منی لانڈرنگ انکوائری فریال کے وزیراعلیٰ سندھ بننے میں رکاوٹ

کراچی (رپورٹ: ارشاد کھوکھر) سندھ میں پیپلزپارٹی نے تقریباً 22 مخصوص نشستوں کے ساتھ 97 نشستوں پر واضح برتری حاصل کرلی ہے ۔ تاہم منی لانڈرنگ کی انکوائری فریال تالپر کے وزیراعلیٰ بننے میں حائل ہوگئی ہے۔ جس کے باعث مراد علی شاہ کے دوبارہ وزیراعلیٰ سندھ بننے کے امکانات روشن ہوگئے ہیں۔ تفصیلات کے مطابق سندھ اسمبلی کے موصول نتائج کے مطابق پیپلزپارٹی نے 75 جنرل نشستیں حاصل کررکھی ہیں اور مذکورہ نشستوں میں ایک دو کا مزید اضافہ ہوسکتا ہے۔ سندھ اسمبلی میں خواتین کی مخصوص نشستوں کی تعداد 29 اور اقلیتوں کی 9 ہے۔ پیپلزپارٹی کو 75جنرل نشستیں مل چکی ہیں اس حساب سے مخصوص نشستوں کیلئے پیپلزپارٹی کی ترجیحی فہرست کے مطابق سرفہرست 17 خواتین اور سرفہرست 5اقلیتی امیدوار اقلیتی نشستوں پر منتخب ہوجائیں گے۔ جس کے باعث سندھ اسمبلی میں پی پی اراکین کی مجموعی تعداد 97 ہوجائے گی۔ سندھ میں حکومت بنانے کیلئے 85 اراکین درکار ہوتےہیں ۔ اس طرح سندھ میں پیپلزپارٹی کی پہلے کی طرح حکومت بنے گی اور اس مرتبہ اسمبلی میں پی پی کے اراکین تعداد پہلے سے زیادہ ہوگی۔ اس ضمن میں پیپلزپارٹی کے ذرائع کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت نے تقریباً 6 ماہ قبل ہی یہ فیصلہ کیا تھا۔ پی پی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کی بہن فریال تالپر آئندہ عام انتخابات میں صوبائی حلقے سے بھی الیکشن لڑیں گی اور پہلی بار صوبائی اسمبلی کے حلقے سے انتخابات حصہ لیا اور حلقے پی ایس 10 لاڑکانہ ون سے کامیاب ہوچکی ہیں۔ مذکورہ ذرائع کا کہنا تھا کہ فریال تالپر کو صوبائی حلقے سے ٹکٹ دینے کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ انہیں وزیراعلیٰ بنایاجاسکے ۔ مذکورہ ذرائع کا کہنا ہے کہ پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول زرداری کو اس ضمن میں تحفظات رہے ہیں اور وہ وزارت اعلیٰ کیلئے مراد علی شاہ کو اہمیت دیتے ہیں اور ان کی کارکردگی سے بھی مطمئن ہیں اور مراد علی شاہ بھی ضلع جامشورو کے حلقہ پی ایس 80 سے منتخب ہوچکے ہیں۔ تاہم آصف زرداری کے ساتھ فریال تالپر کے خلاف ایف آئی اے جو انکوائری کر رہی ہے۔ وہ بھی فریال تالپر کے وزیراعلیٰ سندھ بننے میں رکاوٹ بن رہی ہے کیونکہ مذکورہ کیس میں فریال تالپر سندھ ہائی کورٹ سے ضمانت کراچکی ہیں اور عام انتخابات کے باعث سپریم کورٹ نے ایف آئی اے کو انتخابات تک مذکورہ معاملے کو موٴخر کرنے کا حکم دیا تھا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ پیپلزپارٹی کی اعلیٰ قیادت کے سامنے یہ بات بھی ہے کہ اب صوبائی حکومت کے معاملات پہلے کی طرح نہیں چل سکتے۔ اس حوالے سے کارکردگی اور شفافیت پر توجہ دینا پڑے گی خصوصاً بلاول زرداری کی اس حوالے سے سوچ الگ ہے اور ان کا ٹارگٹ 2023 کے عام انتخابات ہیں۔ اس صورتحال میں مراد علی شاہ کے دوبارہ وزیراعلیٰ بننے کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔ جبکہ پارٹی کے دیگر ذرائع کا کہنا ہے کہ فریال تالپر پر منی لانڈرنگ کا الزام ثابت نہیں ہوا ہے اور مذکورہ کیس میں کچھ نہیں ہے اور فریال تالپر اس لیے بھی ایم این اے کے بجائے ایم پی اے بنی ہے تاکہ سندھ کے حکومتی امور میں ایک ایم پی اے کی حیثیت میں شریک ہوں۔ مذکورہ ذریعے کا کہنا تھا کہ اگر آصف علی زرداری کی بہن کو وزیراعلیٰ سندھ بنانے کا مقصد ہے تو پھر ان کی دوسری بہن عذرا فضل پیچوہو بھی اس مرتبہ ایم این اے کے بجائے ایم پی اے بنی ہیں اور ان پر کرپشن کا اب تک کوئی الزام نہیں لگا اور ان کی کارکردگی بہتر رہی ہے۔ اس لیے فریال تالپر کو ایم پی اے بنانے کا مقصد وزیراعلیٰ بنانا نہیں اور اس سلسلے میں پارٹی کی اعلیٰ قیادت سوچ سمجھ کر کوئی فیصلہ کرسکتی ہے اور صرف فریال تالپر یا سید مراد علی شاہ نہیں بلکہ اس مرتبہ کوئی اور وزیراعلیٰ بھی بن سکتے ہیں۔ دریں اثنا جس طرح سندھ اسمبلی پیپلزپارٹی کے مجموعی اراکین کی تعداد 96 ہوجائے گی۔ اس طرح صوبائی اسمبلی کی 21 جنرل نشستوں پر پی ٹی آئی کی کامیابی سے سندھ اسمبلی میں خواتین 5 اور اقلیتوں کی دو مخصوص نشستوں کے ساتھ پی ٹی آئی کے اراکین کی تعداد 28 ہوجائے گی۔ اس طرح جی ڈی اے اراکین تعداد بھی 11 سے بڑھ کر 14 ہوجائے گی اور اسی تناسب سے متحدہ کے اراکین کی بھی نشستیں بنیں گی۔

کراچی (اسٹاف رپورٹر) عام انتخابات کے نتائج فنکشنل لیگ ارباب رحیم اور نوشہروفیروز کے جتوئی خاندان کے لیے ڈراوٴنا خواب بن گیا۔ یہ پہلا موقع ہے کہ جی ڈی اے میں شامل جماعت فنکشنل لیگ ایک بھی قومی اسمبلی کی نشست نہیں جیت سکی ،جبکہ پی پی کے جبکہ وزارت اعلیٰ کے خواہشمند علی گوہر مہر اس مرتبہ قومی اسمبلی کے بجائے سندھ اسمبلی میں بیٹھیں گے۔ تفصیلات کے مطابق جی ڈی اے میں شامل جماعت فنکشنل لیگ کو اس مرتبہ قومی اسمبلی کی ایک بھی نشست نہیں مل سکی ہے۔ فنکشنل لیگ سندھ کے سربراہ اور پیر پگارا کے بھائی پیرصدرالدین شاہ راشدی بھی خیرپور سے ہار گئے ہیں۔ ضلع سانگھڑ شروع سے فنکشنل لیگ کا گڑھ تصور کیا جاتا ہے۔ یہ پہلا موقع ہے ضلع خیرپور کے ساتھ ضلع سانگھڑ میں قومی اسمبلی کے تینوں حلقوں سے جی ڈی اے کے ٹکٹ پرلڑنےوالے فنکشنل لیگ کے امیدوار ہارگئے ہیں۔ جی ڈی اے کو قومی اسمبلی کی صرف دو نشستیں مل سکی ہیں۔ جن میں بدین سے ڈاکٹر فہمیدہ مرزا اور ضلع شکارپور سے غوث بخش مہر کی نشست حاصل ہے ،جبکہ صوبائی اسمبلی کی 11 نشستوں پر صرف جی ڈی اے کے امیدوار کامیاب ہوسکے ہیں۔ جن میں شکار پور سے شہر یار مہر، گھوٹکی سے علی گوہر مہر کے ساتھ خیرپور کی 2، سانگھڑ کی تین اور ضلع نوشہروفیروز ، ضلع تھرپارکر اور ضلع بدین کی ایک ایک نشست شامل ہے۔ اس طرح تین حلقوں سے انتخابات میں حصہ لینے والے سابق وزیر اعلیٰ ارباب رحیم عمر کوٹ اور میرپور خاص کے ساتھ تھر پارکر میں اپنے آبائی حلقے میں بھی پیپلزپارٹی کے امیدوار اپنے بھتیجے ارباب لطف اللہ سے شکست کھاگئے ہیں جبکہ ضلع میرپورخاص کے حلقہ این اے 218 سے پیپلزپارٹی کے امیدوار کو شکست دے کر آزاد حیثیت میں کامیاب ہونے والے امیدوار علی نواز شاہ نے پیپلزپارٹی کی قیادت کو واضح پیغام دے دیا ہے۔ انتخابات ایک اور اپ سیٹ لاڑکانہ بھی ہوا ہے۔ 27 برس قبل بینظیر بھٹو کے بھائی میر مرتضی بھٹو نے اس وقت پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر الیکشن میں حصہ لینے والے ڈاکٹر صفدر عباسی کے بڑے بھائی حاجی منور عباسی کو شکست دی تھی ،لیکن اس مرتبہ منور عباسی کے فرزند معظم عباسی نے لاڑکانہ کے حلقہ پی ایس 11 میں نثار کھوڑو کی بیٹی پی پی امیدوار ندا کھوڑو کو بھاری اکثریت سے ہرادیا ہے۔ اس کے علاوہ پہلی بار عام انتخابات میں حصہ لینے والے سابق چیئرمین سینیٹ پی ٹی آئی کے امیدوار محمد میاں سومرو پی پی کے اعجاز جکھرانی کو شکست دے کر کامیاب ہوئے ہیں ،جن کے اب اسپیکر قومی اسمبلی بننے کا امکان ہے۔

Comments (0)
Add Comment