ترکی کے بلدیاتی انتخابات میں صدر طیب رجب اردگان نے اپنی برتری تو قائم رکھی، لیکن دارالحکومت انقرہ میں شکست سے رنگ میں کچھ بھنگ سا پڑ گیا ہے۔ غیر سرکاری نتائج کے مطابق حکمران ترقی و انصاف پارٹی یا AKP نے 44.32 فیصد اور ان کی قریب ترین حریف اتاترک کی CHP نے 30.07 فیصد ووٹ لئے۔ گزشتہ بار اے کے پارٹی نے 42.87 فیصد ووٹ لئے تھے۔ جبکہ اتاترک کی ریپبلکن کو گزشتہ بار 26.34 فیصد ووٹ ملے تھے۔ اس بار اگر اتحادیوں کے ووٹ جوڑ لئے جائیں تو 51.67 فیصد ترکوں نے حکمراں عوامی اتحاد کے حق میں رائے دی اور 37.53 فیصد ووٹروں نے حزب اختلاف کے جمہوری اتحاد پر اعتماد کا اظہار کیا۔
بلدیوں کے مطابق ووٹوں کی تقسیم کچھ اس طرح رہی: تمام بلدیوں کا 44.42 فیصد جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی، 30.7 فیصد ریپبلکن پیپلز پارٹی، 7.25 فیصد نیشنلسٹ موومنٹ پارٹی اور 4.2 فیصد پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی نے حاصل کیا۔ دیگر پارٹیاں بلدیوں کا 6.60 فیصد حاصل کر سکیں۔ تمام بلدیہ میئر سیٹوں پر نگاہ ڈالیں تو جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی 796، ریپبلکن پیپلز پارٹی 246، نیشنلسٹ موومنٹ پارٹی 227، پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی 69 اور ای پارٹی 21 بلدیہ میں منتخب ہوئی ہے۔
انتخابی نتائج پر تبصرہ کرتے ہوئے صدر اردگان نے کہا کہ ترک عوام نے ان کی پارٹی پر اپنے اعتماد کی تجدید کے ساتھ معاشی معاملات پر تحفظات کا اظہار کیا ہے جوآنے والے دنوں میں ان کی اولین ترجیح ہوگی۔ صدر اردگان نے اتحاد جمہور پر اعتماداور ملکی بقا پر حساسیت کا مظاہرہ کرنے پر بالخصوص جنوب مشرقی ترکی میں بسنے والے کرد عوام کا شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے کہا کہ سیاسی بصیرت قوم کو حقیر سمجھنے میں نہیں، بلکہ ان کی خدمت کرنے کا نام ہے، جس کا سلسلہ جاری رکھا جائے گا۔ انہوں نے ایک بار پھر اس بات کا اعادہ کیا کہ ساڑھے چار سال تک ملک میں انتخابات نہیں ہوں گے، لہٰذا اس عرصے میں ہم عوامی خدمت کو اپنا شعار بنانا جاری رکھیں گے اور تمام تصفیہ طلب مسائل کو حل کرنے کے لیے دن رات ایک کریں گے۔انہوں نے یہ بھی کہا عوام نے ہماری کچھ کمزوریوں کی نشاندہی کی ہے، جنہیں دور کرنا ہمارا فرض ہے۔
بلدیاتی انتخابات میں برتری حاصل کرنے پر وزیر اعظم عمران خان سمیت مختلف ممالک کے سربراہوں نے اردگان کو مبارک باددی ہے۔ نتائج کا تجزیہ کرتے ہوئے یہ پہلو بھی ذہن میں رہنا چاہئے کہ بلدیاتی انتخابات میں عوام کی ترجیح قومی انتخابات سے ذرا مختلف ہوتی ہے اور لوگ بلدیاتی پرچۂ انتخاب (بیلٹ پیپر) پر ٹھپہ لگاتے وقت نظریات، قانون سازی اور پالیسی کی تشکیل سے زیادہ گلی محلے کے مسائل کو ذہن میں رکھتے ہیں۔ ان انتخابات میں جوش و خروش دیدنی تھا اور ووٹ ڈالنے کا تناسب 84 فیصد سے زیادہ رہا۔
گزشتہ کچھ عرصے سے ترکی کی معیشت شدید دبائو میں ہے۔ بیرونی قرض بڑھنے اور ترک لیرا کے زوال کی بنا پر ملک کو شدید مہنگائی کا سامنا ہے اور روزگار کی صورت حال بھی کچھ اچھی نہیں۔ نوجوان ترک اردگان کا دست بازو ہیں اور یہی طبقہ بیروزگاری سے سب سے زیادہ متاثر ہے۔ حزب اختلاف کے سربراہ کمال کوچدارولو نے ترک معیشت کو انتخابی مہم کی بنیاد بنایا۔ ترک تاریخ کی یہ پہلی مہم تھی، جس میں CHP کے جلسوں میں ’’حمدِ اتاترک‘‘ اور سیکولر ازم کے فیوض و برکات کا کوئی ذکر نہیں سنا گیا اور نہ ہی اردگان کی ملائیت ہدف تنقید بنی، بلکہ حزب اختلاف کا سارا زور معیشت پر تھا۔ کمال کوچدارولو اور ان کے اتحادی حزب خیر (Good Party) کی محترمہ مرال کثر اپنی تقریروں میں اردگان کو ناکام ارسطو قراردیتے رہے، جنہوں نے اپنے داماد کے ساتھ مل کر ترک معیشت کا بیڑا غرق کر رکھاہے۔ صدر اردگان کے داماد بیرات البیراک (Berat Albayrak) ترکی کے وزیر خزانہ ہیں۔
حزب اختلاف نے ملک کے 6 بڑے شہروں یعنی دارالحکومت انقرہ، استنبول، ازمیر، برسا، اناطالیہ اور ادانہ کو ہدف بنایا۔ حکومت مخالف جمہوری اتحاد نے انقرہ سے اردگان کی 25 سالہ برتری کا خاتمہ کردیا۔ ساتھ ہی اناطالیہ اور ادانا بھی لے اڑے۔ اسی کے ساتھ سیکولر CHP نے ازمیر پر اپنی روایتی برتری برقرار رکھی، جبکہ استنبول میں گھمسان کا رن پڑا۔ جس کی تفصیل ہم ذیل میں ذکر کریں گے۔ نتائج کے مطابق کرد علاقوں، جنوب ترکی، بحرروم کے ساحل اور خلیج یونان سے متصل علاقوں میں جناب اردگان کو سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔
ان انتخابات کا خوش آئند پہلو یہ ہے کہ کرد علاقوں میں علیحدگی پسندوں کی جانب سے بائیکاٹ اور دہشت گرد وں کی دھمکیوں کے باوجود جوش وخروش کے ساتھ انتہائی پرامن انتخابات ہوئے اور کردوں کی پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی HDPنے برتری حاصل کی۔
دوسری طرف چند بڑے شہروں میں کامیابی کے باوجود حزب اختلاف کیلئے نتائج ان کی توقعات کے مطابق نہیں۔ رائے عامہ کے تمام جائزے جمہوری اتحاد کو حکمران عوامی اتحاد سے ایک آدھ پوائنٹ آگے بتا رہے تھے، لیکن حزب اختلاف کے مجموعی ووٹ 38 فیصد بھی کم رہے۔
استنبول کی بدلتی صورتحال:
ترکی کے بلدیاتی انتخابات کے نتائج مکمل ہو چکے، لیکن استنبول کے رئیسِ شہر یا Mayor کے لئے ووٹوں کی گنتی تادم تحریر جاری تھی۔ الیکشن کے روز غیر سرکاری نتائج کے مطابق اردگان کے امیدوار اور سابق وزیر اعظم بن علی یلدرم 4773 ووٹوں کے ساتھ آگے تھے، لیکن کچھ بیلٹ بکسوں کی دوبارہ گنتی کے بعد الیکشن کمیشن نے اعلان کیا کہ 99 فیصد ووٹوں کی گنتی مکمل ہونے بعد CHP کے امیدوار اکرم امام اوغلو کو 27889 ووٹوں کی برتری حاصل ہے، جبکہ ابھی تک 64 بیلٹ بکس نہیں کھولے گئے۔ بن علی یلدرم نے اپنے مخالف امیدوار کی برتری کا اعتراف تو کیا ہے، لیکن ان کا کہنا ہے کہ وہ صرف 20000 ووٹوں سے پیچھے ہیں اور ابھی جن علاقوں کے بیلٹ بکسوں کی گنتی باقی ہے، وہ ان کی پارٹی کا مضبوط گڑھ ہے۔ خیال رہے کہ میئر کے انتخاب میں 83 لاکھ سے زیادہ ووٹ ڈالے گئے ہیں۔
پیر کی دوپہر تک ووٹوں کی گنتی مکمل ہوگئی تھی۔ تاہم دونوں جماعتوں نے بہت سے بیلٹ بکسوں کی دوبارہ گنتی کا مطالبہ کیا۔ الیکشن کمیشن ان درخواستوں پر آج (منگل کی) دوپہر کو اپنا فیصلہ سنائے گا۔ جس کے بعد کورٹ کچہری کا راستہ بھی خارج ازامکا ن نہیں، لہٰذا آوے آوے اور جاوے جاوے کا شور ابھی کچھ عرصہ جاری رہنے کی توقع ہے۔
اس نشست پر جوش و خروش کا یہ عالم تھا کہ یہاں ووٹ ڈالنے کا تناسب 92 فیصد رہا۔ استنبول صدر اردگان کا آبائی علاقہ ہے۔ ترک صدر نے یہیں تعلیم حاصل کی، استنبول کی فٹ بال ٹیم کے ہونہار کھلاڑی کی حیثیت سے شہرت حاصل کی اور پھر مارچ 1994ء میں استنبول کے میئر منتخب ہوئے۔ 1998ء میں اسلام کی نشاۃ ثانیہ پر ایک نظم پڑھنے کے جرم میں انہیں سیاست سے نااہل قرار دے کر جیل بھیج دیا گیا، لیکن 4 سال کے دوران شہر کے نظم و نسق خاص طور سے ذرائع آب نوشی کی ترقی، ماحولیاتی آلودگی پر قابو اور پولیس اصلاحات وغیرہ جیسے زبردست اقدامات کی بنا پر وہ آج بھی استنبول کے ہیرو تسلیم کئے جاتے ہیں۔
مصر و یمن کی اخوان، تیونس کی النہضہ، الجزائر کے اسلامک فرنٹ اور دنیا بھر کی اسلامی جماعتوں کی طرح اردگان اور پروفیسر نجم الدین اربکانؒ نے بلدیات کو اپنی پارلیمانی سیاست کی بنیاد بنایا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ خدمتِ عوام دعوت اور اجتماعی خیر کا کا سب سے مؤثر ذریعہ ہے اور گلی محلوں کے حقیقی مسائل پر توجہ دے کر قومی ایجنڈے پر رائے عامہ کو اپنے حق میں ہموار کیا جا سکتا ہے۔ ٭
٭٭٭٭٭