تنظیمی اختلافات۔پی پی۔پی ٹی آئی امیدوارں کیلئے خطرہ

کراچی (رپورٹ :سید نبیل اختر / اسامہ عادل) این اے 248 میں اصل مقابلہ پی پی، تحریک انصاف اور مجلس عمل کے امیدواروں کے درمیان ہے، تاہم اول الذکر دونوں جماعتوں کے تنظیمی اختلافات نتائج پر اثر انداز ہوسکتے ہیں، جس کا فائدہ ایم ایم اے امیدوار کو ہوگا۔ تفصیلات کے مطابق قومی اسمبلی کی نشست این اے 248میں شامل علاقوں میں مختلف قومیتیں آباد ہیں۔ 2002کے انتخابات میں یہاں مجلس عمل کے امیدوار قاری گل رحمٰن 22ہزار 164 ووٹوں کے ساتھ کامیابی حاصل کرچکے ہیں۔ 2008میں یہاں سے پیپلز پارٹی کے عبدالقادر پٹیل66ہزار 840 ووٹ لے کر کامیاب ہوئے، جب کہ 2013میں ٹھپہ مافیا کی بدولت متحدہ کے سلمان مجاہد بلوچ جیت گئے، حالانکہ یہاں ایم کیوایم کا ووٹ بینک نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس بار مذکورہ حلقے سے عبدالقادر پٹیل (پی پی )، گل محمد آفریدی (ایم ایم اے)، سردار عزیز(پی ٹی آئی)، محمد سلمان خان (ن لیگ)، یوسف شاہوانی (پی ایس پی) کے ٹکٹ پر انتخاب لڑ رہے ہیں، تاہم اصل مقابلہ ایم ایم اے کے گل محمد آفریدی، پیپلزپارٹی کے عبدالقادر پٹیل اور پی ٹی آئی کے سردار عزیز کے درمیان ہوگا۔ یہاں اکثریتی آبادی پختونوں پر مشتمل ہیں، جو محمدی کالونی، سلطان آباد، ڈاکس کالونی، جیکسن بازار، تاشقند کالونی، سعید آباد، گلشن سکند آباد سمیت حلقے کے دیگر علاقوں میں آباد ہیں، جب کہ دیگر اہم برادیوں میں شامل کچھی، ہزارہ، اعوان سمیت سندھی، بلوچ، پنجابی اور اردو بولنے والے بھی آباد ہیں۔ 2013میں متحدہ کے ٹکٹ پر سلمان مجاہد بلوچ 39ہزار ووٹوں کے ساتھ ممبر قومی اسمبلی بنے۔ تحریک انصاف کےسبحان علی ساڑھے 34ہزار اور پیپلز پارٹی کے عبدالقادر پٹیل 29ہزار ووٹ کے ساتھ دوسرے اور تیسرے نمبر پر رہے، جب کہ مجلس عمل میں شامل جماعت اسلامی اور جمعیت علما اسلام نے الگ الگ امیدوار میدان میں اتارے تھے۔ جے یو آئی کے امیدوارکو20 ہزار سے زائد ووٹ ملے، جبکہ جماعت اسلامی کے امیدوار نے پولنگ کے روز دوپہر 12بجے بائیکاٹ کرنے کے باوجود7 ہزار ووٹ حاصل کئے اور بالترتیب چوتھے اور پانچویں نمبر پر رہے۔ اس بار دونوں ساتھ ہیں، جس کا نتائج پر اثر پڑے گا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ گزشتہ الیکشن میں حلقے کا پختون آبادی پر مشتمل اکثریتی ووٹ تحریک انصاف کے امیدوار کو پڑا تھا، تاہم اس بار تحریک انصاف تنظیمی اختلافات کا شکار ہے اور اسے مذکورہ حلقے کی کئی یونین کونسلز میں کامیابی کے باوجود ترقیاتی کام نہ کروانے کی وجہ سے عوامی ردعمل کے ساتھ الیکشن کمپین چلانے میں بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ واضح رہے کہ سابقہ الیکشن میں نمبر 2آنے کے باوجود ضلعی صدر سبحان علی ساحل کے بجائے پی ٹی آئی قیادت نے علاقے میں غیر معروف سردار عزیز کو این اے 248کا ٹکٹ جاری کیا، جس پر دلبرداشتہ سبحان علی ساحل پارٹی عہدے سے استعفیٰ دے چکے ہیں۔ تحریک انصاف کے اندرون اختلافات اور بلدیاتی انتخابات میں مختلف یونین کونسل میں کامیابی کے باوجود مایوس کن کارکردگی تحریک انصاف کے ووٹ بینک پر اثر انداز ہوگی۔ سبحان علی ساحل نے رابطہ کرنے پر بتایا کہ وہ تحریک انصاف سے جدا نہیں ہوئے، لیکن اپنے حلقے کے بجائے این اے 256میں کمپین چلا رہے ہیں۔ دوسری جانب پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کی نشست پر عبدالقادر پٹیل الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں۔ تاہم صوبائی اسمبلی کی نشست پی ایس 113پر پارٹی کی جانب سے سابق ممبر صوبائی اسمبلی ہمایوں خان کو ٹکٹ دینے پر پرانے جیالے پارٹی سے نالاں ہیں، جو گزشتہ انتخابات میں ن لیگ کے ٹکٹ پر کامیاب ہوئے تھے۔ ذرائع نے بتایا کہ مذکورہ حلقے میں جدون برادری سے تعلق رکھنے والے افراد بڑی تعداد میں موجود ہیں، جو ماضی میں پیپلز پارٹی کو ووٹ دیتے آئے ہیں، تاہم اندرونی اختلافات کے باعث اس بار یہ ووٹ مخالف امیدوار کو پڑنے کا امکان ہے۔ پی ایس112میں بھی پی پی کو اسی طرح کے مسائل کا سامنا ہے۔ مجلس عمل کی طرف سے گل محمد آفریدی قومی اسمبلی کے امیدوار ہیں۔ معلوم ہوا ہے کہ گل محمد آفریدی ڈوکس لیبر یونین کے صدر بھی ہیں اور مذکورہ یونین کے قریباً 2ہزار ممبران کیماڑی کے مختلف علاقوں میں رہائش پذیر ہیں، جن کا ووٹ انہی کو پڑنے کا امکان ہیں۔ 2013کے نتیجے کے مطابق مجلس عمل میں شامل صرف 2جماعتوں کا ووٹ بینک 30 ہزار کے لگ بھگ تھا، حالانکہ جماعت اسلامی نے پولنگ کے روز ہی بائیکاٹ کردیا تھا۔ اس بار اکٹھا لڑنے کی وجہ سے ووٹ بینک کہیں زیادہ ہوگا۔ یہاں سے تحریک لبیک کے امیدوار اصغر محمود بھی الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں۔ جنہیں بریلوی مکتب فکر سے تعلق رکھنے والوں کا اکثریتی ووٹ ملنے کا امکان ہے۔ پی ایس پی کی جانب سے این اے 248پر قومی اسمبلی کے امیدوار یوسف شاہوانی اس سے قبل بھی رکن سند ھ اسمبلی رہ چکے ہیں، تاہم اس حلقے میں پی ایس پی کا ووٹ نہ ہونے کے برابر ہیں۔ نئی حلقہ بندیوں کے تحت ذیلی صوبائی حلقہ نمبر پی ایس 113میں شامل علاقے گزشتہ عام انتخابات میں پی ایس 89میں شامل تھے، جہاں سے مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر ہمایوں محمد خان نے 19ہزار 826 ووٹ لے کر کامیاب ہوئے، جبکہ تحریک انصاف کے حسین الدین 11ہزار 697اور پیپلز پارٹی کے دلاور شاہ 5ہزار 755ووٹ حاصل کر کے دوسرے اور تیسرے نمبر پر رہے۔ اس بار ہمایوں خان(پی پی )، جماعت اسلامی کے سجاد احمد خان(مجلس عمل)، شاہنواز جدون( پی ٹی آئی ، سلطان احمد ( تحریک لبیک) ، علی محمد(پی ایس پی) اور غلام حیدر خان مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پرالیکشن میں حصہ لے رہے ہیں۔ معلوم ہوا ہے کہ پی ایس 113کے ووٹرز کی بڑی تعداد مذہبی رجحان رکھتی ہے، جبکہ اس حلقے میں برادری سسٹم بھی اہمیت کا حامل ہے۔ سروے کے دوران معلوم ہوا کہ صوبائی اسمبلی کے مذکورہ حلقے میں مختلف قومیتیں آباد ہیں، جن میں پختون، کچھی اور اٹک کی چھاچھی برادری قابل ذکر ہیں۔ یہاں علما اور مساجد کے امام بھی کافی اثر رسوخ رکھتے ہیں ،جس کے باعث پختون ووٹرز کا اکثریتی ووٹ مجلس عمل کے امیدوار کو پڑنے کا امکان ہے، جبکہ تحریک انصاف بھی پختون آبادی میں اپنا ووٹ بنک رکھتی ہے، جو اپنا حصہ لے گی۔ دوسری جانب گزشتہ انتخابات میں پیپلز پارٹی کو پڑنے والا کچھی میمن برادری کا بیشتر ووٹ اس بار تحریک لبیک کے امیدوار کو پڑنے کے امکانات بڑھ گئے ہیں، جس سے پیپلز پارٹی کو نقصان پہنچے گا۔ پی ایس 113میں ’’امت‘‘ سروے کے دوران معلوم ہوا کہ مذکورہ حلقے میں 6یونین کونسل شامل ہیں، جہاں سے گزشتہ بلدیاتی انتخابات میں پاکستان پیپلز پاٹی ، مسلم لیگ ن اور پی ٹی آئی کے امیدواروں نے کامیابی حاصل کی تھی۔ معلوم ہوا ہے کہ مذکورہ صوبائی نشست میں موجود یونین کونسل نمبر 41میں مچھر کالونی کا علاقہ شامل ہیں، جہاں سے مسلم لیگ ن نے بلدیاتی انتخابات میں کامیابی حاصل کی تھی۔ یونین کونسل نمبر 42جس میں جزیرہ بابا بھٹ کا علاقہ شامل ہے، یہاں سےپیپلز پارٹی کے امیدوار نے بلدیاتی انتخابات میں کامیابی حاصل کی تھی، جب کہ اس بار مذکورہ یونین کونسل کے مکینوں کا ووٹ بینک پیپلز پارٹی ، تحریک لبیک اور مجلس عمل کے امیدواروں میں تقسیم ہوگا۔ اسی طرح پی ایس 112پر لیاقت علی اسکانی(پی پی) ، امجد اقبال آفریدی( تحریک انصاف)، نیک امان اللہ( مجلس عمل)، سلیم جاوید( ن لیگ) افشاں قمبر(ایم کیو ایم ) آصف خان یوسزئی( اے این پی ) اور محمد اعجاز چوہدری(اللہ اکبر تحریک) کے ٹکٹ پر الیکشن لڑ رہے ہیں، تاہم یہاں اصل مقابلہ پیپلز پارٹی اور مجلس عمل کے درمیان متوقع ہے۔ مذکورہ پی ایس کے علاقوں میں موجود زیادہ تر یونین کونسل بلدیاتی انتخابات میں پیپلز پارٹی نے جیتی تھی اور یہاں موجود مختلف گوٹھوں میں پیپلز پارٹی کا بڑا ووٹ بینک ہے، جو اس سے قبل پی پی امیدواروں کے حق میں پڑتا رہا ہے، تاہم اس بار یہاں کے انتخابی نتائج پر بھی برادریوں کا کردار اہم ہوگا، جن میں سے بیشتر نے مجلس عمل امیدوار کی حمایت کی ہے۔

Comments (0)
Add Comment