دونوں جماعتوں کا نمبر گیم پھنس گیا

کراچی/اسلام آباد/پشاور /کوئٹہ(رپورٹنگ ٹیم /امت نیوز) 2018 کے عام انتخابات کے سلسلے میں معلق پارلیمنٹ کیلئے میدان تیار کر لیا گیا۔ اکثریت حاصل کرنے سے متعلق تحریک انصاف کے خواب چکنا چور ہوگئے ہیں، جب کہ مخلوط حکومت کیلئے نواز لیگ اور پیپلز پارٹی نے رابطے شروع کر دیئے ہیں۔ انتخابات کا اصل نتیجہ تو 25 جولائی کو ہی سامنے آئے گا تاہم انتخابی نتائج پر نظر رکھنے والے ذرائع کے مطابق الیکشن میں حصہ لینے والی دونوں بڑی جماعتوں کا نمبر گیم پھنس چکا ہے، نواز لیگ اور عمران کی جماعت کو قومی اسمبلی کی مساوی نشستیں ملنے کا امکان ہے- رائے عامہ کے جائزوں سے پتہ چلتا ہے کہ سابقہ حکمران جماعت قومی اسمبلی کی 72 نشستوں پر آگے ہے اوراسے مجلس عمل کے ساتھ اے این پی اور پختونخواہ میپ کی ممکنہ16 نشستوں کی حمایت حاصل ہوگی۔ جب کہ 69 نشستوں کے ساتھ تحریک انصاف دوسرے نمبر پر ہے اور اس کے ممکنہ اتحادی جی ڈی اے اور بلوچستان عوامی پارٹی(باپ)بالترتیب5اور 4نشستیں حاصل کرنے کی پوزیشن میں ہیں ۔مذکورہ صورتحال میں حکومت سازی کیلئے دیگر چھوٹی جماعتوں سمیت آزاد امیدواروں پر انحصار بڑھ جائے گا ۔ واضح رہے کہ قومی اسمبلی کی کل 272نشستوں میں سے 270پر انتخابات ہو رہے ہیں اور سادہ اکثریت کیلئے 135 ارکان کی ضرورت پڑے گی۔ رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق پنجاب میں قومی اسمبلی کی کل 141نشستوں میں نواز لیگ تقریباً 65 نشستوں کے ساتھ آگے ہے اور پی ٹی آئی کو 40سے 45نشستیں مل سکتی ہیں تاہم اسے خیبر پختون میں کم ازکم 20نشستوں پر سبقت حاصل ہے، 5نشستوں پر ن لیگ اور 8پر مجلس عمل کامیاب ہوسکتی ہے۔ سندھ میں پیپلزپارٹی کو27نشستوں پر برتری ہے جہاں اپوزیشن اتحاد جی ڈی اے بھی کم ازکم 5نشستیں جیت سکتا ہے اور ایک نشست پر مجلس عمل آگے ہے۔ جب کہ بلوچستان میں نئی سیاسی جماعت بلوچستان عوام پارٹی کم ازکم 4نشستوں کے ساتھ پہلے اور مجلس عمل 2نشستوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہے۔ اس صورتحال میں کوئی بھی جماعت تنہا حکومت بنانے کی پوزیشن میں نظر نہیں آتی۔ باخبر ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ نواز لیگ اور پیپلز پارٹی کو اس بات کا احساس کئی دن پہلے ہو گیا تھا کہ مقابلے کے لیے کھلی آزادی نہ ملنے کی صورت میں کوئی جماعت اکثریت نہیں حاصل کر سکے گی۔ لہذا مخلوط حکومت کے لیے دونوں جماعتوں میں غیر رسمی رابطوں کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔ تاہم ان رابطوں میں اس وقت تیزی آگئی جب تحریک انصاف کے عمر رسیدہ رہنما عمران خان نے اعلان کیا کہ وہ پیپلزپارٹی کے ساتھ مل کر حکومت نہیں بنائیں گے بلکہ اپوزیشن میں بیٹھنے کو ترجیح دیں گے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ا ن رابطوں کے حوالے سے بلاول بھٹو زرداری سرگرم ہیں ، بظاہر آصف زرداری ایسے کسی رابطے کے حق میں نہیں لیکن بلاول بھٹو کو ان کی پوری حمایت حاصل ہے۔ کیونکہ انہیں اس بات کا اندازہ ہے کہ ان کے خلاف گھیرا تنگ ہو رہا ہے۔ اور الیکشن کے بعد ان پر بھی برا وقت آسکتا ہے ۔ ایسی صورت میں ان پر وفاقی حکومت کا شیلٹر رہا تو کئی معاملات میں رعایت مل سکتی ہے۔ ذریعے کے بقول ان رابطوں کی سنجیدگی کا اندازہ الیکشن نتائج کے بعد ہی ہوگا تاہم اصولی طور پر دونوں جماعتوں کی طرف سے یہ رابطے بڑھانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ملک بھر سے موصولہ رپورٹس کے مطابق اسلام آباد کی 3قومی نشستوں میں سے دو تحریک انصاف کو ملنے کا امکان ہے۔ این اے52پر مسلم لیگ(ن) کے طارق فضل چوہدری جیت سکتے ہیں۔ این اے 53پر شاہد خاقان اور عمران خان میں کڑا مقابلہ ہے تاہم نواز لیگ کے دعوؤں کے برعکس یہ نشست عمران خان کو ملنے کا امکان ہے جب کہ این اے 54پر بھی تحریک انصاف کے اسد عمر جیت سکتے ہیں۔ پنجاب کے معروف حلقوں کا سرسری جائزہ لیا جائے تو این اے55اور 56 اٹک سے تحریک انصاف کے طاہر صادق کی پوزیشن بہتر ہے۔این اے 57پنڈی1سے سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی، این اے 58پنڈی 2میں پی پی کے سابق وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف اپنے ادوار میں کیے گئے کاموں کی بدولت فاتح دکھائی دیتے ہیں۔این اے 59پنڈی 3سے آزاد امیدوار چوہدری نثار کو نواز لیگ کے قمر السلام نے پھنسایا ہوا ہے، جب کہ این اے 63پنڈی7 سابق وزیر داخلہ کا پلڑا بھاری ہے۔اسی طرح این اے 69گجرات سے ق لیگ کے چوہدری پرویز الٰہی کی پوزیشن مضبوط ہے۔ این اے 72سیالکوٹ سے نواز لیگ کے چوہدری ارمغان ، پی ٹی آئی کی فردوس عاشق اعوان کو پچھاڑتے دکھائی دیتے ہیں۔این اے 73میں خواجہ آصف کو عثمان ڈار سے سخت خدشات لاحق ہیں۔این اے 78نارووال سے احسن اقبال جب کہ این اے 95میانوالی سے عمران خان مضبوط پوزیشن میں ہیں۔این اے 106فیصل آباد سے نواز لیگ کے راناثنا کو پی ٹی آئی کے نثار جٹ مشکل میں ڈالیں گے، جب کہ مذہبی ووٹ بھی ان کی مخالفت میں پڑنے کا امکان ہے۔این اے 108سے نواز لیگ کے عابد شیر علی جیتنے کی پوزیشن میں ہیں۔این اے 114جھنگ سے پی پی کے مخدوم فیصل صالح حیات جب کہ این اے 124لاہور سے حمزہ شہباز آسانی سے جیتنے کی پوزیشن میں ہیں۔ این اے 129سے پی ٹی آئی کے عبدالعلیم خان کو ایاز صادق کے مقابلے میں مشکلات کا سامنا ہوسکتا ہے۔این اے 131لاہور کا اہم ترین حلقہ ہے یہاں سے عمران خان کو خواجہ سعد رفیق سے خطرات لاحق ہیں اور خواجہ سعد مضبوط امیدوار ہیں۔ این اے 132لاہورشہباز شریف جیت سکتے ہیں۔ اسی طرح جنوبی پنجاب میں دیکھا جائے تو این اے 154 ملتان سے آزاد امیدوار سکندر حیات بوسن این اے 155 اور 156سے بالترتیب پی ٹی آئی کے محمد عامر ڈوگر اور شاہ محمود قریشی جیت سکتے ہیں۔این اے 160اور 161 لودھراں سے نواز لیگ کے عبدالرحمن کانجو اور صدیق بلوچ مضبوط پوزیشن میں دکھائی دیتے ہیں۔این اے 177رحیم یار خان سے پی پی پی کے شہاب الدین مضبوط امیدوار ہیں۔ این اے 182مظفر گڑھ سے جمشید دستی جیتنے کی پوزیشن میں ہیں۔این اے 193راجن پور سے پی ٹی آئی کے جعفرلغاری سیٹ جیت سکتے ہیں۔ تین اہم ترین مذہبی سیاسی جماعتیں اس بار اگرچہ کوئی خاص سیٹ تو نہیں جیت پائیں گی لیکن ان کا ووٹ بنک دیگر امیدواروں کو نقصان دے گا، ان میں سب سے اہم تحریک لبیک پاکستان ہے ، جب کہ اللہ اکبر تحریک اور متحدہ مجلس عمل کے امیدوار بھی دیگر مضبوط امیدواروں کے حلقوں میں اپ سیٹ کرنے کی پوزیشن میں دکھائی دیتے ہیں۔قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی پنجاب کی کل نشستوں کو مد نظر رکھ کر پارٹی پوزیشن کچھ یوں بنتی دکھائی دیتی ہے، مسلم لیگ نواز 50سے 60،تحریک انصاف 40سے45،پیپلز پارٹی تقریباً 6جب کہ آزاد 25سے 30نشستوں پر کامیاب ہوں گے، باقی نشستوں میں کچھ دیگر جماعتیں حاصل کریں گی۔سندھ کی 61جنر ل نشستوں میں سے پی پی پی کو27‘گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کو 5‘متحدہ قومی موومنٹ کو3‘پاک سر زمین پارٹی اور تحریک انصاف کو2-2جب کہ مجلس عمل اور مہاجر قومی موومنٹ کو ایک ایک نشست پر واضح برتری حاصل ہے دیگر 20نشستوں پر تمام جماعتوں کے درمیان کانٹے کا مقابلہ ہونے کی توقع ہے، جن میں کراچی کی 10اور اندرون سندھ کی 10نشستیں شامل ہیں۔’’امت‘‘ سروے کے مطابق 25جولائی کو ہونے والے انتخابات میں سندھ سے 27سے 34‘پی ٹی آئی کے 3سے 5‘جی ڈی اے کے 5سے 10‘متحدہ قومی موومنٹ کے 3سے 7‘پی ایس پی کے 2 سے 4‘مجلس عمل کے ایک سے 3‘جمعیت علما پاکستان کا ایک ‘جبکہ مہاجر قومی موومنٹ کے 2تک امیدوار کامیاب ہوسکتے ہیں ۔ سندھ کی 61نشستوں میں سے اندرون سندھ کی 40نشستوں میں سے تقریباً 24حلقوں میں پی پی کو واضح برتری حاصل ہے جن میں ضلع لاڑکانہ ‘قمبر شہداد کوٹ ‘بے نظیر آباد ‘سکھر کی تمام 2-2نشستیں شامل ہیں ‘جو بالترتیب بلاول زرداری ‘خورشید جونیجو ‘آفتاب شعبان میرانی ‘میر عامر مگسی ‘آصف علی زرداری ‘ غلام مصطفیٰ شاہ ‘سید خورشید احمد شاہ ‘نعمان اسلام شیخ کی کامیابی کے روشن امکانات ہیں ۔اس کے علاوہ ضلع جامشورو ‘مٹیاری ‘ٹنڈو الہ یار ‘سجاول ‘ٹھٹھہ ‘کشمور ‘عمر کوٹ اور ٹنڈو محمد خان کی ایک ایک نشست شامل ہیں ‘ جن میں بالترتیب سکندر راہ پوٹو ‘مخدوم جمیل الزمان ‘ذوالفقار بچانی ‘ایاز شاہ شیرازی ‘شمس النسا میمن ‘نواب یوسف ٹالپور ‘اور نوید قمر کو سبقت حاصل ہے ‘واضح رہے کہ مذکورہ اضلاع میں قومی اسمبلی کی ایک ایک نشست ہے۔اس کے علاوہ ضلع خیر پور کی تین نشستوں میں سے ایک میں پی پی پی کی نفیسہ شاہ ‘ایک میں جی ڈی اے کے پیر صدر الدین شاہ راشدی کو برتری حاصل ہے، جبکہ ایک نشست میں مقابلے کی توقع ہے ‘ضلع سانگھڑ کی تین نشستوں میں سے ایک نشست پر جی ڈی اے کے حاجی خدا بخش راجڑ اور پی پی کے روشن دین جونیجو ‘کی برتری ہے جبکہ ایک حلقہ این اے 216میں پی پی کی شازیہ مری اور جی ڈی اے کے کشن چند پاروانی امیدوار کے درمیان مقابلہ ہوگا ۔ضلع گھوٹکی کے 2 حلقوں میں سے ایک حلقے میں پی پی کے خالد احمد خان لونڈ کو برتری حاصل ہے جبکہ دوسرے قومی اسمبلی کے حلقے میں آزاد حیثیت سے انتخابات میں حصہ لینے والے علی احمد مہر جنہیں جی ڈی اے کی حمایت حاصل ہے ان کے اور پی پی کے احسان سندرانی کے درمیان مقابلہ متوقع ہے ‘اسی طرح میرپورخاص کے ایک حلقے میں پی پی کے میر منور ٹالپور کو سبقت حاصل ہے جبکہ دوسرے حلقے میں پی پی کے پیر علی حسن شاہ کو آزاد حیثیت سے انتخابات میں حصہ لینے والے پی پی کے سابق صوبائی وزیر علی نواز شاہ جنہیں جی ڈی اے کی حمایت حاصل ہے کے درمیان سخت مقابلہ ہے ‘ضلع تھرپاکر میں ایک حلقے میں پی پی پی کے امیدوار کو واضح برتری حاصل ہے جبکہ دوسرے حلقے میں پی ٹی آئی کے مرکزی رہنما مخدوم شاہ محمود قریشی کا پی پی کے نو ر محمد شاہ جیلانی کے درمیان سخت مقابلہ متوقع ہے ۔سندھ میں سب سے اہم مقابلے ضلع بدین میں ہیں جہاں جی ڈی اے کی امیدوار ڈاکٹر فہمیدہ مرزا ‘کو برتری حاصل ہے جبکہ مذکورہ ضلع کے دوسرے حلقے میں پی پی پی کے غلام علی تالپور اور جی ڈی اے کے حسام مرزا کے درمیان مقابلہ ہوگا ۔وہاں ضلع شکار پور کے دو حلقوں میں سے ایک حلقے میں پی پی کے عابد بھیئو ‘اور دوسرے حلقے میں جی ڈی اے کے غوث بخش مہر کو برتری حاصل ہے ‘جیکب آباد کے واحد قومی اسمبلی کے حلقے میں پی ٹی آئی کے امیدوار سابق چیئرمین سینیٹ محمد میاں سومرو اور پی پی پی کے اعجاز جاکھرانی کے درمیان سخت مقابلہ ہے یہاں بظاہر محمد میاں سومرو کی پوزیشن مستحکم نظر آرہی ہے ۔ضلع دادو کے دو حلقوں میں سے ایک حلقے میں پی پی پی کے رفیق جمالی کو برتری حاصل ہے، جبکہ دوسرے حلقے میں پی ٹی آئی کے لیاقت جتوئی اور پی پی پی کے عرفان لغاری کے درمیان کانٹے کا مقابلہ متوقع ہے ۔اس طرح ضلع حیدرآباد کے تین حلقوں میں سے ایک حلقے میں پی پی ‘ایک میں متحدہ کو سبقت حاصل ہے جبکہ ایک حلقے میں جے یو پی کے ابوالخیر محمد زبیر اور متحدہ کے امیدوار کے درمیان سخت مقابلہ متوقع ہے ‘مذکورہ حلقے میں پی پی پی نے جے یو پی کے امیدوار سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے تحت اپنے امیدوار عرفان گل مگسی کو دستبرادر کروایا ہے ۔ اس طرح کراچی کے ضلع ملیر کے تین میں سے دو حلقوں میں پی پی پی امیدوار آگے ہیں ‘ایک حلقے میں سخت مقابلہ ہوگا ۔ضلع کورنگی میں قومی اسمبلی کے تین حلقوں میں سے ایک ایک حلقے میں ایم کیو ایم پاکستان ‘پاک سر زمین پارٹی اور مہاجر قومی موومنٹ کی سبقت نظر آرہی ہے ۔کراچی شرقی کے 4قومی اسمبلی کے حلقوں میں سیاسی جماعتوں کے درمیان کانٹے کا مقابلہ ہے جن میں پی ٹی آئی ‘ایم کیو ایم پاکستان ‘پی ایس پی ‘مجلس عمل کے ساتھ ایک حلقے میں نواز لیگ بھی مقابلے میں شامل ہے ۔کراچی ضلع جنوبی کے دو حلقوں میں سے ایک پر پی پی پی کے بلاول زرداری ‘اور ایک میں پی ٹی آئی کے عارف علوی کی پوزیشن مستحکم ہے ‘آبادی کے لحاظ سے سندھ کے سب سے بڑے ضلع غربی کراچی میں قومی اسمبلی کے پانچ حلقے ہیں جن میں سے ایک حلقے این اے 249میں ن لیگ کے صدر شہباز شریف‘ایک حلقے این اے 250میں متحدہ مجلس عمل کے امیدوار حافظ نعیم الرحمن کی برتری حاصل ہے جبکہ باقی تین حلقوں میں متحدہ ‘ پی پی پی ‘اے این پی ‘متحدہ مجلس عمل ‘پی ایس پی اور پی ٹی آئی کے درمیان سخت مقابلہ ہے ۔کراچی ضلع وسطی کے 4قومی اسمبلی کے حلقوں میں سے ایک ایک پر متحدہ اور پی ایس پی کو برتری حاصل ہے جبکہ باقی دو حلقوں میں پی ایس پی ‘ایم کیو ایم پاکستان ‘متحدہ مجلس عمل اور پی ٹی آئی کے درمیان سخت مقابلے کی توقع ہے ۔خیبر پختون اور فاٹا میں قومی اسمبلی کی 51نشستوں میں سے 20پر تحریک انصاف کی جیت یقینی بتائی جاتی ہے ۔مجلس عمل کو8عوامی نیشنل پارٹی کو 3،پیپلز پارٹی کو 2قومی وطن پارٹی کو ایک نشست ملے گی۔5 نشستوں پر مسلم لیگ ن کے امیدوار کامیاب ہوں گے۔5پر آزاد جبکہ دیگر نشستوں پر سخت مقابلہ ہوگا۔’’امت‘‘ کو ملنے والی معلومات کے مطابق اے این پی کے سربراہ اسفندر یار ولی کو این اے 24چارسدہ میں پی ٹی آئی امیدوار فضل محمد خان سے سخت مقابلے کا سامنا ہے جبکہ این اے 35بنوں پر عمران خان اور اکرم درانی کے درمیان کانٹے کا مقابلہ ہوگا۔ اسی طرح جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کا پی پی کے فیصل کریم کنڈی ، جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق کا پی ٹی آئی کے بشیر خان۔ قومی وطن پارٹی کے سربراہ آفتاب شیرپاؤ کا ایم ایم اے کے امیدوار حاجی ظفر علی خان۔ ن لیگ کے صدر شہباز شریف کا سوات میں پی ٹی آئی کے سلیم الرحمان ۔ پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو زردای کا مالاکنڈ میں ایم ایم اے کے امیدوار مولانا گل نصیب خان سے سخت مقابلہ ہوگا۔ ایف آر کی نشست پرآزاد امیدوار بازگل آفر یدی ، خیبر ایجنسی سے آزاد امیدوار شاہ جی گل آفریدی ، باجوڑ سے آزاد امیدوار شہاب الدین کی برتری حاصل ہے ۔ قبائلی علاقوں سے کل پانچ آزاد امیدوارجیت کی پوزیشن میں ہیں۔ بلوچستان میں قومی اسمبلی کی 16نشستوں میں سے کم از کم 4نئی سیاسی جماعت بلوچستان عوامی پارٹی جب کہ متحدہ مجلس عمل 2نشستوں پر کامیابی حاصل
کرسکتی ہیں۔ ایک نشست پر آزاد امیدوار آگے ہے۔ ذرائع کے مطابق این اے 259،260،261اور 270پر بالترتیب بلوچستان عوامی پارٹی کے امیدواروں دوستین ڈومکی ، نوابزادہ خالد مگسی، ظہور حسین اور احسان اللہ ریگی آگے ہیں جب کہ این اے 264اور 265پر مجلس عمل کے مولوی عصمت اللہ اور حافظ حمداللہ کو سبقت حاصل ہے۔این اے 257پر متحدہ مجلس عمل کے مولانا عبدالواسع اور پی ٹی آئی کے محمد امین خان جوگیزئی پشتونخوامیپ کے اللہ نور جبکہ این اے 258 لورالائی، موسیٰ خیل پر ایم ایم اے کے امیدوار مولانا امیر زمان اور مسلم لیگ (ن) کے سردار یعقوب ناصر کے درمیان کانٹے دار مقابلے متوقع ہیں۔این اے 262پشین بلوچستان عوامی پارٹی کے گوہر اعجاز خان کاکڑ اور پشتوانخوا میپ کے محمد عیسیٰ خان مدمقابل ہے جبکہ محمد ہاشم پانیزئی تحریک انصاف سے ان کا مقابلہ کرینگے این اے 263 قلعہ عبداللہ سے عوامی نیشنل پارٹی اصغر خان اچکزئی اور پشتوانخوامیپ کے محمود خان اچکزئی کے درمیان کانٹے دار مقابلہ متوقع ہے ۔این اے 266کوئٹہ 3حافظ حسین احمد متحدہ مجلس عمل کے امیدوار ہے جن کا مقابلہ بلوچستان نیشنل پارٹی کے امیدوار اغاحسن بلوچ سے متوقع ہے ایسی طرح این اے 267قلات مستونگ شہید سکندر آباد مسلم لیگ ن کے نواب ثنا اللہ خان زہری کا مقابلہ بلوچستان نیشنل پارٹی کے منظور بلوچ بلوچستان عوامی پارٹی سردارنور احمد بنگلزئی کے درمیان متوقع ہے این اے 268سردار فتح محمد حسنی آزاد حیثیت سے جبکہ ان کے مقابلے میں مسلم لیگ (ن) جنرل عبدالقادر بلوچ اور پیپلزپارٹی کے سردار عمر گورگیج میدان میں ہے جن میں سردار فتح کی پوزیشن مستحکم نظر آتی ہے این اے 269خضدار بلوچستان نیشنل پارٹی کے قائد سردار اختر جان مینگل کا مقابلہ میر شفیق الرحمن آزاد امیداور سے متوقع ہے، این اے 271کیچ تربت بلوچستان عوامی پارٹی کی زبیدہ جلال اور بلوچستان نیشنل پارٹی عوامی کے سید احسان شاہ کے درمیان مقابلہ متوقع ہے این اے 272لسبیلہ گوادر میں بلوچستان عوامی پارٹی کے جام کمال آزاد امیدوار اسلم بھوتانی اور بی این پی مینگل کے امیدوار سردار اختر جان مینگل کے درمیان کانٹے دار مقابلہ متوقع ہے تاہم اس حلقے میں جام کمال اور اسلم بھوتانی کی پوزیشن بہتر نظر آرہی ہے۔

Comments (0)
Add Comment