زرداری کو وزیراعظم بنانے کے لئے پیپلز پارٹی سرگرم

کراچی/اسلام آباد (رپورٹ ارشادکھوکھر/محمد فیضان ) تحریک انصاف سربراہ عمران خان کی وزارت عظمیٰ کی نمبر گیم پھنس گئی۔ 6 چھوٹی جماعتیں ملانے سے بھی کام نہیں بن رہا۔ صورتحال دیکھتے ہوئے متحدہ پاکستان نے اپنی قیمت بڑھا دی اور جہانگیر ترین کی جانب سے رابطے پر سوچنے کی مہلت مانگ لی ہے۔ ادھر پیپلز پارٹی نے شریک چئیرمین آصف علی زرداری کو وزیراعظم بنانے کی سرگرمیاں تیز کردی ہیں۔ پی پی ترجمان نے اگرچہ اس امر کی تردید کی ہے کہ سابق صدر مرکز میں کسی عہدے کے امیدوار ہیں تاہم ذرائع کا دعوی ہے کہ پیپلز پارٹی نے مسلم لیگ ن اور متحدہ مجلس عمل کو اسی شرط پر تعاون کی پیشکش کی ہے کہ انہیں وزیراعظم نامزد کیا جائے تو پیپلز پارٹی دھاندلی کیخلاف احتجاج میں بھی دونوں جماعتوں کے شانہ بشانہ ہوگی۔ ذرائع کے مطابق یہ تجویز مولانا فضل الرحمن ٰ کے بار بار رابطوں کے جواب میں کی گئی ہے۔ فی الحال مسلم لیگ ن نے کوئی جواب نہیں دیا تاہم آج سابق قائد حزب اختلاف سیدخورشید شاہ کی ن لیگ کے صدر شہباز شریف سے ملاقات میں اس حوالے سے پیشرفت متوقع ہے۔ تفصیلات کے مطابق عمران خان کے 5 حلقوں اور پی ٹی آئی کے غلام سرور، ظاہر صادق اور مسلم لیگ ق کے چوہدری پرویز الٰہی کے 2،2 حلقوں سے کامیابی نے نمبر گیم کو الجھا دیا ہے، کیونکہ اس سے تحریک انصاف کی کم ازکم 7نشستیں کم ہو گئی ہیں۔ پرویزخٹک کی جانب سے صوبائی سیٹ پر حلف اٹھانے سے ایک اور نشست کم ہو جائے گی۔اس کے علاوہ ووٹوں کی دوبارہ گنتی کی درخواستوں کے بعد کئی امیدوار ہائی کورٹ سے رجوع کر کے متعلقہ حلقوں کے نتائج رکوانے کے لئے حکم امتناعی حاصل کرنے کے لئے بھی سرگرم ہیں، جس سے وزارت عظمیٰ کی نمبرگیم متاثر ہوسکتی ہے۔ قومی اسمبلی کے 342 کے ایوان میں وزیر اعظم کے انتخاب کے لئے کم سے کم 172 اراکین کی حمایت حاصل ہونا ضروری ہوتا ہے۔ 25جولائی کو منعقدہ عام انتخابات کے جو نتائج سامنے آئے ہیں، اس کے مطابق پی ٹی آئی کو 115 جنرل نشست ملی ہیں۔ اس حساب سے خواتین کی 27 اور اقلیتوں کی 4مخصوص نشستیں بنی ہیں۔ اس طرح عمران خان 5حلقوں، پی ٹی آئی کے غلام سرور خان ، طاہر صادق اور ق لیگ کے پرویز الہٰی 2،2 نشستوں پر کامیاب ہوئے، جنہیں اسمبلی میں حلف اٹھانے سے قبل یہ فیصلہ کرنا ہے کہ وہ اپنے پاس کون سی ایک ایک نشست رکھتے ہیں۔ باقی 6 نشستیں انہیں خالی کرنا پڑی گی، جن میں ضمنی انتخابات ہوں گے۔ اس طرح پی ٹی آئی کی اراکین کی اس وقت قومی اسمبلی میں مجموعی تعداد 140نشستیں ہیں۔ تحریک انصاف کے پی کے سے قومی اسمبلی کی 30جنرل نشستیں جیتی ہیں۔ اس لئے کے پی کے سے 9ان کی خواتین مخصوص نشستوں پر 7 امیدواروں کی کامیابی کیساتھ پی ٹی آئی کے پی کے سے تعلق رکھنے والے ممبران 37ہوگئے۔ اسلام آباد سے 3جنرل اور ایک خواتین کی مخصوص نشست کے ساتھ اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے ایم این ایز کی تعداد 4ہے۔ پنجاب سے قومی اسمبلی کی 59جنرل نشستوں پر کامیابی کے باعث 14خواتین مخصوص نشستوں کے سا تھ پنجاب سے تعلق رکھنے والے ایم پی ایز کی تعداد 73 ہو گئی ہے۔ سندھ سے 15جنرل نشستوں اور 4 مخصوص نشستوں سے سندھ سے تعلق رکھنے والے اراکین کی تعداد 19 ہے۔ بلوچستان سے 2جنرل نشستوں کی کامیابی کے باعث ایک خواتین کی مخصوص نشست بھی پی ٹی آئی کو ملے گی۔ اس طرح فاٹا سے بھی پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر 6ایم این اے منتخب ہوئے ہیں۔ واضح رہے کہ فاٹا کی جنرل نشستوں میں خواتین کی مخصوص نشستوں کا کوٹہ نہیں ہوتا، اس طرح حکومت کو 4سیٹوں کے ساتھ پی ٹی آئی کی جو 146 نشستیں بن رہی ہیں، ان میں سے انہیں 6جنرل نشستیں خالی کرنی ہیں۔ اس صورتحال میں پی ٹی آئی جن چھوٹی جماعتوں کو ملا کر مخلوط حکومت بنانے کے لئے سرگرم ہے، ان کے نخرے بھی بڑھ گئے ہیں۔ گزشتہ روز پی ٹی آئی کے تاحیات نااہل قرار دئیے گئے رہنما جہانگیر ترین نے کراچی میں متحدہ کے رہنماؤں سے ملاقات کی۔ متحدہ کے رہنماؤں نے انہیں حتمی جواب دینے کے بجائے یہ کہا ہے کہ وہ مسلم لیگ ن سے بھی بات کریں گے، جس کے بعد انہیں جواب دیں گے۔ اس طرح نمبر گیم کی اس صورتحال میں متحدہ کی قیمت بھی بڑھ گئی ہے۔ متحدہ کی 7 نشستیں ہیں، جن میں 6 جنرل اور ایک خواتین کی نشست کے ساتھ 7ایم این ایز بنے ہیں۔ سندھ میں جی ڈی اے صرف 2جنرل نشستیں لے سکی ہے، جس کے باعث انہیں بھی خواتین کی ایک مخصوص نشست ملے گی۔ اس طرح جی ڈی اے کے صرف 3ایم پی اے بننے سے پی ٹی آئی کی نمبر گیم پر اثر پڑا ہے، کیونکہ یہ امید کی جا رہی تھی کہ جی ڈی اے، پی ٹی آئی کی حکومت کا بڑا سہارا بنے گی۔ پنجاب میں مسلم لیگ ق کو 4 جنرل نشستوں پر کامیابی ملی ہے، اس لئے ان کے بھی خواتین کی مخصوص نشست کے ساتھ ایم این ایز کی تعداد 5 بنتی ہے، تاہم چوہدری پرویز الٰہی 2 حلقوں سے کامیاب ہوئے ہیں، جنہیں ایک نشست چھوڑنا پڑے گی، جس کے باعث مسلم لیگ ق کے ایم این ایز کی تعداد 4ہوجائے گی، اگر چوہدری پرویز الہی پنجاب حکومت میں جاتے ہیں تو انہیں قومی اسمبلی کی دونوں نشستیں خالی کرنا پڑیں گی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ ق بھی پنجاب کے حوالے سے نمبر گیم میں شامل ہے اور پنجاب میں چوہدری پرویز الہی بھی آزاد امیدواروں سے رابطے کر رہے ہیں، جن سے تحریک انصاف کے بعض رہنما خوش نہیں ہیں، کیوں کہ اس سے مسلم لیگ کی جانب سے پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا مطالبہ بھی سامنے آسکتا ہے۔ اسی طرح بلوچستان سے بلوچستان عوامی پارٹی کے 4 جنرل نشستوں پر امیدوار کامیاب ہوئے، جن کی ایک خواتین کی مخصوص نشست کے ساتھ ایم این ایز کی تعداد 5ہوگئی۔ ماضی میں نواز لیگ کی حکومت کا حصہ رہنے والی بلوچستان نیشنل پارٹی کو 3 نشستوں پر کامیابی ملی ہے، ان کے ایک خواتین کی مخصوص نشست کے ساتھ 4 ایم این ایز ہیں۔ بلوچستان سے جمہوری وطن پارٹی کا بھی ایک ایم این اے منتخب ہوا ہے۔ اس طرح مذکورہ 6 جماعتوں کے مجموعی طور پر 24 ایم این ایز کو ملا کر بھی عمران خان کی مخلوط حکومت کے اراکین کی تعداد 164 نہیں بنتی۔ پنجاب سے آزاد حیثیت میں منتخب ہونے والے فخر امام پی ٹی آئی میں شمولیت کا اعلان کر چکے ہیں، جبکہ باقی 12آزاد امیدواروں کی اہمیت بڑھ گئی ہے، جن میں 6پنجاب سے فاٹا اور سندھ سے 2 ، 2 اور کے پی کے اور بلوچستان سے منتخب ہونے والے ایک، ایک ایم این ایز شامل ہیں۔دوسری جانب مولانا فضل الرحمان نے تجویز کیا ہے کہ اگر پیپلز پارٹی ایم کیو ایم کو سندھ کی وزارتوں میں حصہ دے دے اور اس کے مئیر کراچی کو اختیارات دے دیئے جائیں تو وہ ایم کیو ایم کو منا لیں گے اور مرکز میں پیپلز پارٹی، ن لیگ او ر ایم ایم اے کے سا تھ مل کر حکومت بنا نے کی مضبوط کوشش کر سکتی ہے ۔جب کہ انہیں بی این پی مینگل کی 3 نشستیں بھی مل سکتی ہیں ۔اس کے علاوہ ڈیرہ غازی خان سے پی ٹی آئی کے ذوالفقار کھوسہ سے جیتنے والے امجد خان کھوسہ کے مجوزہ اتحاد میں شمولیت کا قومی امکان ہے جبکہ دیگر آزاد امیدواروں سے بھی بات کی جاسکتی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ آج پیپلز پارٹی کے رہنما خورشید شاہ کی مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف سے ہونے والی ملاقات بڑی اہمیت رکھتی ہے۔ بظاہر تو یہ ملاقات پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی جانب سے انتخابات میں دھاندلی کی شکایات کے حوالے سے دیگر جماعتوں سے رابطے کرنے کے لئے جو کمیٹی تشکیل دی ہے، اس سلسلے میں ہے۔ تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ مذکورہ ملاقات دھاندلی کی شکایات کے ساتھ وفاق میں حکومت بنانے کی پی ٹی آئی کی جو نمبر گیم پوری نہیں ہو رہی ہے۔ اس سلسلے میں بھی ہے، کیونکہ نواز لیگ یہ اعلان کر چکی ہے کہ وہ وفاق میں اپوزیشن میں بیٹھے گی، لیکن پنجاب اسمبلی میں سب زیادہ نشستیں جیتنے کے باوجود حکومت بنانے میں دشواری کا سامنا ہے۔ اس سے صورتحال تبدیل ہوسکتی ہے۔ پی ٹی آئی اعلان کر چکی ہے کہ پنجاب بھی وہ حکومت بنائیں گے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ نمبر گیم کے حوالے سے آئندہ ہفتہ انتہائی اہم ہے، کیونکہ چاروں صوبوں کے مختلف حلقوں میں ووٹوں کی دوبارہ گنتی کی جو درخواستیں آرہی ہیں، اس نے پی ٹی آئی کو اور پریشان کر دیا ہے۔ دوبارہ گنتی کی درخواستیں مسترد ہونے پر کئی امیدوار ہائی کورٹ سے رجوع کر کے متعلقہ حلقوں میں انتخابات کے نتائج رکوانے کے لئے حکم امتناعی حاصل کرنے کے لئے سرگرم ہیں۔ اس ضمن میں متعلقہ عدالتوں کو قانون کے مطابق فیصلہ کرنا ہے، تاہم اس سے بھی معاملہ سنگین ہوسکتا ہے۔ اس لئے عمران خان کے لئے نمبر گیم پوری کرنے کا معاملہ اہمیت اختیار کر گیا ہے۔ کئی آزاد امیدوار اسی انتظار میں ہیں کہ الیکشن کمیشن سے ان کی کامیابی کا نوٹیفکیشن جاری ہو جائے اور اس کے بعد انہیں کسی بھی پارٹی میں شمولیت کرنے کے لئے جو مہلت دی جاتی ہے، اس دوران وہ حتمی فیصلہ کریں گے۔ مذکورہ ذرائع کا کہنا ہے کہ عدالت سے رجوع کرنے والے امیدواروں کا معاملہ بڑی اہمیت اختیار کر گیا، اس حوالے سے آئندہ ہفتہ اہم ہے، جس میں بعد کی صورتحال واضح ہونا شروع ہوگی۔ اس صورتحال میں کوئی صادق سنجرانی فارمولا لے جانے کا امکان بھی یکسر مسترد نہیں کیاجاسکتا ہے۔ دریں اثنا پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے سیاسی جماعتوں سے رابطوں کیلئے کمیٹی تشکیل دیدی۔ ترجمان بلاول ہاؤس کے مطابق کمیٹی میں سید یوسف رضاگیلانی، سید خورشید شاہ، شیری رحمان ،فرحت اللہ بابر ،راجہ پرویز اشرف، سید نوید قمر اور قمر زمان کائرہ شامل ہیں ۔کمیٹی عام انتخابات میں تحفظات کے حوالے سے بات چیت کرے گی اور دوسری سیاسی جماعتوں سے مل کر آئندہ کا لائحہ عمل طے کرے گی۔ ترجمان کا یہ بھی کہنا تھا کہ بلاول بھٹو زرداری اور آصف زرداری نے وفاق میں نواز لیگ ، مجلس عمل اور دیگر جماعتوں کے ساتھ مل کر حکومت بنانے کی تجویز مسترد کردی ہے۔ یہ تجویز ن لیگ اور پی پی پی کے قریبی سیاسی رہنما نے دی تھی۔پیپلز پارٹی کی قیادت کا مؤقف ہے کہ انتخابات میں بدترین دھاندلی ہوئی لیکن ہم اس کے بدلے میں غلط روایت نہیں ڈالیں گے۔

Comments (0)
Add Comment