اسلام آباد / کوئٹہ / لاہور / چارسدہ (نمائندگان امت / مانیٹرنگ ڈیسک)متحدہ مجلس عمل کی میزبانی میں جمعہ کو عام انتخابات میں ہونے والی مبینہ دھاندلی کیخلاف منعقدہ آل پارٹیز کانفرنس متفقہ اعلامیہ دینے میں ناکام ہو گئی۔اے پی سی کی صدارت کرنے والے نواز لیگی صدر شہباز شریف نے مبینہ دھاندلی کیخلاف بطور احتجاج ایوان کی رکنیت کا حلف نہ اٹھانے کی تجویز فوری طور پر قبول کرنے سے انکار کرتے ہوئے پارٹی قیادت سے مشاورت کیلئے اتوار تک مہلت مانگ لی ہے۔اے پی سی نے الیکشن نتائج کو مسترد کرتے ہوئے نئے انتخابات کیلئے تحریک چلانے کا اعلان کردیا ہے۔احتجاج کا شیڈول منظم کرنے کیلئے کمیٹی بنے گی۔مولانا فضل الرحمان کا کہنا ہے کہ ہم اکثریت کا دعویٰ کرنے والوں کو ایوان میں داخل نہیں ہونے دیں گے ۔دیکھیں گے کہ یہ ایوان کو کیسے چلاتے ہیں ؟۔پشتون خواہ میپ کے سربراہ محمود اچکزئی کا کہنا ہے کہ الیکشن کے دوران ان کے مخالفین کے خانوںمیں ٹھپے لگائے ہیں ۔تحریک لبیک نے آئندہ بھی کسی اے پی سی میں شرکت کرنے سے انکار کر دیا ہے ۔ تفصیلات کے مطابق متحدہ مجلس عمل کی میزبانی میں جمعہ کو عام انتخابات میں ہونے والی مبینہ دھاندلی کیخلاف منعقدہ آل پارٹیز کانفرنس متفقہ اعلامیہ دینے میں ناکام ہو گئی،تاہم احتجاج کیلئے تحریک چلانے کا اعلان کر دیاگیا ہے ۔ عموماًبڑے سیاسی اجتماعات میں شریک سیاسی قائدین اپنی اجتماعی رائے اظہار کیلئے اصولی مؤقف کو مشترکہ اعلامیے کی صورت جاری کرنے سے قبل ان پر دستخط کرتے ہیں۔جمعہ کو ہونے والی اے پی سی کے اختتام پر مشترکہ اعلامیہ تک جاری کیا گیا۔انتخابی نتائج پر تحفظات کا اظہار کرنے پیپلز پارٹی ، متحدہ قومی موومنٹ اور تحریک لبیک پاکستان نے اے پی سی نظر انداز کر دی ۔ متحدہ مجلس عمل کے تحت اے پی سی جمعہ کو جماعت اسلامی کے رہنما میاں محمد اسلم کے گھر پر نواز لیگ کے صدر شہباز شریف کی صدارت میں ہوئی۔ اے پی سی میں متحدہ مجلس عمل کے سربراہ مولانا فضل الرحمان، امیر جماعت اسلامی و نائب امیر ایم ایم اے سینیٹر سراج الحق،اے این پی کے سربراہ اسفندیار ولی خان ،پشتون خواہ میپ کے سربراہ محمود اچکزئی، قومی وطن پارٹی کے چیئرمین آفتاب احمد شیر پاؤ،نیشنل پارٹی کے سربراہ حاصل بزنجو، پاک سرزمین پارٹی کے سربراہ مصطفیٰ کمال جبکہ متحدہ کے فاروق ستار نے بھی شرکت کی۔اے پی سی کے بعد اپنی مشترکہ پریس کانفرنس میں ایم ایم اے کے صدر مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ اے پی سی میں اتفاق رائے سے2 روز قبل ہونے والے عام انتخابات کو مکمل طور پر مسترد کر دیا گیا ہے ۔ ہم اسے عوامی مینڈیٹ پر ڈاکا سمجھتے ہیں جس کے نتیجے میں ہم دعویداروں کی اکثریت بھی تسلیم کرتے ہیں نہ ہی انہیں حق حکمرانی دینا چاہتے ہیں۔ان جماعتوں کے منتخب افراد کے حلف نہ اٹھانے کی تجویز پر شہباز شریف نے پارٹی سے مشاورت کی مہلت مانگ لی ہے۔فضل الرحمٰن نے مزید کہا کہ انتخابات اور نتائج پر اعتراض رکھنے اور اسے مسترد کرنے والی دیگر جماعتوں سے رابطہ کریں گے۔مولانا فضل الرحمن نے جمہوریت کیلئے قربانیوں کا دعویٰ کرتے ہوئے کہا کہ ہم جمہوریت کو اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں یرغمال نہیں بنے دیں گے۔جو قوتیں سمجھتی ہیں کہ سب کچھ ان کے ہاتھ میں ہے ، میں کہوں گا کہ آپ کے ہاتھ میں کچھ نہیں،سب کچھ عوام کے ہاتھ میں ہے۔سیاسی جماعتیں ان کی رہنمائی کریں گی۔ ہم نے پارلیمنٹ سے الیکشن کمیشن کیلئے اختیارات و فنڈز دیئے۔ الیکشن کمیشن نے قوم کے اربوں روپے ضائع کر دیئے اور شفاف انتخابات کرانے میں بری طرح ناکام رہا ۔اتنا خرچہ کرنے کے باوجود نتائج پر اپنی قدرت حاصل نہ کرسکے۔انہوں نے دعویٰ کیا کہ پریذائیڈنگ افسران، آر اوز اور ڈی آر اوز فوجیوں کے ہاتھ یرغمال رہے۔کوئی نتیجہ پولنگ اسٹیشن پر ہمارے ایجنٹوں کو فراہم نہیں کیا گیا۔ تاریخ کا بدترین جھرلو پھیرا گیا، خود آرام سے بیٹھیں گے نہ کسی کو بیٹھنے دیں گے اور بھرپور مزاحمت کریں گے۔ نواز لیگ کے صدر شہباز شریف نے اے پی سی کے فیصلے کے تحت ملک بھر میں جلسوں اور تحریک چلانے کے اعلان سے پوری طرح متفق ہونے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ انتخابات میں بدترین بے ضابطگیاں ہوئیں۔حلف نہ اٹھانے کی تجویز پر جماعت سے مشورہ کر کے فیصلے سے آگاہ کروں گا۔تحریک اور جلسوں کیلئے چند روز میں اگلا لائحہ عمل بنائیں گے۔ مولانا فضل الرحمن اور شہباز شریف تاہم احتجاج کی نوعیت اور ٹائم فریم کے بارے میں کسی سوال کا جواب نہ دے سکے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس معاملے پر تا حال اتفاق رائے نہیں ہوا۔ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق، اے این پی کے اسفندیار ولی، ایم کیو ایم کے فاروق ستار، محمود اچکزئی، مصطفیٰ کمال، ساجد میر، علامہ ساجد نقوی سمیت دیگر کئی مرکزی رہنما اس موقع پر خاموش کھڑے رہے۔ مشترکہ پریس کانفرنس صرف2 سوالات کے مختصر جوابات دے کر ختم کر دی گئی ۔پریس کانفرنس ختم ہوتے ہی تمام رہنما چلے گئے اور انہوں نے صحافیوں کی جانب سے کسی سوال کا جواب نہ دیا۔ ذرائع کے مطابق اے پی سی کے ابتدائی اجلاس میں شریک جماعتیں انتخابات میں دھاندلی کیخلاف احتجاج پر تو راضی ہیں، تاہم احتجاج کی نوعیت پر سب جماعتیں ایک پیج پر نہیں۔ جن میں سر فہرست خود سابق حکمران جماعت نواز لیگ ہے،جس نے اس حوالے سے دیگر جماعتوں سے دو روز کا وقت مانگا۔ اس سے قبل بعض سیاسی رہنما تاخیر سے کانفرنس میں شریک ہوئے، جن کا کہنا تھا کہ مختصر نوٹس پر بلائے جانے کے باعث انہیں آنے میں تاخیر ہوئی۔اے پی سی میں شرکت سے قبل کوئٹہ پریس کلب میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئےپشتون خواہ میپ کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے انتخابی نتائج مسترد کرتے ہوئے کہا کہ تاریخ کی بدترین دھاندلی ہوئی۔ریٹرننگ آفیسر اور پولنگ آفیسرز سیکورٹی اہلکاروں کے سامنے بالکل بے بس تھے ۔ بتایا جائے کہ سیکورٹی اہلکاروں کے آگے سرنڈر کیا گیا تھا یا پھر انہوں نے خود اختیار چھینے تھے کیونکہ ناصرف ان کی مو جو دگی میں ہما رے مخالفین کو ٹھپے لگوائے گئے اور اس کام میں اہلکاروں نے بھی مدد فراہم کی۔ہمارے بتائے ہوئے 10سے 12پولنگ بوتھ پر ڈالے گئے ووٹوں کی بائیو میٹرک تصدیق کرائی جائے ۔دھاندلی ثابت نہ ہوئی تو ہم نتائج کریں گے۔دھاندلی ثابت ہوئی تو فیصلہ خود کریں گے۔ادارے ایک دوسرےکی حدود میں مداخلت سے باز رہیں ورنہ بڑی بربادی ہو جائے گی۔ توبہ اچکزئی میں 17سے18 پولنگ اسٹیشنز پر سیکورٹی اہل کاروں اور مسلح دھڑوں نے پولنگ کے عمل کو روکے رکھا۔ ایک ماہ قبل ہمارے نامزد امیدوار کی جانب سے الیکشن کمیشن کو نشاندہی کے باوجود 12تا 13 خطرناک پولنگ اسٹیشن پر 100فیصد ووٹ کاسٹ ہوئے۔میں نواز شریف سے ملنے اڈیالہ جیل بھی جاؤں گا۔فورسز سے تعلق رکھنے والا جو بھی فرد سیاست میں حصہ لیتا ہے وہ آئین کی خلاف ورزی کرتا ہے۔جج پارلیمنٹ کے ممبران و دیگر سب کی ذمہ داری ہے کہ وہ سیاست میں مداخلت کرنے والوں کو روکیں۔ادھر عوامی نیشنل پارٹی کے تھنک ٹینک اجلاس کے بعد پریس کانفرنس میں اسفندیار ولی خان نے حالیہ الیکشن کے نتائج مسترد کرتے ہوئے 30 جولائی کو صوبے بھر احتجاج کا اعلان کیا ہے۔ انہوں نے الزام لگایا کہ دھاندلی میں الیکشن کمیشن و نگران حکومت شامل ہیں۔ دوبارہ شفاف انتخابات کرائے جائیں۔ ہمارے پولنگ ایجنٹس کو پولنگ اسٹیشنوں کے اندر جانے دیا گیا نہ ہی فارم45پر نتیجہ دیا گیا۔معلوم نہیں تھا کہ الیکشن کے دن اتنی ننگی دھاندلی ہو گی۔ فارم45 دیگر پولنگ ایجنٹس تو درکنار میری اپنی بیٹی کو بھی نہیں دیا گیا۔پورے نتیجے کو 6بجے سے 7کے درمیان ایک گھنٹے کے وقفے کے دوران تبدیل کیا گیا ۔ پولنگ کے عملہ نے 6بجے تمام پولنگ ایجنٹس کو باہر نکال کر 7بجے تک آرام کیلئے وقفے کا بہانہ کیا۔ اسی ایک گھنٹے کے اندر نتائج بدلے گئے ۔دھاندلی زدہ الیکشن کے بعد سیاسی استحکام ممکن نہیں۔دہشت گردی میں پختون قیادت کو نشانہ بنایا جا رہا ہے جبکہ الیکشن میں بھی پختون قیادت کو باہر کیا گیا ۔30جولائی کو ہمارا احتجاج پر امن ہوگا۔ علاوہ ازیں تحریک لبیک پاکستان کے مرکزی رہنما حفیظ اللہ علوی نے امت سے گفتگو میں کہا کہ الیکشن میں ہمارا مینڈیٹ چوری ہوا ،جس کے خلاف اپنے طور پر احتجاج کریں گے ، اس ضمن میں اے پی سی میں شرکت کی ہے نہ ہی آئندہ کریں گے۔ٹی ایل پی کے سامنے احتجاجی تحریک چلانے اور اسمبلیوں کا اجلاس روکنے سمیت تمام آپشن موجود ہیں۔قیادت باہمی مشورے کے بعد ہی کوئی فیصلہ کرے گی۔امت کو ذرائع نے بتایا کہ یہ نواز لیگ کے بیانیہ کی کامیابی ہے کہ انتخابی نتائج نے جس مسلم لیگ کو زیادہ زک پہنچائی وہ اسمبلیوں کا حلف نہ اٹھانے پر اب تک یکسو نہیں لیکن مذہبی جماعت اس کے کھڑے ہونے سے پہلے ہی اس کا ساتھ دینے کھڑی ہو گئی ہیں جو اس کی بڑی سیاسی کامیابی ہے۔ لیگی ذرائع کے مطابق ممکنہ احتجاج کے لیے سخت جان کارکنوں کی بھاری نفری بھی یہی مذہبی جماعتیں دیں گی۔
٭٭٭٭٭
کراچی(اسٹاف رپورٹر) پیپلز پارٹی نے مراد علی شاہ کو دوبارہ سندھ کی وزارت اعلیٰ کا امیدوار نامزد کرتے ہوئے پارلیمنٹ میں نہ جانے کی تجویز مسترد کر دی ہے ۔ پیپلز پارٹی نے قومی اسمبلی میں اپوزیشن میں بیٹھنے ،مفاہمتی پالیسی و فرینڈلی اپوزیشن کی پالیسی ترک کرتے ہوئے انتخابی نتائج کیخلاف ہر فورم پر آواز اٹھانے اور عدالتوں سے رجوع کا فیصلہ کیا ہے۔چیف الیکشن کمشنر پر مستعفی ہونے کا دباؤ بڑھانے کی حکمت عملی بھی وضع کر لی گئی ہے ۔پی پی سربراہ بلاول زرداری و آصف علی زرداری کی زیر صدارت جمعہ کو بلاول ہاؤس میں ہونے والے اجلاس میں تاج حیدر کی سربراہی میں فیکٹس فائنڈنگ کمیٹی بنا کر تمام پی پی امیدواروں کو دھاندلی کے ثبوت کمیٹی میں جمع کرانے کی ہدایت کی گئی ہے۔ کمیٹی مسترد ووٹوں کے معاملے کا بھی جائزہ لے گی ۔اجلاس میں سید خورشید شاہ،سید نوید قمر،رحمن ملک،فرحت اللہ بابر،شیری رحمن،منظور وسان،اعتزاز احسن ،نیرحسین بخاری،قمر زمان کائرہ و دیگر سینئر پی پی رہنماؤں نے شرکت کی۔ اجلاس کے دوران سندھ میں حکومت سازی و اپوزیشن پارٹیوں سے مشاورت کیلئے بھی کمیٹی بنا ئی گئی ۔ ہارنے والے امیدواروں کو عدالتوں سے رجوع کی ہدایت بھی کی گئی ۔اجلاس کے بعد پارٹی رہنماؤں کے ہمراہ پریس کانفرنس میں پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول زرداری نے الیکشن کو مسترد کرتی ہوئے کہا ہے کہ پارلیمنٹ میں نہ جانے کی بات ٹھیک نہیں، سیاسی جماعتیں یہ فورم نہ چھوڑیں ۔میں بھی پارلیمان میں جا کر معاملہ آگے بڑھاؤں گا ۔ یہ فری اینڈ فیئر الیکشن نہیں تھے۔ کئی جماعتوں کو نتائج پرسنجیدہ تحفظات ہیں ان سےبات کرینگے الیکشن کو مشکوک بنانے کی ضرورت نہیں تھی۔ شفاف انتخابات کرانا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے۔ صاف و شفاف الیکشن نہ کرانے پر چیف الیکشن کمشنر مستعفی ہو جائیں ۔ ہم انتخابی عمل کو بے نقاب کریں گے ۔ہم نے ایم ایم اے کی اے پی سی میں اس لئے شرکت نہیں کی کہ ہم حقائق ڈھونڈنا چاہتے ہیں۔تمام جماعتوں کو ساتھ لیکر چلیں گے ایوانوں سے باہر نہیں رہیں گے اور ہم سندھ میں بھی حکومت بنائیں گے۔ لیاری والے میرے لاڈلے ہیں۔میں کارکنوں کوسلام پیش کرتا ہوں جنہوں نے پارٹی کی کامیابی کے لیے انتخابی مہم چلائی اور2013 سے بہتر نتائج ملے۔ وفاقی میں اپوزیشن میں بیٹھیں گے اورسندھ میں حکومت بنائیں گے۔انہوں نے مراد علی شاہ کو دوبارہ وزیر اعلی بنانے کا اعلان بھی کیا ۔