نیویارک(مانیٹرنگ ڈیسک) قطر میں خصوصی امریکی سفیر نے طالبان کے نمائندوں سے ملاقات کی ہے،ایک اور ملاقات رواں مہینے کے اختتام پر ہونے کا امکان ہے۔امریکا کے معتبر جریدے وال اسٹریٹ جرنل نے رپورٹ کیا ہے کہ جنوبی ایشیا کے لیے امریکی مندوب ایلس ویلز نے طالبان کے نمائندوں سے ملاقات کی ہے۔ امریکی جریدے نے رواں ہفتے کے دوران ہونے والی اس اہم ملاقات کو ذمہ دار سفارتی حلقے کے توسط سے شائع کیا ہے۔طالبان کی اعلیٰ قیادت کی حامل کونسل جو کوئٹہ شوریٰ کے نام سے مشہور ہے، کے ایک رکن نے بھی نام مخفی رکھنے کی شرط پر اس ملاقات کی تصدیق کی ہے۔ نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مطابق طالبان کے نمائندوں سے امریکی ایلچی کی ملاقات قطری دارالحکومت دوحہ میں ہوئی ہے۔ایجنسی فرانس پریس کو طالبان کے نمائندے نے بتایا ہے کہ مذاکرات میں ایک خاتون ضرور شامل تھی۔تاہم اس کمانڈر نے اس خاتون کا نام نہیں بتایا۔وال اسٹریٹ جرنل کے مطابق امریکی ایلچی اور طالبان کمانڈروں کے درمیان دوحہ میں ہونے والی یہ پہلی ملاقات بنیادی طور پر فریقین میں اعتماد سازی کے حوالے سے تھی۔امریکی وزارت خارجہ نے وال اسٹریٹ جرنل کی رپورٹ کی باضابطہ طور پر تصدیق یا تردیدنہیں کی ہے۔ یہ ملاقات رواں ہفتے کے دوران پیر23 جولائی کو خلیجی ریاست قطر کے دارالحکومت میں ہوئی تھی۔ یہ البتہ بتایا گیا کہ ایلس ویلز قطر ضرور گئی ہوئی ہیں اوروہاں قطری حکومت کے اعلیٰ اہلکاروں سے ملاقاتوں میں مصروف ہیں۔قطر میں ایلس ویلز کی ملاقاتوں کے حوالے سے امریکی وزارت خارجہ کا بیان بھی سامنے آیا ہے اور اس میں کہا گیا کہ سفیر ایلس ویلز قطری حکومت کی اُن کوششوں کا خیرمقدم کرتی ہے جن کا تعلق افغانستان کے حوالے سے ہے اور یہ یقینی طور پر انتہائی تعمیری سلسلہ ہے۔ انہوں نے افغان تنازع کے پُرامن حل میں امریکی حکومت کے ساتھ قطر کی معاونت کا شکریہ بھی ادا کیا۔امکان ظاہر کیا گیا ہے کہ امریکی نمائندے اور طالبان کے درمیان ایسی ایک اور ملاقات رواں مہینے کے اختتام یعنی31 جولائی کو ہو سکتی ہے۔ یہ امر اہم ہےکہ طالبان براہ راست امریکا کے ساتھ مذاکرات شروع کرنے پر اصرار کرتے رہے ہیں۔ ایلس ویلز امریکی وزارت خارجہ کے شعبہٴ جنوبی و وسطی ایشیائی امور میں تعینات ہیں اور ایک سینیئر اہلکار ہیں۔امریکی فوج کے چوٹی کے اہلکار یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ تقریباً 17 برس گزرنے کے باوجود یہ تنازع تعطل کا شکار ہے۔
٭٭٭٭٭
واشنگٹن(این این آئی)امریکی واتحادی فضائیہ نے اس سال افغانستان میں ریکارڈ تعداد میں بم گرائے ۔یہ بات پینٹاگان کے اعداد و شمار میں بتائی گئی ہے۔امریکی فضائیہ کی سنٹرل کمان کے ڈیٹا کے مطابق سال 2018ء کی پہلی شش ماہی میں امریکہ اور اْس کے اتحادیوں نے افغانستان پر 2911بم گرائے۔یہ تعداد گذشتہ سال افغانستان میں اسی مدت کے دوران استعمال کیے گئے بموں کے مقابلے میں تقریباً دگنا ہے، جب کہ 2011ء میں جب سنگین لڑائی جاری تھی، اس کے مقابلے میں تقریباً 700سے زیادہ بم گرائے گئے۔بم حملوں میں یہ تیزی اگست 2017ء میں صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی جانب سے فوجی مشن جاری رکھنے کے اعلان کے بعد آئی۔جون میں افغانستان میں توقعات کی ایک مختصر نئی لہر اْس وقت سامنے آئی جب افغان حکومت اور طالبان نے رمضان کے متبرک مہینے کی تکمیل پر کامیابی کے ساتھ سہ روزہ جنگ بندی کی۔حالانکہ امریکہ نے طالبان کے خلاف دو ہفتوں تک جارحانہ حملے معطل کرکے جنگ بندی جاری رکھی؛ تاہم، امریکی قیادت والے اتحاد نے جون میں 572 بم گرائے۔پینٹاگان کے اعداد کے مطابق، لڑائی کے دوران جون کے مہینے میں گرائے جانے والے بموں کی یہ سب سے بڑی تعداد ہے۔افغانستان میں امریکہ کے اندازاً 14000 فوجی تعینات ہیں۔ اْن میں سے زیادہ تر تربیت اور مشاورتی کردار ادا کر رہے ہیں، حالانکہ انسداد دہشت گردی کے مشن میں شریک ہیں۔