نجی اسپتال کے ڈائریکٹر سمیت 4القاعدہ دہشت گرد پکڑے گئے

کراچی (اسٹاف رپورٹر) کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ نے پاک کالونی کے علاقے میں کارروائی کرتے ہوئے کالعدم تنظیم کے 4 دہشت گردوں کو گرفتار کرکے انکے قبضے سے اسلحہ اور جہادی رسالے برآمد کرلیے۔ گرفتار دہشت گردوں میں ایک نجی اسپتال کا ڈائریکٹر بھی ہے۔ کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ پولیس نے پاک کالونی کے علاقے میں کارروائی کرتے ہوئے کالعدم القاعدہ کے 4 دہشت گرد قاری عرفان اللہ عرف عثمان، محمد رضوان ، سالک اور زوہیر کو گرفتارکرکے انکے قبضے سے تین ٹی ٹی پستول اور جہادی رسالے برآمد کرلیے، پولیس نے بتایا کہ گرفتار ہونے والے دہشت گرد قاری عرفان اللہ عرف عثمان عرف بلال نے بتایا کہ 1998 میں افغانستان گیا تھا جبکہ سال 2001 میں سپاہ صحابہ طارق روڈ ریونٹ میں شامل ہوا ، سال 2005-6میں میرا تعلق سرمد صدیقی اور ندیم برگر عرف ندیم ملاں کے ذریعے ملک ممتاز القاعدہ سے ہوا ، سال 2007 یا 2008 میں اسے سپاہ صحابہ طارق روڈ یونٹ کا انچارج بنایا گیا ، سال 2009 میں ملک ممتاز کی بہن سے شادی ہوئی رمی کلب بم دھماکے بعد جب ملک ممتاز کو گرفتار کیا گیا تو میں نے خیرپور میں اسکی ضمانت کروائی سال 2012 میں ملک ممتاز کو دوبارہ گرفتاری کے بعد میری گرفتاری کیلئے قانون نافذ کرنے والے اداروں نے چھاپے مارے تو میں فرار ہوگیا۔سال 2013 میں ممتاز رہائی کے بعد میرا رابطہ ملک ممتاز سے ای میل کے ذریعے قائم ہوا تھا اور اسے کراچی کے تمام حالات سے آگاہی دے رہا تھا اور ملک ممتاز کے بھیجے ہوئے تمام تر پیغامات متعلقہ لوگوں تک پہنچا رہا تھا۔دہشت گرد رضوان بی ایچ وائی اسپتال دہلی کالونی میں اعزازی ڈائریکٹر ہے جسکی رہائش نرسری کے پاس ہے ملک ممتاز اعوان جوکہ پہلے لشکر جھنگوی اور بعد میں القاعدہ میں شامل ہوگیا تھااس کے تعلقات رضوان سے بچپن سے تھے۔ ملک ممتاز قانون نافذ کرنے والے اداروں کو مطلوب ہونے کی وجہ سے افغانستان میں روپوش ہے اسکے لیے پیغام رسانی کا کام اور مالی مدد کرتا ہے،گرفتار ہونے والے دہشت گرد سالک انجینئر ہے اسکی دوستی عبدالباسط القاعدہ سے تھی اور عبدالباسط کی مفروری کے دوران اسکو مالی مدد،کھانے پینے اور رہائش کا انتظام اسی کے ذمہ تھا جبکہ اسکی دوستی سانحہ صفورہ کے سزا یافتہ ملزم اظہر عشرت سے بھی تھی۔گرفتار دہشتگرد ذوہیر کی ملک ممتاز سے دوستی تھی اور دہشت گرد ملک ممتاز کے افغانستان سے بھیجے گئے خطوط ذوہیر وصول کرتا تھا اور آگے جسے دینے ہوتے تھے اسے پہنچاتا تھا۔

Comments (0)
Add Comment