لاہور (نمائندہ خصوصی) الیکشن جولائی 2018 کیلئے انتخابی مہم مکمل ہوگئی ۔ اس سارے عرصے میں کسی بڑی یا چھوٹی جماعت نے لاہورمیں بڑا جلسہ کرنے کا خطرہ مول نہیں لیا۔ پیپلزپارٹی لاہور کی روایتی انتخابی مہم میں بہت کم نظر آئی۔ تاہم نواز لیگ اور پی ٹی آئی کی انتخابی مہم جاندار رہی۔ تفصیلات کے مطابق لاہور ملک میں سیاسی تبدیلیوں میں اہم کردار کا حامل رہا ہے۔ لیکن اب کی بار سیاسی جماعتوں نے اپنی انتخابی مہم کے دوران لاہور کی انتخابی روایات کو ہی تبدیل کردیا۔ کسی بھی بڑی سیاسی جماعت نے لاہور کی سطح پر کوئی جلسہ نہیں کیا۔ لاہور کی تاریخی جلسہ گاہیں، موچی دروازہ ، مینار پاکستان اور ریگل چوک مال روڈ سمیت چیئرنگ کراس بھی بڑے انتخابی جلسوں سے محروم رہیں۔ انتخابی مہم کے آخری روز این اے 124 سے نواز لیگ کے امیدوار حمزہ شہباز نے موچی دروازہ میں جلسہ سجانے کی کوشش کی۔ ذرائع کے مطابق نواز لیگ اور پی ٹی آئی دونوں اس حوالے سے ایک جیسی سوچ کی شکار رہیں ذرائع کے مطابق عمران خان اور ان کی جماعت 30 اکتوبر کے جلسے کے بعد چونکہ دوبارہ کبھی اپنے ہی ریکارڈ کو برقرار رکھنے میں کامیاب نہیں ہوسکی۔ اس لیےانتخابی مہم کے دوران جب اسے کئی شہروں میں انتخابی جلسوں کی ناکامی دیکھنا پڑی ہے۔ پی ٹی آئی لاہور میں بڑے جلسے سے بچتی رہی۔ دوسری جانب نواز لیگ نے بھی اپنی طاقت بڑے جلسے پر لگانے اور ممکنہ منفی تبصروں سے بچنے کیلئے بڑے جلسے کا اعلان ہی نہیں کیا۔مجلس عمل جو بڑے جلسوں کو مدارس کے طلبہ کے ذریعے ممکن بناسکتی تھی۔ اس نے بھی اپنے 13 مئی کے جلسے کے بعد انتخابی مہم کے دوران لاہور میں بڑا جلسہ کرنے سے شعوری طور پر گریز کیا۔ لاہور کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ انتخابی مہم کے دوران کوئی بڑا جلسہ نہ ہوسکا۔ نیز انتخابی دفاتر بھی 2013 اور اس سے پہلے والی رونق جمع نہ کرسکے۔ معلق پارلیمنٹ کو وجود میں لانے والے امکانی انتخابات کے لئے انتخابی مہم بھی عملاً کنفیوژن کی سولی پر لٹکی رہی۔