ان کی مودی اور ہماری موذی سرکار

بھارت کی مودی سرکار کی طرح پاکستان کی عمرانی حکومت بھی اپنے لوگوں کے لیے کچھ کم عذاب ثابت نہیں ہورہی ہے۔ وہ قدم قدم پر عوام کو دھوکے اور جھٹکے دے رہی ہے۔ دعویٰ اس نے یہ کیا تھا کہ پاکستان کو مدینہ جیسی فلاحی ریاست بنائیں گے۔ تبدیلی کے بعد نئے پاکستان میں ہر طرف امن و سکون اور ترقی و خوشحالی کا دور دورہ ہوگا۔ لوگوں کے بنیادی مسائل حل کرنے کے لیے یقیناً وسائل کی ضرورت پڑتی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان اور ان کی حکومت کا الزام ہے کہ سابقہ حکمران قومی خزانہ لوٹ کر ملک کو کنگال کر گئے، اس لیے ہمیں مالی مشکلات پر قابو پانے میں دشواریوں کا سامنا ہے۔ اگر یہ سب کچھ عام انتخابات سے قبل تحریک انصاف اور اس کی قیادت کو معلوم تھا تو اس نے کس بنیاد پر معاشی ہوم ورک کر کے تمام مشکلات پر قابو پانے کا دعویٰ کیا تھا؟ اور اگر اس پر ساری صورتحال واضح تھی تو عوام کو فریب میں مبتلا کیوں کیا گیا؟ اصل مسئلہ قومی دولت کے لٹیروں سے لوٹی ہوئی دولت واپس لانے کا تھا۔ اس کی جانب معمولی پیش رفت بھی ہوتی تو موجودہ حکومت کو عالمی برادری کے سامنے در در بھیک مانگنے کے لیے جانے کی ضرورت پڑتی، نہ مہنگائی کے ناقابل برداشت بوجھ تلے بائیس کروڑ عوام کو کچلنا پڑتا۔ اپنے ملک میں حکمرانوں کے کارٹیل میں شریک جماعتوں کی یہ دیرینہ روایت ہے کہ وہ کرپشن اور مالی بے ضابطگی کے ایک دوسرے پر الزامات تو لگاتی ہیں، لیکن ملک و قوم کے مفاد میں کوئی قابل ذکر کارروائی نہیں کرتیں، کیوں کہ سب کو اپنی اپنی گردنیں پھنسی ہوئی نظر آتی ہیں۔ عمران خان کی بدقسمتی یہ ہے کہ ان کی ٹیم میں اقتدار و اختیار، مال و دولت اور شہرت کے بھوکے تو بڑی تعداد میں شامل ہیں، لیکن وطن سے محبت اور اخلاص کے حامل لوگوں کی تعداد کو انگلیوں پر شمار کیا جا سکتا ہے۔ حکمرانی کا اہم ترین اور بنیادی اصول یہ ہے کہ اعلیٰ ترین منصب پر فائز شخص اگر مخلص اور اہل ہے تو وہ قومی مقاصد کے حصول میں کبھی ناکام نہیں ہو سکتا۔ وہ اپنے ساتھ صرف ایسے لوگوں کو ملاتا ہے، جو خود اس جیسی سنجیدگی، صلاحیت اور عوام دوستی کے جذبات رکھتے ہوں۔ یہاں تو عالم یہ ہے کہ اعلانات غریبوں کے لیے لاکھوں مکانات اور کروڑوں ملازمتوں کے کیے جاتے ہیں۔ لیکن عملاً ان کی قانون کے تحت حاصل کردہ دکانیں اور عمارات بھی گرا کر لاکھوں افراد کو فاقوں پر مجبور کردیا گیا ہے۔ نئی ملازمتیں تو کیا ملتیں، ریاست کے چوتھے ستون صحافت سے وابستہ ہزاروں افراد چھ سات ماہ کے دوران ملازمتوں اور تنخواہوں سے محروم ہو چکے ہیں۔ معیشت بے حال ہے۔ حج، دوائیں، پیٹرولیم مصنوعات، بجلی، گیس سمیت روز مرہ ضرورت کی تمام اشیا کے نرخ آسمان کو چھو رہے ہیں۔ اعلیٰ عدالتیں حکومت کی ناقص کارکردگی پر برہمی کا اظہار کررہی ہیں اور عام لوگ غیر انصافی سرکار کی حرکتیں دیکھ دیکھ کر اپنا سر پیٹ رہے ہیں۔ وہ یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ جب اس سرکار سے کوئی خوش نہیں تو آخر وہ کونسی قوت ہے، جو اسے سہارا دیئے ہوئے ہے۔
وفاق میں تحریک انصاف کی حکومت اگست 2018ء میں قائم ہوئی، لیکن خیبر پختونخواہ میں تو یہ پارٹی 2013ء کے عام انتخابات کے بعد سے برسر اقتدار ہے۔ وہاں بھی اس کی ناقص کارکردگی اور بدعنوانی کے قصے زبان زد عام ہیں۔ ایک مثال خیبر پختونخواہ کے میگا پروجیکٹ پشاور بی آر ٹی کے بس منصوبے کی ہے، جس میں تاخیر، ناقص منصوبہ بندی اور اخراجات میں اضافے پر صوبائی انسپکشن ٹیم نے تفصیلی رپورٹ پیش کی ہے۔ ٹیم نے اپنی اس رپورٹ میں کئی خامیوں کی نشاندہی کی ہے۔ جس کا اولین نکتہ یہ ہے کہ بی آر ٹی پروجیکٹ مناسب منصوبہ بندی کے بغیر شروع کیا گیا تھا۔ ڈیزائن میں تبدیلی کے باعث منصوبے کی لاگت میں اضافہ ہوا اور غریب شہریوں کے پیسے کو ضائع کیا گیا۔ رپورٹ کے مطابق نکاسی آب کی جیوٹیکنیکل رپورٹ اور ساخت رپورٹ میں خامیوں کی وجہ سے منصوبے میں تبدیلیاں کی گئیں۔ پیدل چلنے والوں کی گزرگاہوں کا خیال نہیں رکھا گیا۔ ناقص منصوبہ بندی کے باعث ٹریفک کا نظام بری طرح متاثر ہوا۔ مستقبل میں بھی شہریوں کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوگا۔ بی آر ٹی باتھ رومز انتہائی ناقص اور غیر معیاری بنائے گئے ہیں۔ گھٹیا اور غیر معیاری کام کے باعث منصوبے میں ابھی سے جگہ جگہ دراڑیں پڑ چکی ہیں۔ شور میں اضافے اور شہریوں کی نجی آزادیوں کا ذرا بھی خیال نہیں رکھا گیا۔ صوبائی انسپکشن ٹیم نے ناقص منصوبہ بندی کے ذمہ داروں کا تعین کر کے ان کے خلاف کارروائی کی سفارش کی اور کہا کہ جن لوگوں نے منصوبے کا ڈیزائن غلط اور جلد بازی میں بنا کر صوبے اور عوام کو نقصان پہنچایا، ان کا کڑا احتساب ہونا چاہئے۔ یاد رہے کہ بی آر ٹی پروجیکٹ ایشین ڈیولپمنٹ بینک کے تعاون سے شروع کیا گیا تھا۔ بینک کا کہنا ہے کہ پشاور بس منصوبے میں بار بار تبدیلیاں پرویز خٹک کی صوبائی حکومت نے خود کرائیں۔ بینک نے ڈیزائن میں تبدیلی کی کوئی تجویز نہیں دی۔ وہ تو صوبائی حکومت کی درخواست پر تبدیلی کی منظوری دیتا رہا۔ دوسری جانب سابق وزیر اعلیٰ خیبر پختونخواہ پرویز خٹک کا کہنا ہے کہ نقشے میں غلطی میرا قصور نہیں۔ میں کوئی انجینئر نہیں اور ڈیزائن دیکھنا میرا کام نہیں۔ یہ ایشین بینک کا پروجیکٹ ہے اور وہی سارے کام کا ذمے دار ہے۔ صوبائی حکومت نے یہ منصوبہ اکتوبر 2017ء میں شروع کیا، جسے چھ ماہ میں مکمل کرنا تھا، لیکن ڈیڑھ سال بعد بھی التوا میں پڑا ہوا ہے۔ جبکہ صوبے میں آج تحریک انصاف کی حکومت ہے۔ اکسٹھ ارب روپے کے تخمینے سے شروع ہونے والے اس منصوبے کی لاگت ڈالر کی قیمت کو آگ لگ جانے کے باعث اب تراسی ارب روپے سے بھی تجاوز کر گئی ہے۔ صوبائی انسپکشن ٹیم نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ ناقص منصوبہ بندی، خراب ڈیزائننگ، حکومتی غفلت اور بدانتظامی سے عوام کے پیسے کو برباد کیا گیا۔ ایک صوبے کے صرف ایک پروجیکٹ میں ناقص کارکردگی کے ذریعے عوام کے پیسے برباد کر کے انہی کو تکالیف میں مبتلا کرنے والی تحریک انصاف پانچ سال کے عرصے میں ملک و قوم کا کیا حشر کرے گی؟ اس تصور کے ساتھ اس کی حکومت کو مودی سرکار کے وزن پر موذی سرکار کا نام دیا جائے تو کیا برا ہے۔ ٭
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment