت انعقاد میں کوئی خلل واقع نہیں ہوگا۔ واضح رہے کہ احتجاج کرنے والے اساتذہ کی جانب سے آٹھ مطالبات کیے گئے ہیں۔ ان میں این ٹی ایس اساتذہ کو مستقل کرنے، مینجمنٹ کیڈر کے سبب اساتذہ میں پائی جانے والی بے چینی ختم کرنے، دو ہزار بارہ میں بھرتی ہونے والے اساتذہ کو تنخواہوں کی ادائیگی اور اساتذہ کا پروموشن وغیرہ شامل ہیں۔ کراچی پولیس نے اساتذہ سے جو سلوک کیا، وہ انتہائی شرمناک ہے۔ ممکن ہے کہ ان کے مطالبات غیر منصفانہ ہوں یا رویہ درست نہ ہو۔ لیکن انہیں لہولہان کرنے کا کوئی جواز نہ تھا۔ سندھ کے وزیر تعلیم ایک شریف سید زادے ہیں۔ لیاری جیسے پسماندہ علاقوں میں تعلیم کے فروغ کیلئے پرعزم ہیں۔ وہ شاید پاکستان کے واحد وزیر ہیں، جو بے پناہ وسائل کے ہوتے ہوئے بھی اپنی اکلوتی بیٹی کو حصول تعلیم کیلئے سرکاری اسکول بھیجتے ہیں۔ اس لئے اساتذئہ کرام کے مقام و مرتبے کو بھی بخوبی جانتے ہوں گے۔ اساتذہ معماران قوم ہیں۔ مہذب دنیا کی سوسائٹی میں انہیں نہایت ادب و احترام کا مقام دیا جاتا ہے۔ سب سے زیادہ مراعات بھی انہی کو حاصل ہوتی ہیں۔ جب اساتذہ معاشی حوالے سے پریشان ہوں تو نونہالان قوم کی کیا تربیت کر سکیں گے۔سندھ حکومت کو چاہئے کہ وہ احتجاجی اساتذہ کے جائز مطالبات کو فی الفور منظور کرے۔ تاہم اساتذہ کرام پر بھی یہ بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ان کے بائیکاٹ سے قوم کے بچوں کا مستقبل دائو پر لگ سکتا ہے۔ سرکاری تعلیمی اداروں کی کارکردگی ویسے بھی انتہائی ناقص ہے۔ اس کے باوجود اگر اساتذہ غیر معینہ مدت تک بائیکاٹ کردیں تو معاملہ مزید خراب ہوجائے گا۔ گوکہ درسی کتب کا نصاب ختم ہو چکا ہے۔ لیکن سرکاری ٹیچرز کے بائیکاٹ سے میٹرک کے امتحانات ایک بار پھر ملتوی ہوجائیں گے۔ اس سے پہلے بھی یہ امتحانات دو بار التوا کا شکار ہو چکے ہیں۔ پہلی بار ہندوؤں کے تہوار ہولی کی وجہ سے امتحانی تاریخ بیس سے بڑھا کر پچیس مارچ کی گئی۔ بعد ازاں تعلیمی بورڈ کے ملازمین کے احتجاج کے باعث اسے یکم اپریل کر دیا گیا، لیکن اب اساتذہ کے احتجاج کے باعث ایک بار پھر امتحانات کا انعقاد خطرے میں نظر آ رہا ہے۔ اس کا طلبا و طالبات کی نفسیات اور امتحانی تیاری پر بہت برا اثر پڑ سکتا ہے۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment