اسم الٰہی کی تاب نہ لاسکے

ایک دن خدمت گاروں نے دیکھا کہ حضرت شیخ نوریؒ راستے میں بیٹھے رو رہے تھے اور آپؒ کے قریب ہی ایک اجنبی شخص بھی بیٹھا ہوا گریہ و زاری کررہا تھا۔ پھر جب وہ شخص چلا گیا تو آپؒ نے اپنے مریدوں سے مخاطب ہوتے ہوئے فرمایا:
’’وہ ابلیس تھا۔ اس نے اپنی عبادت کو یاد کر کے اس قدر گریہ و زاری کی کہ مجھے بھی رونا آگیا۔‘‘
ایک دن ایک نابینا شخص حضرت شیخ نوریؒ کو راستے میں ملا۔ وہ با آواز بلند اسم الٰہی کا ورد کر رہا تھا۔ حضرت شیخ ابو الحسنؒ نے اس شخص کو مخاطب کر کے فرمایا:
’’تو کیا جانے کے خدا کون ہے؟ اگر جان لیتا تو ایک لمحہ بھی زندہ نہیں رہ سکتا تھا۔‘‘
جیسے ہی حضرت شیخ نوریؒ کی زبان مبارک سے یہ الفاظ ادا ہوئے۔ آپؒ غش کھا کر زمین پر گر پڑے۔ پھر جب ہوش آیا تو شیخ نوریؒ ایک ایسے جنگل میں جا پہنچے، جہاں بانس کی پھانسیں آپؒ کے پورے جسم میں چبھی ہوئی تھیں۔ پھر اسی حالت میں شیخ نوریؒ کو گھر لایا گیا۔ مریدوں، خدمت گاروں اور دوستوں نے آپؒ کو تلقین کی: ’’شیخ! کلمہ طیبہ پڑھئے۔‘‘
حضرت ابو الحسن نوریؒ نے فرمایا: ’’تم لوگ جس کے ذکر کی تلقین کر رہے ہو، میں اسی کے پاس تو جا رہا ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر آپ بادِ نسیم کے جھونکے کی طرح دنیا سے گزر گئے۔
ایک مجلس میں کسی شخص نے حضرت جنید بغدادیؒ سے سوال کیا: ’’معرفت میں حضرت ابو الحسنؒ کا کیا مقام تھا؟‘‘
حضرت جنید بغدادیؒ نے نہایت پر سوز لہجے میں فرمایا:
’’شیخ نوریؒ اپنے دور کے ایسے صدیقوں میں سے تھے کہ آپؒ کے بعد کسی عارف نے اتنی حقیقی اور سچی بات نہیں کہی۔‘‘ یہ تھے حضرت شیخ ابو الحسن نوریؒ جن کی بے مثال جرأت اور جاں نثاری کے سبب خلیفہ معتضد نے صوفیائے عراق کی معافی کا فرمان جاری کیا۔ اگر خدا نخواستہ صوفیوں کی یہ جماعت قتل ہو جاتی تو خدا ہی جانتا ہے کہ تصوف کی تاریخ کیا ہوتی؟
بہر حال اس واقعے کے بعد حضرت جنید بغدادیؒ بہت زیادہ محتاط ہوگئے تھے اور شاید اس وجہ سے آپؒ نے کم علم لوگوں پر اپنی علمی مجلسوں کے دروازے بند کر دیئے تھے اور غالباً اسی باعث آخری عمر میں آپؒ کے مخاطبین کی تعداد بیس سے بھی کم رہ گئی تھی۔(جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment