اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)نگران وزیر اطلاعات بیرسٹر علی ظفر نے کہا ہے کہ الیکشن کے دن ڈیوٹی پر تعینات فوجی افسران کو مجسٹریسی اختیارات دینے کا قانون نواز لیگ کے دور میں پارلیمنٹ نے بنایا تھا ۔ پارلیمان کے بنائے ہوئے قانون پرکچھ اراکین اب اعتراض کر رہے ہیں؟۔بی بی سی اردو کو دیے گئے انٹرویو میں بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ یہ قومی ایشو ہے، اس پر الزام تراشی کی ضرورت نہیں ۔الیکشن ایکٹ2017 میں دفعہ 193 کے تحت پارلیمان نے الیکشن کمیشن کو یہ اختیار دیا تھا کہ وہ مجسٹریٹ کے اختیارات بطور انچارج نامزد فوجی افسران کو دے سکتا ہے۔ یہ اختیارات پچھلے انتخابات میں بھی دیے گئے تھے۔ایک سوال پر وفاقی وزیر نے کہا کہ کوئی ریاستی ادارہ انتخابی عمل یا نتائج پر اثر انداز ہو رہا ہے نہ ہی اس کا سوال پیدا ہوتا ہے۔انہوں نے الزامات کوسنی سنائی باتیں اور سیاسی بیانات’ قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا۔ علی ظفر نے کہا کہ اگر کوئی بات کر رہا ہے تو ثبوت لائے۔عدالتیں بھی ہیں اور الیکشن کمیشن بھی، ان کے پاس شکایت لے کر جائیں تاکہ وہ تحقیقات کے بعد سزا سنائیں۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت صدیقی کے حالیہ متنازع بیان کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ٹھوس ثبوت دینا چاہئے تھا کہ یہ شخص آیا اور اس نے اثر انداز ہونے کی کوشش کی ۔ایسی صورتحال میں ایکشن لیا جا سکتا ہے اور لینا چاہیے لیکن اس کے بغیر بیان دینا درست نہیں ۔ الیکشن کے موقع پر دہشت گردی کی کسی بھی کوشش کو ناکام بنانے کے لیے وزارت داخلہ، الیکشن کمیشن، تمام ایجنسیاں اور قانون نافذ کرنے والے ادارے، صوبائی حکومتیں بھرپور کوشش کر رہی ہیں۔الیکشن کو پر امن رکھنے کے لیے تمام ضروری اقدامات کر رہے ہیں۔بیرسٹر علی ظفر نے مقامی میڈیا کی جانب سے سینسرشپ و دباؤ کے الزامات کو بھی بےبنیاد قرار دیا۔یہ معاملہ سینیٹ میں سامنے آیا اور اس پر کمیٹی بنا کر تحقیقات کی ہدایت کی گئی لیکن ‘وہاں سے ابھی تک ایسی کوئی ہدایت نہیں ملی کہ یہ مسئلہ ہے۔اس بارے میں میرے پاس شکایت نہیں آئی ۔کیبل آپریٹرز اور ٹی وی چینلز کے درمیان نمبر گیم کا مسئلہ10سال سے چل رہا ہے اور یہ معاملہ سپریم کورٹ بھی گیا تاہم پارلیمان نے کوئی قانون سازی نہیں کی۔ہم سے2مہینے میں توقع کرنا کہ ہم ٹھیک کریں گے ،یہ جائز نہیں۔