لیگی اراکین کی اکثریت کا اسمبلیوں میں بیٹھنے کا فیصلہ

اسلام آباد ( محمد فیضان ) مسلم لیگ ن نے متحدہ مجلس عمل کے سربراہ مو لا نا فضل ا لرحمن کی خواہشات پر آ ل پارٹیز کا نفرنس کے ایجنڈے کو آ گے بڑھانے کیلئے اپنا کندھا پیش نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ذرا ئع کے مطابق مسلم لیگ ن کے ا رکان قومی و صوبا ئی اسمبلی کی ا کثریت نے مولانا فضل ا لرحمن کی خواہش پر ا سمبلیوں میں حلف نہ ا ٹھا نے کی تجویز مسترد کر دی ہے اور اسمبلیوں میں بیٹھنے کا فیصلہ کرتے ہو ئے پیپلز پارٹی سمیت دیگر جماعتوں سے را بطے بڑھانے پرا تفاق کیا ہے اور دلیل پیش کی ہے کہ اسمبلیوں میں نہ جانا ووٹ کو عزت دو کے بیانیہ کی خلاف ورزی ہو گی اور تجویز کیا ہے کہ اسمبلیوں میں حلف ا ٹھا تے وقت کا لی پٹیاں باند ھ کر شرکت کی جا ئے۔ ذرا ئع کے مطابق مسلم لیگ ن نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ قومی اسمبلی میں تحریک انصاف کو بطور ا پوزیشن ٹف ٹائم دے گی جبکہ آ ل پارٹیز کا نفرنس میں شا مل دیگر سیا سی جماعتوں کے سربراہوں ، سراج الحق ، آفتاب شیرپاو ، محمود خان ا چکزئی ، اسفند یا ر ولی ، حا صل بزنجو ،ساجد میر ، علا مہ سا جد نقوی نے بھی مسلم لیگ ن کے اس مو قف کی حمایت کر دی ہے جس کے بعد آل پا رٹیز کا نفرنس کا و جو د اور آئندہ اجلاس کا انعقاد خطرے میں پڑ گیا ہے ۔ وا ضح رہے کہ آ ل پا رٹیز کانفرنس مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف کی خوا ہش پر ہو ئی تھی جبکہ اس کانفرنس کے پلیٹ فارم سے اسمبلیوں کا با ئیکاٹ کرنے کی تجویز متحدہ مجلس عمل کے سربراہ نے پیش کی تھی، ا جلاس میں فیصلہ کیا گیا تھا کہ اس پرا تفاق رائے کے بعد بات ہو گی تاہم مولانا فضل ا لرحمن نے پریس کا نفرنس میں بات کر کے شہباز شریف کو ا متحان میں ڈال دیا ۔ذرا ئع کا کہنا ہے کہ آ ل پاٹیز کانفرنس میں شریک تمام جماعتیں حتی ٰ کہ مجلس عمل کی پلیٹ فارم سےمنتخب ہو نے والے اراکین بھی ا سمبلیوں کے با ئیکاٹ کے حق میں نہیں ۔ ذرا ئع کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ ن کی جانب سے مولانا فضل ا لرحمن کو سا بق صدر آ صف علی زرداری سے بات چیت کی ذمہ داری سونپی گئی تھی لیکن وہ ان کو قا ئل کرنے میں نا کام رہے تاہم اس کے با و جود پیپلز پارٹی کو آ ل پا رٹیز کا حصہ بنانے کے لیے ہفتہ کے روز بھی را بطے کیے گئے لیکن اس میں کو ئی کا میابی حا صل نہیں ہو سکی۔ علاوہ ازیں مسلم لیگ(ن) کے صدر شہباز شریف نے پارٹی کی مرکزی مجلس عاملہ کا اجلاس آج طلب کر لیا ہے جس میں اسمبلیوں میں حلف نہ اٹھانے سمیت اے پی سی کی تجاویز سمیت آئندہ کے لائحہ عمل پر تبادلہ خیال جائیگا ۔
٭٭٭٭٭
اسلام آباد(جنرل پروٹر)جماعت اسلامی نے بھی متحدہ اپوزیشن کی انتخابی دھاندلی کے خلاف احتجاج کی کال کا حصہ نہ بننے کا فیصلہ کر لیا ہے اور آج اتوارکو جماعت اسلامی کی مرکزی مجلس عاملہ اس بارے میں حتمی فیصلہ کرے گی۔ پاکستان مسلم لیگ ن سمیت دھاندلی کا الزام عاید کرنے والی دیگر بڑی جماعتوں کی جانب سے ایم ایم اے کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کی حلف نہ اٹھانے کی کال مسترد کیے جانے کے بعد جماعت اسلامی نے بھی اس احتجاج سے راہیں جدا کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ ذرائع کے مطابق داخلی سطح پر جماعت اسلامی کے کئی رہنما مولانا فضل الرحمان کی جانب سے پارلیمان کے بائیکاٹ اور دوبارہ انتخابات کے مطالبے پر تحفظات رکھتے ہیں۔انہی ارکان کے کہنے پر اتوار کے روز جماعت کی مرکزی مجلس عاملہ کا اجلاس طلب کیا گیا ہے، جہاں جماعت اسلامی انتخابی نتائج میں ہونے والی مبینہ دھاندلی کے خلاف احتجاج کے حوالے سے حکمت عملی طے کرے گی۔ تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ جماعت اسلامی نے ایم ایم اے کے پلیٹ فارم سے احتجاج کی بجائے اپنے طور پر احتجاج کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ اس حوالے سے جب جماعت اسلامی کے نائب امیر میاں محمد اسلم سے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ اے پی سی میں کیے گئے فیصلے تمام سیاسی جماعتوں کے اتفاق رائے پر منحصر تھے اب جبکہ مسلم لیگ ن، جس کے صدر شہباز شریف کی دعوت پر اے پی سی منعقد ہوئی، خود ہی اے پی سی کے فیصلوں سے پیچھے ہٹ گئی ہے تو دیگر جماعتوں پر بھی ان فیصلوں کی پابندی لازم نہیں رہی۔ ’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے میاں محمد اسلم کا کہنا تھا کہ اب تمام جماعتیں آزاد ہیں کہ وہ اپنے احتجاج کا لائحہ عمل طے کرنے کریں۔ ایم ایم اے کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کی جانب سے اے پی سی میں سامنے آنے والی تجاویز کے سوال پر میاں اسلم کا کہنا تھا کہ اب ان تجاویز کی کوئی حیثیت باقی نہیں رہی۔ دوسری جانب جماعت اسلامی کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات قیصر شریف کے مطابق امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق نے مرکزی مجلس عاملہ کا اجلاس اتوار کو لاہور میں طلب کرلیاہے جہاں ملکی صورتحال کا جائزہ لیا جائے گا اور انتخابی نتائج اور آئندہ کی حکمت عملی پر غور کیا جائے گا۔اس سے قبل مسلم لیگی رہنماء خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ آل پارٹیز کانفرنس میں جس قسم کے فیصلے ہو رہے ہیں اس سے جمہوریت کو نقصان ہو گا، ہمیں عمران خان کی روایات کو جاری نہیں رکھناچاہیے ، ہم جمہوری عمل کو نقصان نہیں پہنچائیں گے ۔

Comments (0)
Add Comment