طالبان امریکہ میں اکتوبر تک مذاکرات کرانے کی تیاریاں

پشاور/کابل (رپورٹ:محمد قاسم/امت نیوز) افغان طالبان اور امریکہ کے درمیان براہ راست مذاکرات کے لئے رابطے شروع ہو گئے ہیں۔معاملے میں سعودی عرب و عرب امارات بھی کود پڑے ہیں جو نہیں چاہتے کہ بات چیت قطر میں ہو۔ مذاکرات کی تیاریوں پر غور کیلئے کابل میں رواں ہفتے میں مجوزہ اجلاس میں شرکت کیلئے امریکہ،سعودی عرب و متحدہ عرب امارات کے سفارتکار و انٹیلی جنس کابل پہنچنا شروع ہو گئے۔ ان میں وہ سابق امریکی انٹیلی جنس اہلکار بھی شامل ہیں جو افغانستان پرسوویت یونین کےحملے کے بعد افغانوں سے رابطوں میں رہے ہیں۔امریکی میڈیا نے انکشاف کیا ہے کہ قطر میں امریکہ کے طالبان سے مذاکرات جاری ہیں اور اب تک بات چیت کے 5 ادوار مکمل ہو چکے ہیں۔افغانستان، پاکستان ایکشن پلان کے تحت مذاکرات میں شرکت کیلئے سیکریٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ کی قیادت میں 28 رکنی پاکستانی وفد کابل پہنچ گیا ہے۔دونوں ممالک نے 5ورکنگ گروپس کے قیام پر اتفاق کر لیا ہے۔تفصیلات کے مطابق افغان طالبان اور امریکہ کے درمیان براہ راست مذاکرات کے لئے رابطے شروع ہو گئے ہیں۔ معاملے میں سعودی عرب و عرب امارات بھی کود پڑے ہیں جو نہیں چاہتے کہ بات چیت قطر میں ہو۔ مذاکرات کی تیاریوں پر غور کیلئے کابل میں رواں ہفتے میں مجوزہ اجلاس میں شرکت کیلئے امریکہ،سعودی عرب و متحدہ عرب امارات کے سفارتکار و انٹیلی جنس کابل پہنچنا شروع ہو گئے ہیں۔امریکی چینل این بی سی نیوز کے مطابق قطری دارالحکومت دوحہ اور امارات میں ٹرمپ انتظامیہ کے عہدیداروں و طالبان کے سابق اراکین میں خفیہ ملاقاتوں کا انکشاف کرتے ہوئے کہاہے کہ اب تک بات چیت کے 5 ادوار مکمل ہو چکے ہیں۔ دوحہ ملاقات میں شریک ایک فرد کے مطابق ملاقات ہلکے پھلکے ناشتے پر بہت دوستانہ ماحول میں ہوئی۔جس ہوٹل میں یہ ملاقاتیں ہوئی تھیں۔طالبان نمائندوں کے مطالبے پر ہوٹل کے اندر اور باہر سیکورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے۔ جیسے ہی امریکی ملاقات کے مقام پر پہنچے تو طالبان ایک ایک کرکے وہاں پہنچے۔امریکی محکمہ خارجہ کے ایک ترجمان نے ملاقات کی تصدیق کئے بغیر کہا کہ ٹرمپ انتظامیہ افغان مسئلے کو جلد حل کرنے کیلئے کوشاں ہے۔ باخبر ذرائع نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ سعودی عرب و یو اے ای چاہتے ہیں کہ اکتوبر سے قبل طالبان اور امریکہ کے درمیان مذاکرات کے آغاز و جنگ بندی کا اعلان ہو جائے تاکہ پارلیمانی انتخابات بروقت ہو سکیں۔ذرائع نے بتایا کہ 22 اگست 2017 کو ٹرمپ کی اعلان کردہ افغانستان و جنوبی ایشیا پالیسی ناکام ہو گئی ہے۔نئی مجوزہ پالیسی کے تحت افغان طالبان سے ٹرمپ انتظامیہ براہ راست بات چیت پر تیار ہو گئی ہے۔طالبان سے مذاکرات میں شریک نہ ہونے پر اشرف غنی انتظامیہ نے واشنگٹن سے ہونے والے مذاکرات کو تسلیم نہ کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔طالبان کی ہلمند شوریٰ نے قبائلی عمائدین کو دو ٹوک انداز میں بتایا ہے کہ امریکہ سے مذاکرات میں اشرف غنی انتظامیہ شریک نہیں ہوگی، مذاکرات میں اس کے نمائندوں کو برداشت کرنے کا مطلب افغان حکومت کو جائز تسلیم کرنا ہوگا۔ ذرائع کے مطابق سعودی عرب اور امارات نہیں چاہتے کہ واشنگٹن وطالبان کے مذاکرات قطر میں ہوں۔دونوں ممالک مذاکرات کیلئے میزبانی کی پیشکش کر چکے ہیں۔طالبان پر قطر یا ایرانی دباؤ کے پیش نظر دونوں ممالک نے اپنے زیر اثر اردن کا نام تجویز کیا ہے۔سعودی سفارتکاروں کے حزب اسلامی سے روابط میں بھی اضافہ ہو گیا ہے۔ طالبان ذرائع کے مطابق امریکہ افغانستان پر بزور قوت قابض ہے اور ہم اس کے انخلا پر بات چیت کرنا چاہتے ہیں۔بات چیت میں افغان حکومت کی شمولیت مذاکرات سبوتاژ کرنے کے مترادف ہوگی۔کابل میں موجود ’’امت‘‘ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ سعودی عرب اور امارات 20 برس بعد افغانستان میں دوبارہ متحرک ہوگئے ہیں۔ 1998 میں ملا عمر سے اسامہ کی حوالگی پر مذاکرات کی ناکام ہونے پرختم ہونے والے رابطے سعودی عرب نے 3ماہ قبل بحال کر دیئے ہیں۔ملاعمر دور کے اہم طالبان رہنما وکیل احمد متوکل، ملا آغا معتصم، پاکستان میں سابق سفیر ملا ضعیف، طالبان کمانڈر ملا عبد السلام راکٹی اور کیوبا سے رہا ہونے والے بعض رہنما امارات میں اہل وعیال کے ہمراہ قیام پذیر ہیں۔ ملا عمر کی جانب سے یو اے ای میں متعین سفیرسہیل شاہین آج کل طالبان کے قطر دفتر کے ترجمان ہیں اور ان کے اہل خانہ بھی امارات میں قیام پذیر ہیں۔سہیل شاہین کے اماراتی حکام سے گہرے تعلقات ہیں۔ کابل میں ذرائع کے مطابق جدہ کانفرنس پر ناراضگی کے باوجود سعودی عرب اور طالبان کے درمیان رابطے قائم ہیں۔ امریکہ چاہتا ہے کہ امارات و سعودی عرب کو استعمال کر کے ایران و طالبان میں تعلقات ختم کئے جائیں۔آئندہ ہفتے اس حوالے سے چار فریقی اجلاس کو اہم تصور کیا جارہا ہے۔علاوہ ازیں افغانستان، پاکستان ایکشن پلان کے تحت مذاکرات میں شرکت کیلئے سیکریٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ کی قیادت میں 28 رکنی پاکستانی وفد کابل پہنچ گیا ہے۔ دفتر خارجہ کے ترجمان محمد فیصل کے مطابق سیکریٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ کا کہنا ہے کہ عام انتخابات سے محض 2 روز قبل پاکستانی وفد کی کابل میں موجودگی ہدف کے حصول کیلئے پاکستان کے پرخلوص عزم کی عکاس ہے۔ انہوں نے بتایا کہ افغانستان پاکستان ایکشن پلان کے تحت 5 ورکنگ گروپس بنا دیئے گئے ہیں۔ پانچوں ورکنگ گروپس میں رابطے بہتربنانے و ایکشن پلان پرعمل پراتفاق کا اعلان بھی کیا گیا ہے۔ افغانستان جانے والے وفد میں وزارت خارجہ و داخلہ، کامرس، ایف بی آر،ریلوے، مواصلات،سیفران، انٹیلی جنس اور فوجی حکام شامل تھے۔ پاکستانی وفد سے ملاقات میں افغان وفد کی قیادت نائب وزیر خارجہ حکمت کرزئی نے کی۔ ایکشن پلان دونوں ممالک کواداروں کی سطح پربات چیت کیلئے فورم مہیاکرتاہے، اجلاس میں دونوں وفود نے دہشت گردی کے خاتمے پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا، ڈاکٹر فیصل نے مزید کہا کہ علاقائی امن و سلامتی اور افغان مہاجرین کی واپسی پربھی تبادلہ خیال کیا گیا۔

Comments (0)
Add Comment