اسلام آباد (وقائع نگار خصوصی) نواز لیگ جارحانہ موڈ میں آرہی ہے۔ پارٹی رہنمائوں کو یقین ہو گیا ہے کہ اس بار ان سے وہی سلوک ہو گا۔ جو ماضی میں ان کی خاطر دوسروں سے ہوتا رہا ہے۔ بعض پارٹی ذرائع دعویٰ کرتے ہیں کہ شہباز شریف پر قابو پانے میں ناکامی کے بعد یہ فیصلہ ہو چکا ہے کہ نواز لیگ کو اتنا کٹ ٹو سائز کر دیا جائے کہ چند برس تک وہ کسی کے لیے خطرہ نہ بنے۔ ظاہر ہے یہ کام الیکشن نتائج میں تبدیلی کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ اسی لیے شنید ہے کہ ٹی وی چینلز کو ہدایت دی جا سکتی ہے کہ وہ غیر سرکاری نتائج جاری نہ کریں۔ اور انتخابی سرگرمیوں کی براہ راست کوریج میں بھی احتیاط کریں۔ ذرائع کا دعویٰ ہے کہ نواز لیگ کو شریف خاندان بالخصوص نواز شریف کے قبضے سے نکالنے میں ناکامی نے پارٹی کا سیاسی مستقبل مشکلات میں دھکیل دیا ہے۔ اب عوام جتنے چاہیں ووٹ دیں۔ نتائج وہی ہوں گے۔ جو خطرے کی لکیر کے اندر ہوں گے۔ پارٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ اپنی تخلیق کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ ان کی جماعت احتجاجی سیاست کا راستہ اختیار کرسکتی ہے۔ تاہم یہ کہنا مشکل ہے کہ اس راستے پر چل کر وہ منزل تک پہنچ پائے گی یا نہیں۔ جس پارٹی کے اکائونٹ میں صرف اقتداری سیاست کا سرمایہ جمع ہو۔ جس کے رہنمائوں کی اوسط عمر ساٹھ اور ستر برس کے درمیان ہو۔ اور جس نے ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ کی چھتری تلے سفر طے کیا ہو۔ وہ اچانک یوٹرن لے کر اپنے خالق کے خلاف میدان میں اترنے کی تیاری کر بھی لے تو کتنے قدم آگے بڑھ سکے گی؟ اینٹی اسٹیبلشمنٹ سیاست کا تجربہ سب سے زیادہ پیپلزپارٹی کو ہے۔ پھر اے۔این۔پی کو۔ ان جماعتوں کے کارکنوں نے برسوں جیلیں کاٹی ہیں۔ کوڑے کھائے ہیں۔ ماریں سہی ہیں۔ لیکن اپنے سیاسی نظریات سے وابستہ رہے ہیں۔ ان کی قربانیوں کے پھل آج کی قیادت کھا رہی ہے۔ لیکن نواز لیگ کے لیے شاید یہ پہلا تجربہ ہو گا۔ یہ سوال بھی اہم ہے کہ اینٹی اسٹیبلشمنٹ سیاست کے راستے میں جو کٹھن مقامات آتے ہیں۔ ان سے گزرنے کے لیے پارٹی لیڈر اور کارکنوں کی کتنی تعداد تیار ہے؟ اسمبلی ارکان میں سے کتنے ہوں گے جو ٹھنڈے ٹھار اسمبلی ہال پر جیل کی سلاخوں کو ترجیح دیں گے؟ شاید پارٹی رہنمائوں کو اس کمزوری کا اندازہ ہے۔ تبھی انہوں نے پیپلزپارٹی اور اے این پی سے رابطہ کیا ہے۔ اب اندرخانے بات چیت جاری ہے۔ اگر ان جماعتوں نے احتجاجی تحریک میں نواز لیگ کا ساتھ دینے پر رضامندی ظاہر کی۔ تو پارٹی کو تجربہ کار اور توانا حلیف مل جائیں گے۔ یہ الگ بات ہے کہ اس کے عوض بھاری قیمت ادا کرنی پڑے گی۔ اس حقیقت کے باوجود کہ جن حالات کا شکار ان دنوں نواز لیگ ہے اور آنے والے دنوں میں پیپلزپارٹی بھی ہو گی۔ آصف زرداری ایک اچھے بارگینر کی طرح نواز لیگ سے اپنی قیمت وصول کر سکتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ سندھ میں پی پی کے لیے ٹف ٹائم اور ان کے لیے ہارڈ ٹائم اب چند دنوں کی بات ہے۔ وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ منصوبہ سازوں کے خلاف وہ سندھ میں کچھ بھی کر لیں۔ اس سے کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ مطلوبہ مقاصد کے لیے جوابی دبائو پیدا کرنے کی سرزمین صرف پنجاب ہے۔ جہاں نواز لیگ ایک مضبوط اتحادی کے طور پر ان کی مدد کر سکتی ہے۔ میثاق جمہوریت کی طرف واپسی کا اشارہ دینے والے بلاول کے منہ سے بظاہر یہ بات بڑی لگتی ہے۔ لیکن اس کے پیچھے پی پی نواز لیگ ممکنہ مفاہمت کی وارننگ موجود ہے۔ جس میں اے این پی اور متحدہ مجلس عمل بھی شامل ہو سکتی ہیں۔ سینیٹ میں پیپلزپارٹی جس انداز میں دھاندلی کے خدشات پر نواز لیگ کی ہم آواز ہوئی ہے وہ اس مفاہمت کی جانب کھلا اشارہ ہے۔ ظاہر ہے جمہوریت کا تحفظ کسی ایک یا دو جماعتوں کی ذمہ داری نہیں۔ اور وہ بھی اقتداری جمہوریت کا تحفظ۔ اصل مسئلہ نواز لیگ قیادت کے اندر ہے۔ نواز شریف اور ان کی بیٹی پوری طرح ٹکرانے کے موڈ میں ہیں۔ شہباز ٹکرائو کے ممکنہ انجام سے واقف ہیں۔ انہیں ٹکرائو سے زیادہ مصالحت میں کامیابی کا امکان نظر آتا ہے۔ ایک حقیقت پسند سیاستداں کے طور پر وہ زمینی حقائق کے مطابق چلنا چاہتے ہیں۔ لیکن اپنے بھائی کی قیمت پر نہیں۔ وہ سیاست چھوڑ دیں گے۔ بھائی کی فرمانبرداری نہیں۔ پہلی بات کا تعلق اقتدار سے ہے اور دوسری کا خاندان سے۔ وہ اقتدار کی خاطر خاندان نہیں چھوڑیں گے۔ کوئی بھی صاحب کردار شخص ایسا نہیں کرے گا۔ لیکن اس تصادم سے وہ خاندان کو بچانا ضرور چاہیں گے۔ خاندان کو بھی اور پارٹی کو بھی۔ وہ حسین شہید سہروردی کے فارمولے پر عمل کرنا عملی سیاست کے لیے بہتر سمجھتے ہیں کہ اعلان جنگ کے کر کے دو قدم آگے بڑھو اور مصالحت کر کے ایک قدم پیچھے ہٹ جائو۔ اس طرح کچھ حاصل بھی کر لو گے اور ایک قدم پیش قدمی بھی مل جائے گی۔ مشکل یہ ہے کہ پنجاب کا ووٹر ان سے زیادہ نواز شریف کے ساتھ ہے۔ خصوصاً خواتین کے دل میں باپ بیٹی کی قید سے ہمدردی بڑھی ہے۔ خواتین ویسے بھی مظلوم کی حمایت میں زیادہ دکھی ہوتی ہیں۔ نواز شریف سے زیادہ مریم نواز کی قید نے ان کے دلوں کو دکھی کیا ہے۔ ہم چینلوں پر بیٹھی زبان دراز۔ چرب زبان۔ تیز طرار۔ مکار مخلوق کی بات نہیں کررہے۔ جو ستر برس کی عمر میں بھی سترہ برس کا لک دینا چاہتی ہے۔ اور کسی نہ کسی کا منجن بیچ رہی ہوتی ہے۔ ہم پنجاب کے گائوں دیہات کی بات کررہے ہیں۔ جہاں کی نفسیات ویسے بھی شہروں سے الگ ہے۔ شہروں کی نفسیات میں تنقید اور اعتراض کا عنصر نمایاں ہے۔ جو بعد میں احتجاج کا روپ دھار لیتا ہے۔ دیہات کی نفسیات میں تعمیر کا رنگ نمایاں ہے۔ وہ اعتراض سے زیادہ معاملات اور ماحول کو بہتر بنانا چاہتے ہیں۔ اسی لیے دیہات حکومتیں بناتے ہیں اور شہر حکومتیں گراتے ہیں۔ مشکل تب ہو گی۔ جب دیہات نواز لیگ کے حق میں ووٹ دیں اور ان کے ووٹ کسی کھائی میں غائب ہو جائیں۔ تب نواز لیگ کے احتجاج کی حمایت میں دیہات نکلیں گے یا نہیں؟ یہ ایک اہم سوال ہے۔ تاہم منصوبہ سازوں کو نواز شریف اور نواز لیگ کا فرق ملحوظ رکھنا چاہئے۔ شریف خاندان نہیں تھا۔ تب بھی یہ مسلم لیگ تھی۔ اور نہیں ہو گا۔ تب بھی ہو گی۔ اس لیے شریف خاندان کی وجہ سے مسلم لیگ کو تماشہ نہ بنائیں۔ اسے خالق پاکستان کی جماعت رہنے دیں۔ اس کے وقار۔ بھرم اور وزن میں کمی نہ کریں۔ شریف خاندان ہو نہ ہو۔ مسلم لیگ کو مضبوط رہنا چاہئے۔ اسے اتنا نقصان نہ پہنچے کہ یہ پیروں پر کھڑی ہونے کے قابل نہ رہے۔ یا اتنی کمزور۔ منتشر اور رسوا ہو جائے کہ چھوٹی چھوٹی جماعتیں اس کی نکیل پکڑ کر اِدھر اُدھر گھومتی رہیں۔ قومی سیاست میں نیا اور ایماندار خون جتنا ضروری ہے۔ اس سے زیادہ مسلم لیگ کا توانا رہنا ضروری ہے۔ آئین کی طرح یہ بھی ہماری یکجہتی کی علامت ہے۔ قائداعظم کی نمائندہ ہے۔ اور پاکستان کے تحفظ اور سلامتی کے لیے سب سے زیادہ احساس ذمہ داری رکھنے والی جماعت ہے۔ اسے نواز شریف کے گناہوں کی سزا نہ دی جائے۔ آپ اس کا نام بدل کر دوبارہ مسلم لیگ رکھ لیں۔ نیا خون۔ نئے چہرے۔ نئی قیادت لے آئیں۔ کوئی مسئلہ نہیں۔ لیکن اس کی جگہ عمران جیسے بے ہودہ شخص کے اس غول بیابانی کو نہ دیں۔ جسے اپنا آگا پیچھا بھی معلوم نہیں۔ اس کھوکھلی اور پلپلی جماعت سے جس دن مقتدرہ کا ہاتھ اٹھے گا۔ یہ تاش کے پتوں کی طرح بکھر جائے گی۔ جس جماعت کا ماضی ہو نہ حال۔ اس کی خاطر ایسی جماعت کو پیچھے دھکیلنا کسی طور دوراندیشی نہیں۔ جس کا ماضی اس کے حال سے بہتر ہے۔ اور مستقبل ماضی سے بہتر ہو گا۔