لاہور/کراچی/اسلام آباد (نمائندگان امت / اسٹاف رپورٹر/امت نیوز) شہباز لیگ نے مقابلے سے قبل ہی ہتھیار ڈال دیئے اور انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے خلاف شدید رد عمل کے بجائے قومی اسمبلی میں اپوزیشن کا کردار ادا کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ باخبر ذرائع کے مطابق سابق وزیر اعظم نواز شریف کا خیال ہے کہ تحریک انصاف کیخلاف فیصلہ کن تحریک کیلئے مذہبی جماعتوں بالخصوص مولانا فضل الرحمن کو ساتھ ملایا جائے، جو خیبر پختون میں اپ سیٹ شکست اور دونوں نشستیں ہارنے کے بعد شدید اشتعال میں ہیں۔لیکن سابق وزیر اعلی پنجاب کشتیاں جلانے کے بجائے پنجاب میں حکومت سازی کا دروازہ کھلا رکھا چاہتے ہیں۔ دوسری جانب دھاندلی کے خلاف احتجاج کا بیڑا عملاً مجلس عمل اور تحریک لبیک نے اٹھا لیا۔ اول الذکر جماعت نے اس حوالے سے متفقہ لائحہ عمل طے کرنے کیلئے آج اے پی سی بلالی ہے اور اس کے کارکنوں نے مظاہرے بھی شروع کر دیئے ہیں ۔ جب کہ تحریک لبیک اس ضمن میں باقاعدہ رد عمل آج دے گی۔ ذرائع کے مطابق الیکشن میں دھاندلی کے خلاف تحریک لبیک پاکستان کے کارکنان میں شدید اشتعال پایا جاتا ہے اور وہ دھرنوں سمیت احتجاجی تحریک چلانے کیلئے تیار ہیں۔ ’’امت‘‘ سے بات چیت میں علامہ خادم رضوی کا کہنا تھا کہ دھاندلی نہیں ’’دھاندلا‘‘ ہوا ہے- نبی کریمؐ کا دین تخت پر لانے کے لئے جاری جدوجہد میں کسی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے۔اسی دوران مزید 3جماعتوں مہاجر موومنٹ، قومی وطن پارٹی اور آل پاکستان مسلم لیگ نے نتائج پر تحفظات ظاہر کئے ہیں۔گزشتہ روز پیپلز پارٹی نے بھی کراچی پریس کلب کے سامنے دھرنا دیا، جب کہ متحدہ قومی موومنٹ نے میرپور خاص میں احتجاجی مظاہرہ کیا۔اطلاعات کے مطابق مسلم لیگ ن کے قائد میاں نواز شریف نے آئندہ کی حکمت عملی وضع کرنے کے لیے پارٹی قیادت کو اختیارات دے دیے ہیں جس کے بعد شہباز شریف نے ملک بھرمیں مبینہ دھاندلی کے حوالے سے اپنے امیدواروں اور کارکنان سمیت دیگر ذمہ داروں سے شواہد اور تفصیلات مانگ لی ہیں جن کا جائزہ لیا جائیگا اور اس کے مطابق قانونی کارروائی کے بارے میں فیصلہ کیا جائیگا۔56سے زائد قومی اسمبلی کے حلقوں کا جائزہ لیے جانے کا امکان ہے ۔خواجہ سعدرفیق ، شاہدخاقان عباسی، امیر مقام، بیرسٹردانیال، طلال چوہدری، چوہدری محمد آصف، عابدشیرعلی ، سمیت دیگر اہم حلقوں کے بارے میں شواہد اکھٹے کیے جائیں گے ۔پارٹی کے اہم رہنماؤں کا بھی جلداجلاس بلائے جانے کا امکان ہے ۔شہباز شریف پارٹی قائد کی ہدایت پر ناکام ہونے والے امیدواروں سے الگ الگ ملاقاتیں کریں گے اور ا ن سے ناکامی کی وجوہات بارے تفصیلات معلوم کریں گے اور ان سے آئندہ کی قانونی کارروائی بارے لائحہ عمل وضع کریں گے ۔ملاقاتوں کا یہ سلسلہ اگلے ہفتے سے شروع ہونے کا امکان ہے، جبکہ کامیاب ارکان قومی و صوبائی اسمبلی سے بھی ملاقاتیں کی جائیں گی اور مسلم لیگ ن کی حالیہ اور مستقبل کی حکمت عملی بارے تبادلہ خیال کیا جائیگا۔دریں اثنا مسلم لیگ ن کے صدر اور سابق وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے گزشتہ روز اپنے بڑے اور سابق وزیراعظم نواز شریف سے اڈیالہ جیل میں ملاقات کی بتایا گیا ہے کہ شہباز شریف کے ہمراہ ان کے دونوں صاحبزادے حمزہ شہباز اور سلمان شہباز بھی ان کے ہمراہ اڈیالہ جیل گئے ملاقات کے دوران دونوں رہنماؤں کے درمیان ملک کی موجودہ سیاسی صورتحال اور خصوصا الیکشن 2018 کے انتخابی نتائج کے حوالے سے غور کیاگیا اور آئندہ کی حکمت عملی پر غور کیاگیا شہباز شریف نے سابق وزیراعظم نواز شریف کو پاکستان مسلم لیگ ن کی حاصل کردہ سیٹوں کے حوالے سے مکمل بریفنگ دی ذرائع کا کہنا ہے کہ سابق وزیراعظم نواز شریف انتخابات میں ہونے والی دھاندلی کیخلاف شہبازشریف کو بھر پور مہم چلانے اور مجلس عمل کی جانب سے بلائی گئی اے پی سی میں سخت مؤقف اختیار کرنے کی ہدایت کی ہے۔ذرائع کے مطابق ایم ایم اے کے سربراہ مولانا فضل الرحمان اس وقت جس قدر غم و غصہ میں ہیں وہ تحریک انصاف کی جیت اور ممکنہ وفاقی حکومت کے خلاف فیصلہ کن تحریک کی صورت میں ساتھ چلنے کو تیار ہو سکتے ہیں۔ اس لیے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرنی چاہیے کیونکہ مذہبی جماعتیں اور ان کے کارکن ہی کسی لمبی تحریک یا دھرنے کی صورت میں کھڑے رہ سکتے ہیں۔ تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ شہباز سمیت بعض رہنماؤں کی کوشش ہے کہ تحریک کشتیاں جلا کر نہ شروع کی جائے بلکہ پنجاب میں حکومت سازی کے امکانات کو خود ختم کرنے کے بجائے اس کے لیے کوشش کی جائے۔ اس سوچ کے تحت صوبائی اسمبلی کے آزاد منتخب امیدواروں سے رابطے شروع کیے جا چکے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ 25جولائی کی رات ان کی پریس کانفرنس میں بھی ان کا لب و لہجہ جارحانہ تحریک والا نہ تھا۔ حتی کہ وہ پریس کانفرنس کرنے کے لیے بھی بڑی مشکل سے تیار ہوئے ۔ ذرائع کے بقول اگر صوبے میں حکومت بنانے کی آپشن ترجیح بنی تو میاں شہباز شریف ہی وزیر اعلی پنجاب ہوں گے۔ جبکہ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف کے منصب کے لیے سابق وزیر خارجہ خواجہ آصف ، رانا ثنااللہ خان اور احسن اقبال وغیرہ کے نام پارٹی کو تجویز کیے جا رہے ہیں۔دریں اثنا شہباز شریف کی زیر صدارت پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کا اجلاس ہوا، جس میں وفاق اور صوبہ پنجاب میں حکومت سازی سے متعلق امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔اس موقع پر لیگی قیادت نے مرکز میں مضبوط اپوزیشن کا کردار ادا کرنے کا فیصلہ کیا، پارٹی صدر شہباز شریف کا کہنا تھا کہ جیتنے والوں کو مبارکباد کے خط لکھیں گے اور ہارنے والوں کو بھی حوصلہ افزائی کے خط لکھیں گے۔ شہباز شریف نے کہا کہ الیکشن میں دھاندلی کی گئی، جس پر قومی اسمبلی میں بھر پور احتجاج کریں گے اور مضبوط اپوزیشن کا کردار ادا کریں گے۔صدر مسلم لیگ (ن) نے کہا کہ الیکشن نتائج چیلنج کرنے کا حق رکھتے ہیں، کئی جگہوں سے دھاندلی کے جو ثبوت ملے انہیں الیکشن کمیشن کو فراہم کریں گے۔دوسری جانب مجلس عمل نے دھاندلی کے خلاف احتجاج شروع کردیا ہے ،جمعرات کو باجوڑ میں جے یوآئی کے کارکنوں نے باجوڑ۔ بنوں۔سوات۔ ہنگو سمیت خیبر پختون کے کئی شہروں میں مظاہرے کئے، جن سے خطاب کرتے ہوئے مولانا عبدالرشید، اکرم درانی و دیگر نے کہا کہ بدترین دھاندلی کے ذریعے ہماری جیت کو شکست میں تبدیل کیا گیا،ہم اس وقت تک احتجاج جاری رکھیں گے جب تک شفاف تحقیقات نہیں کی جاتی۔بنوں میں اکرم درانی کے حامیوں نے اے ایس آئی کو زخمی کردیا۔مولانا فضل الرحمان کا میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ الیکشن تو ہوا لیکن یہ عوامی مینڈیٹ نہیں ہے بلکہ عوامی مینڈیٹ پر بدترین ڈاکا ڈالا گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ لگتا ہے پریزائڈنگ افسر، آر اوز اور ڈی آر اوز مکمل بے اختیار تھے، کل مغرب کے بعد نتائج روک دیے گئے جو ابھی تک ایک ایک کر کے فراہم کیے جا رہے ہیں۔ اے پی سی کی میزبانی آصف زرداری اور میں کر رہے ہیں، جس میں تمام سیاسی جماعتوں کا مشترکہ لائحہ عمل طے کرنے کی کوشش کریں گے۔ایم ایم اے الیکشن کے نتائج سرے سے مسترد کرتی ہے ۔عمران کی حلقے کھلوانے کی پیشکش پر تبصرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کسی پر اپنا مینڈیٹ مسلط کر دینا اتنا آسان نہیں ہے، ایسی میٹھی میٹھی تقریریں بہت سنی ہیں۔ہم کوئی ایک حلقہ کھلوانے کی نہیں بلکہ الیکشن کالعدم قرار دینے کی بات کر رہے ہیں۔ادھر کراچی پریس کلب کے باہر سینکڑوں پی پی کارکنوں نے دھرنا دیا ۔جن سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر تاج حیدر، سینیٹر یوسف بلوچ، نبیل احمد گبول ، راشد ربانی ، وقار مہدی، شہلا رضا ، سعید غنی و دیگر نے کہا کہ جن علاقوں کے نتائج اب تک جاری نہیں کئے گئے ہیں وہاں کے نتائج انجینئرڈ ہوں گے، جیسے پیپلزپا رٹی کسی طور پر تسلیم نہیں کریگی ۔ مظاہرے کی وجہ سے کراچی پریس کلب کے اطراف کے سڑکوں پر ٹریفک مکمل طور پر جام ہوگیا ۔ علاوہ ازیں مہاجر قومی موومنٹ، تحریک لبیک پاکستان، مسلم لیگ (ن)، آل پاکستان مسلم لیگ، متحدہ پاکستان اور پاک سرزمین پارٹی نے دھاندلی کیخلاف متفقہ لائحہ عمل کیلئے مشاورت کا سلسلہ شروع کردیا ہے۔ ’’امت‘‘ کے رابطہ کرنے پر مہاجر قومی موومنٹ کے چیئرمین آفاق احمد نے کہا کہ ہم ان نتائج کو مستردکرتے ہیں۔ایک بھی پولنگ اسٹیشن پر حتمی نتائج کا فارم 45 نہیں دیا گیا۔لائنز ایریا کے پولنگ ایجنٹوں کو کہا گیا کہ سوک سینٹر ووٹ بکس لے کر جا رہے ہیں ادھر گنتی کریں گے، اس طرح کے ہتھکنڈے استعمال کر کے نتائج تبدیل کئے گئے۔پاک سرزمین پارٹی کے رہنما افتخار عالم نے کہا کہ ہمارے پولنگ ایجنٹوں کو باہر نکال دیا گیا اور 106 امیدواروں میں کسی کو حتمی رزلٹ کا فارم 45 پر کر کے نہیں دیا گیا، جن علاقوں میں ہولڈ تھا،وہاں بھی امیدواروں کو پیچھے کر دیا گیا۔ الیکشن کمیشن سے مطالبہ کرتے ہیں کہ کیا کہ تمام حلقوں کی انکوائری کرائی جائے ۔ تحریک لبیک پاکستان کے ترجمان یحییٰ قادری کا کہنا ہے کہ کراچی میں تمام قومی نشستوں 21اور صوبائی نشستوں 44پر امیدوار کھڑے کئے تھے، تاہم جس طرح کے الیکشن ہوئے اس کے نتائج تسلیم نہیں کریں گے۔ اب تک دو تین صوبائی نشستوں پر کامیابی کی امید ہے کہ رزلٹ مکمل نہیں ہوا ہے۔ اس حوالے سے مرکز سے رابطے میں ہیں۔ جونہی کوئی ہدایت ملے گی آئندہ کا لائحہ عمل دیں گے۔ آل پاکستان مسلم لیگ (مشرف لیگ) کے ترجمان محمد نعیم کا کہنا ہے کہ کراچی میں انہوں نے 4قومی اور 14صوبائی حلقوں پر امیدوار کھڑے کئے تھے اور جس طرح کا رزلٹ آیا ہے۔ پورا کراچی دیکھ رہا ہے کہ پارٹی احتجاج کر رہی ہے۔ اب نتائج کے حوالے سے وہ کیا بول سکتے ہیں کہ ان کی محنت اکارت گئی اور الیکشن کمیشن میں کیا شکایت کریں کہ کسی ادارے کی شکایت اس ادارے کے آگے کرنا مذاق ہو گا اس لئے انہوں نے خاموشی اختیار کر لی ہے کہ دیگر پارٹیاں جو کر رہی ہیں، ساری صورت حال واضح ہو رہی ہے۔ کراچی میں متحدہ پاکستان نے بھی نتائج مسترد کر دیئے ہیں، فیصل سبزواری نے الزام عائد کیا کہ ان کے پولنگ ایجنٹوں کو فارم 45پر نتائج دینے کے بجائے ان کو باہر نکال دیا گیا۔ کراچی، حیدرآباد، میرپورخاص اور دیگر شہروں میں دھاندلی ہوئی ہے۔ شفاف الیکشن ہوئے، تب ان کا رزلٹ کچھ اور ہوتا، ابھی کچھ نتائج باقی ہیں۔ رابطہ کمیٹی کی میٹنگ جاری ہے اور آئندہ کا لائحہ عمل دیں گے جب مکمل نتائج آ جائیں گے اور سرکاری نتائج میں بتا دیئے جائیں گے اس کے بعد صورت حال دیکھیں گے کہ کیا کرنا ہے اور احتجاج کرنا ان کا حق ہے۔دریں اثناایک بیان میں قومی وطن پارٹی کے مرکزی چیئرمین آفتاب احمد خان شیرپاؤ نے انتخابات 2018کے نتائج کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے انتخابات میں عوام کے مینڈیٹ کو چوری کیا گیا ہے اور پختونوں کی حقیقی لیڈرشپ کو کنارے سے لگایا گیا۔اور اب پارلیما ن میں انکا نمائندہ نہیں ہوگا جو انکے حقوق کی بات کرسکیں ۔