این اے 57میں شاہد خاقان کی شکست پر ووٹرز حیران

مری( احمد خلیل جازم ) حالیہ الیکشن میں سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی این اے 57سے اپنی آبائی نشست ہار گئے ، دلچسپ بات یہ ہے کہ الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ پر ان کے حلقے کے فارم 47پر رزلٹ جہلم کے حلقے این اے 84 کا لکھا ہوا ہے۔1985ء میں ان کے والد خاقان عباسی اسی نشست سے جیتے تھے جس کے بعد صرف 2002ء میں شاہد خاقان عباسی یہ نشست مرتضیٰ ستی سے ہارے اور اب دوبارہ وہ اس نشست سے تحریک انصاف کے صداقت عباسی کے ہاتھوں شکست سے دوچار ہوئے۔حلقہ میں ان کی اپنی یوسی کے لوگوں کا کہنا ہے کہ شاہد خاقان عباسی کو زبردستی ہرایا گیا ہے،انہیں ایک لاکھ 24ہزا ر ووٹ ملے ۔شاہد خاقان عباسی کی اپنی برادری کا ووٹ بہت زیادہ ہے، یہی وجہ ہے کہ وہاں کسی نے ان کی ہار کو تسلیم نہیں کیا۔ دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ ان کے مدمقابل صداقت عباسی تھے ، جن کی پی ٹی آئی کے امیدوار کے علاوہ اور کوئی کارکردگی نہیں، انہیں ایک لاکھ 36ہزار سے زائد ووٹ ملے۔ حلقے کے لوگوں کا مزید کہنا تھا کہ زیادہ تر لوگ شاہد خاقان عباسی کو پسند کرتے ہیں جس کی بنیادی وجہ حلقے میں ان کے کام ہیں، مثلاً گیس پائپ لائن بچھانے کا مشکل ترین اور مہنگا کام پہلے کسی دور حکومت میں سوچا ہی نہ جاسکا،پورا سیزن مری میں یہ پراجیکٹ جاری رہا اور دور دراز کے پہاڑی علاقوں تک پائپ لائن بچھائی گئی۔ پہاڑی علاقوں پر یہ ایک بظاہر ناممکن امر دکھائی دیتا ہے ، لیکن شاہد خاقان عباسی نے اس کا بیڑا اٹھایا اور پائپ لائن پہنچانے کا کام شروع کرایا،جب کہ مری میں دیگر ترقیاتی کاموں میں بھی خاصی دلچسپی لی گئی، جن میں سڑکوں کو کھلا کرنا اور ان کی تعمیر نو شامل ہے ۔ این اے 57 ضلع راولپنڈی تحصیل مری کوٹلی ستیاں اور کہوٹہ کے علاوہ تحصیل کلر سیداں اور تحصیل راولپنڈی کے کچھ علاقوں پر مشتمل ہے، اگر ایسی ہی بات ہوتی تو شاہد خاقان عباسی کے حمایت یافتہ امیدوار دیگر تحصیلوں میں بھی ہار جاتے جیسے تحصیل کہوٹہ سے ان کا حمایت یافتہ امیدوار جیت گیا ہے ۔ شہریوں کا کہنا ہے کہ شاہد خاقان عباسی کے ہارنے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے اپنے علاقے میں کوئی اسکول ، کالج تعمیر نہیں کرایا، اس کے علاوہ تمام لنک روڈزبشمول مین روڈ مثلاًکشمیر جی ٹی روڈ، لوئرٹوپہ سے کوہالہ روڈاور جھیکا گلی سے کوہالہ روڈ کی تعمیر کا معاملہ کھٹائی میں پڑا رہا۔اس کے علاوہ ایک اور فیکٹر ختم نبوت کےمعاملے کا بھی رہا ، لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ ایشو اس وقت سامنے آیا جب شاہد خاقان وزیر اعظم تھے، لیکن انہوں نے اس پر کھل کر بات نہیں کی۔ 27ہزار سے زائد ووٹ تحریک لبیک پاکستان کے امیدوار نے لیے جو لامحالہ پہلے شاہد خاقان عباسی کو ملتے تھے۔اگر آج بھی اس حلقے میں شفاف الیکشن کرائے جائیں تو صداقت عباسی کسی بھی جماعت کے ٹکٹ پر کھڑے ہو جائیں تو وہ 40 ہزار ووٹ بھی لینے کی پوزیشن میں نہیں۔اس بات کے جواب میں کہ اس بار کن وعدوں پر شاہد خاقان عباسی نے ووٹ مانگا تو اکثر لوگوں کا خیال تھا کہ صرف نواز شریف کے نام پر ووٹ مانگا ، لیکن لوگوں نے انہیں مسترد کردیا۔ جب کہ دوسری جانب دیہات میں یہ معمول ہے کہ غمی خوشی میں سیاسی لیڈر شامل ہوتے ہیں ، لیکن انہوں نے اپنے دور حکومت میں عوامی رابطے بھی محدود رکھے۔ دوسری جانب صداقت عباسی جو کہ صرف پرائیویٹ تعلیمی اداروں سے وابستہ ہیں انہوں نے نہ صرف عوامی رابطہ بحال رکھا، بلکہ لوگوں کے دکھ سکھ میں بھی شریک ہوتے رہے، وہ چونکہ حکومت میں تو نہیں تھے ، اس لیے اجتماعی کام صداقت عباسی نے کوئی نہیں کرایا لیکن ہر اہم موقع پر حلقے کے لوگوں کے ساتھ شریک رہے۔ کچھ لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ شاہد خاقان عباسی صرف اپنے دور وزارت عظمیٰ میں حلقے کے عوام سے مربوط نہیں رہے ، اس کے باوجود ان کے سیکرٹری حافظ عثمان ان کی نمائندگی کرتے ہوئے لوگوں کے دکھ درد میں شریک ہوتے رہے ۔اس لیے یہ کہنا کہ ان کا عوام سے رابطہ نہیں تھا، درست بات نہیں،بعض لوگوں نے کھلے بندوں کہا کہ دراصل اس بار کچھ قوتوں نے یہ طے کرلیا تھا کہ اسمبلی میں کھل کر بولنے والوں کو اسمبلی میں نہیں جانے دینا، اب تو پارلیمنٹ نرسری کلاس دکھائی دیتی ہے، کون ہے جو پارلیمنٹ میں شاہد خاقان عباسی کی طرح بول سکتا ہے، شاہد خاقان عباسی اسمبلی میں ہمیشہ کھل کر بولتے رہے جو بعض مقتدر قوتوں کو پسند نہیں تھا، حالانکہ ان کے اپنے خاندان میں ان مقتدر قوتوں کے نمائندے موجود ہیں، لیکن وہ بھی اس موقع پر شاہد خاقان عباسی کی داد رسی نہ کرسکے، کیوں کہ انہوں نے وزیر اعظم ہونے کے باوجود یہ بات علی اعلان کہی تھی کہ میرا وزیر اعظم نواز شریف ہے اور یہی لہر انہیں بہا لے گئی اور نواز شریف کا نام بعض قوتیں پسند نہیں کرتی۔یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس حلقے میں عباسی اور ستی برادری کے امیدوار ہی کامیاب ہوتے ہیں۔ تاہم حلقے میں ان دو برادریوں کے علاوہ چوہدری، دھنیال، راجپوت، کشمیری اور قریشی بھی کافی تعداد میں آباد ہیں، جن کی حمایت کسی بھی امیدوار کے لیے بہت ضروری ہے، ان تمام برادریوں کا ووٹ بھی شاہد خاقان کو نہ ملتا پھر بھی دوسرے امیدوار کا ایک لاکھ 36ہزار سے زائد ووٹ حاصل ممکن نہ تھا۔ گزشتہ انتخابات میں دوسرے اور تیسرے نمبر پر رہنے والے پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی کے دونوں امیدوار اس مرتبہ پی ٹی آئی میں اکٹھے ہو گئے، لہٰذا پی ٹی آئی کے امیدوار کو عباسی اور ستی دونوں برادریوں کا ووٹ ملا ہے۔حلقہ این اے 57سے شاہد خاقان عباسی کی آبائی نشست کی ہار اکثریت تسلیم نہیں کررہی ، یہی وجہ ہے کہ لوگوں الیکشن رزلٹ کے روز گنتی پوری نہ ہونے پر ووٹوں والے بیگ جہاں رکھے گئے ، رات بھر ڈیوٹی دی تاکہ کوئی گڑ بڑ نہ کرسکے۔ شاہد خاقان عباسی کی ہار مری کے لوگوں کے لیے نہ صرف حیران کن ہے بلکہ باعث تشویش بھی ہے ، وہ کھل کر یہ کہہ رہے ہیں کہ ان کے حق پر ڈاکہ ڈالا گیا ہے ، جو شاہد خاقان عباسی کو تو منظور ہو سکتا ہے لیکن انہیں منظور نہیں ۔تاہم شاہد خاقان عباسی کا کہنا ہے کہ” جو کچھ ہوا وہ نگران حکومت کے بس کی بات نہیں ، اس کے ثبوت تو میرے پاس نہیں ہیں، لیکن رات گئے میرے پولنگ اسٹاف کو کیوں باہر نکال دیا گیا،اس پر کیا تبصرہ ہوسکتا ہے۔“ شاہد خاقان عباسی نے بظاہر شکست تسلیم کرلی ہے اور آئندہ ضمنی الیکشن بھی نہ لڑنے کا اعلان کیا ہے۔

Comments (0)
Add Comment