ملک کے بائیس کروڑ عوام موجودہ حکومت کے دور میں مہنگائی کا رونا کب تک، کیسے اور کہاں کہاں روئیں کہ کسی طرح ان کی زندگی میں کوئی سہولت آئے اور وہ سکون کے ساتھ اپنے اخراجات پورے کرنے کے علاوہ وطن عزیز کی ترقی و خوشحالی میں بھی کوئی کردار ادا کرسکیں۔ ان کی آہیں اور دعائیں بھی ناکام ہوگئیں تو آخری چارہ بددعائیں، کوسنے اور گالیاں دینے کی صورت میں ظاہر ہونے لگا ہے۔ مسلم لیگی رہنما خواجہ آصف کے یہ الفاظ شہریوں کی زبان پر عام ہیں، جو وہ حکمرانوں کا تصور کر کے یا ان کی تصویروں کی طرف ایک خاص انداز میں ہاتھ دکھا کر شب و روز زبان پر لاتے ہیں کہ ’’کچھ شرم ہوتی ہے، کچھ حیا ہوتی ہے‘‘۔ لیکن یہاں تو شرم و حیا اور احساس و ادراک سب کو بالائے طاق رکھ کر نہایت ڈھٹائی کے ساتھ نئے اور تبدیل شدہ پاکستان کا دعویٰ کیا جا رہا ہے۔ اس کے ساتھ ہی ہر شے کی قیمت بڑھا کر لوگوں کو مجبور کیا جا رہا ہے کہ وہ بھی اخلاق، قانون اور ضابطوں کو پیچھے چھوڑ کر برسر اقتدار اور بااختیار لوگوں کی طرح آگے بڑھیں اور بے ایمانی و بددیانتی اختیار کرکے قومی اداروں اور سرکاری خزانے کو نقصان پہنچانے کے لیے جو کچھ کر سکتے ہیں، کر گزریں۔ ڈاکے مارنا ان کے بس کی بات نہیں، لہٰذا جہاں اور جتنا بس چلے، چوری چکاری کرنے سے گریز نہ کریں۔ تحریک انصاف کی نااہل حکومت نے غریب عوام کو لوٹنے کھسوٹنے کا سب سے آسان نسخہ یہی سمجھا ہے کہ پیٹرولیم مصنوعات، بجلی اور گیس کے نرخوں میں آئے دن بے تحاشا اضافہ کر کے اور ٹیکس بڑھا کر مہنگائی کا شیطانی چکر مسلسل گردش میں رکھا جائے، جس کے اثرات روز مرہ ضرورت کی تمام اشیاء کی گرانی کی صورت میں ظاہر ہوں گے۔ اس کے بعد عام شہریوں کی پہلے چیخیں نکلیں گی۔ پھر کچھ بے ہوش ہوں گے اور کچھ جان ہی سے گزر جائیں گے۔ باقی بچ جانے والوں میں جب تک شدید رد عمل پیدا ہوگا، اس وقت تک سابقہ حکمرانوں کی طرح اس قدر مال و دولت جمع کیا جاچکا ہوگا کہ اس کی مدد سے بیرون ملک فرار ہو جائیں گے یا لوٹ کے اس مال سے اداروں کو خرید کر اور وکیلوں کی بھاری فیس ادا کر کے بچنے کی کوشش کریں گے۔ انہیں یقین ہے کہ ان کے دور میں ملک کی دو بڑی پارٹیوں کے رہنما زوال آشنا ہونے کے باوجود جس طرح بھرپور عیش وعشرت کی زندگی گزار رہے ہیں اور موجودہ حکومت کی نااہلی اور بدترین ناکامی سے فائدہ اٹھا کر عوام میں دوبارہ مقبولیت حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، اپنے زوال کے بعد انہیں بھی یہی مواقع فراہم کیے جائیں گے۔ اگر کوئی غیر سیاسی انقلاب آکر انہیں الٹ دے گا تو وہ اس کے بانیوں کے قدموں میں گر کر معافی مانگ لیں گے اور عوامی ہمدردی حاصل کر کے از سر نو اقتدار کے ایوانوں پر چڑھائی کی تیاریاں شروع کردیں گے۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کی مثالیں ان کے سامنے ہیں، جو جمہوریت کی سب سے بڑی چمپیئن ہونے کا اب تک دعویٰ کرتی ہیں، حالانکہ ان کا ماضی مختصر ترین الفاظ میں یہ ہے کہ ایک نے جنرل ایوب خان اور جنرل یحییٰ خان کی کوکھ سے جنم لیا تو دوسری نے جنرل ضیاء الحق کی گود میں آنکھیں کھولیں۔
موجودہ حکومت کے دور میں سات ماہ کے دوران پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھانے پر ذرائع ابلاغ نے ہر مرتبہ کی طرح وہی گھسا پٹا فقرہ دوہرایا ہے کہ حکومت نے عوام پر پیٹرول بم گرا دیا۔ بموںکو جان و املاک کی مکمل تباہی کے لیے گرایا جاتا ہے، جبکہ قیمتوں میں مسلسل اضافہ تو قوم کو چاقوؤں اور چھریوں سے زخمی کرکے اور ان زخموں پر نمک چھڑک کر غریبوں کے تڑپنے اور بلبلانے کے نظارے سے لطف اندوز ہونے کے مترادف ہے۔ عوام کے ساتھ ہمیشہ یہ مذاق کیا جاتا ہے کہ اوگرا یا آئل کمپنیوں کی جانب سے زبردست اضافے کی فرمائش کی جاتی ہے۔ اس کے بعد وزیر اعظم یا حکومت کا کوئی اور ذمہ دار عوام پر احسان کر کے اور ان پر ’’رحم کھا کر‘‘ پیٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں مجوزہ اضافے کی جگہ نصف اضافہ کر کے ان کی ہمدردیاں سمیٹنے کی کوشش کرتا ہے۔ صارفین کے ساتھ حکومتوں کا یہ مذاق کئی عشروں سے جاری ہے۔ جنرل ایوب خان کے دور میں پیٹرول ڈیڑھ دو روپے فی گیلن تھا (یاد رہے کہ ایک گیلن پونے چار لیٹر سے زیادہ ہوتا ہے)۔ تحریک انصاف کی حکومت نے اپنے دور اقتدار میں سات ماہ کے دوران نرخوں میں تیسری بار اضافہ کر کے اسے ننانوے روپے فی لیٹر تک پہنچا دیا ہے۔ جواز اس کا یہ پیش کیا جا رہا ہے کہ اگست 2018ء میں عمران خان برسر اقتدار آئے تھے، اس وقت عالمی منڈی میں خام تیل کی قیمت پچھتر ڈالر فی بیرل تھی، جو کہ کم ہو کر اب چھیاسٹھ ڈالر ہوگئی ہے، بین الاقوامی مارکیٹ میں سات سے آٹھ فیصد کمی کے باوجود اپنے ملک میں ایک بار پھر چھ روپے فی لیٹر پیٹرول مہنگا کر کے غریب شہریوں پر جو بوجھ ڈالا گیا ہے، وہ حکومت کی سراسر نااہلی اور عوام دشمنی ہے۔ وہ پاکستان میں اس وقت بھی پیٹرول کی اصل قیمت انسٹھ روپے کے قریب ہے، لیکن عوام سے ننانوے روپے فی لیٹر وصول کیے جا رہے ہیں۔ اچھی حکومتیں لوگوں کو سہولتیں فراہم کرتی ہیں۔ ڈاکو بن کر انہیں لوٹنے میں مصروف نہیں ہو جاتیں۔ ڈالر کی قیمت میں اضافے اور پاکستانی کرنسی کی بے قدری حکومت کی اپنی ناقص اقتصادی پالیسیوں کا شاخسانہ ہے۔ اس کی بنیاد پر پیٹرولیم مصنوعات کے نرخ بڑھانا دوہرا ظلم ہے۔ مرے یہ سو درے کے مصداق قیمت میں اضافے سے پہلے ہی پیٹرول کی فراہمی بند کر دی جاتی ہے۔ کیوں کہ بچے ہوئے پیٹرول کو بھی بڑھے ہوئے نرخوں پر بیچ کر زیادہ نفع کمانا مقصود ہوتا ہے۔ صارفین کو طویل قطاروں میں انتظار کرا کے ان کی عزت نفس کو مجروع کرنا اور ذلت سے دوچار کرنا پاکستان ہی کے حکمرانوں کو زیب دیتا ہے۔ اس پر طرہ یہ کہ وہ خود غریبوں کے غم میں گھل گھل کر نکھرتے اور صحت مند ہوتے جاتے ہیں۔ دوسری جانب عوامی سہولت کے نام پر کھولے جانے والے یوٹیلیٹی اسٹورز نے فوری طور پر چاول کے نرخ پچاس روپے فی کلو اور دالوں کی قیمتیں پچیس روپے تک بڑھا دی ہیں۔ ماہ رمضان کی آمد سے پہلے ہی اشیائے صرف مہنگی ہونی شروع ہوگئی تھیں۔ اور اب پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں نیا اضافہ عوام پر مزید کیا قیامت ڈھائے گا؟ عام لوگ تنگ آکر اب یہ دہائی دینے لگے ہیں کہ انہیں بار بار ذلیل و خوار کرنے والے حکمرانوں پر آخر کب قیامت ٹوٹے گی؟ ٭
٭٭٭٭٭