آبائی حلقے کو نظر انداز کرنا گیلانی کی شکست کا بڑا سبب

ملتان( احمد خلیل جازم)سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی حلقہ این اے 158ملتان 5سےتحریک انصاف سے ہارے ،سید یوسف رضا گیلانی کا یہ آبائی حلقہ گردانا جاتا ہے اور خاص طور پر شجاع آباد یوسی جو کہ بہت بڑا حلقہ ہے اس میں ان کا وہ علاقہ حاصل پور بھی شامل ہے جہاں وہ پیدا ہوئے۔اسی حلقے سے گذشتہ انتخابات میں سید یوسف رضا گیلانی کے چھوٹے بھائی مجتبیٰ گیلانی نے الیکشن لڑا تھا لیکن وہ تیسرے نمبر پر رہے تھے۔حالیہ انتخابات میں گیلانی پی ٹی آئی کے امیدوار محمد ابراھیم خان سے8861ووٹوں سے ہار گئے۔ امت سروے میں یہ بات سامنے آئی کہ یہ وہ حلقہ ہے جہاں گزشتہ دس برسوں سے پیپلز پارٹی نے بالکل توجہ نہیں دی، اسی لیے گذشتہ انتخابات میں ن لیگی امیدوار جاوید شاہ یہاں جیت گئے تھے ، جبکہ ابراھیم خان رنر اپ رہے ۔ اس مرتبہ یہاں سے نواب لیاقت پیپلز پارٹی کے ٹکٹ کے لیے تگ ودو کرتے رہے لیکن انہیں ٹکٹ نہ مل سکا ۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ یہی وجہ تھی کہ یہاں سے پیپلز پارٹی نہ صرف یہ سیٹ ہار گئی بلکہ دیگر قومی اسمبلی کی دو نشستیں جن پر یوسف رضا گیلانی کے بیٹے الیکشن میں حصہ لے رہے تھے وہ بھی ہارگئے۔ نواب لیاقت کی کی کہانی بیان کرنے سے قبل یہ بتانا ضروری ہے کہ اس حلقے میں شجاع آباد شہر، رسول پور، حامد پور، شاہ پور راجہ رام، کوٹلی نجابت شامل ہیں۔ اور ان تمام علاقوں میں مہاجر ووٹ بہت زیادہ ہے۔ یہ ووٹرز ہمیشہ اپنا ایک نمائندہ طے کرلیتے ہیں جو ووٹ کے حوالے سے یہ طے کرتا ہے کہ کسے کاسٹ کرنا ہے ۔ نواب لیاقت کی کہانی یہ ہے کہ وہ گزشتہ کئی برسوں سے مہاجروں کا نمائندہ کہلاتا ہے ۔ چنانچہ اس مرتبہ نواب لیاقت خود اس حلقے سے الیکشن میں حصہ لینا چاہتا تھا لیکن وہ ٹکٹ حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہوا۔یوسف رضا گیلانی نے نواب لیاقت کو یہ آفر بھی کی کہ وہ اسی حلقے میں پنجاب اسمبلی کی سیٹ پر پیپلز پارٹی کا ٹکٹ لے کر الیکشن میں حصہ لے سکتا ہے لیکن نواب لیاقت اس پر قائل نہ ہوا، اور اس نے الیکشن لڑنے سے انکار کردیا، یوں نواب لیاقت الیکشن سے ہی آؤٹ ہوگیا، اس صورتحال میں مہاجر ووٹ تقسیم ہوگیا۔شجاع آباد کے مہاجروں میں اسی فیصد لوگ کاروباری ہیں، انہیں وہاں زمینیں آلاٹ ہوئی ہیں۔ لہٰذا اس تقسیم کے باعث پی پی پی کا آدھا ووٹ نواز لیگ کی جانب شفٹ ہوگیا۔ دوسری اہم وجہ یہ ہے کہ حلقہ این اے 158میں صوبائی اسمبلی کے لیے پیپلز پارٹی کا امیدوار خرم فرید خاکوانی تھا مقامی لوگ اسے بھی یوسف رضا گیلانی کی شکست کی وجہ کہہ رہے ہیں۔کہا جارہا ہے کہ خرم کے پاس پیسہ تو ہے، لیکن سب کچھ پیسہ نہیں ہوتا، وہ بڑا زمیندار ہے ۔ لیکن اس کی جڑیں عوام تک نہ پھیل سکی، یوں وہ کمزور امیدوار ثابت ہوا، اور بھرپور کمپین نہ چلائی جاسکی۔ اس کے علاوہ اس حلقے سے پیپلز پارٹی کا دوسرا صوبائی امیدوار مڑل برادری سے کامران عبداللہ مڑل تھا جو بہتر امیدوار تھا۔اس کے لیے بلاول نے خاص طورپر یہاں جلسہ بھی کیا تھا، لیکن جب مہاجروں نے دیکھا کہ ان کا کوئی امیدوار نہیں ہے تو سب نے اپنی مرضی کی۔ اس حلقے کے لوگوں کا مزید کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کے امیدوار محمد ابراھیم خان کا یہاں سے یوسف رضا گیلانی سے جیت جانا حیرت انگیز ہے۔ کیوں کہ اگر گیلانی نہ جیت سکا تو لامحالہ جاوید علی شاہ مضبوط امیدار تھا، اکثر مہاجرجو کہ تاجر ہیں وہ ن لیگ کے سپورٹر ہیں۔کیوں کہ مخدوم رشید میونسپل کمیٹی بھی نئی حلقہ بندیوں کے بعد اس حلقے میں شامل ہوچکی ہے۔مخدوم رشید میونسپل کمیٹی کی قریباً آٹھ ایسی یونین کونسلز ہیں، جہاں جاوید ہاشمی نے بھرپور کام کیا تھا، اس پر طرح یہ کہ مخدوم رشید جاوید ہاشمی کا اپنا آبائی علاقہ بھی ہے۔چنانچہ وہاں کی میونسپل کمیٹی پر ان کا اثرورسوخ زیادہ ہے۔جاوید علی شاہ کو یہ حمایت بھی حاصل رہی اسی لیے انہوں نے 732018ووٹ حاصل کرکے تیسری پوزیشن لی۔اس کے علاوہ اس حلقے میں یوسف رضا گیلانی نے اپنے آبائی حلقے پر بالکل توجہ نہیں دی۔ اکثر یہ ہوتا ہے کہ جو آبائی حلقہ ہوتا ہے وہاں کام زیادہ کرایا جاتا ہے لیکن یوسف رضا نے بالکل کام نہیں کرایانہ ہی لوگوں سے تعلق برقرار رکھا۔یوسف رضا گیلانی کو ایک فائدہ تھا کہ ان کے مریدین کا حلقہ خاصا وسیع تھا، یہی وجہ ہے کہ یوسف رضا گیلانی بہت کم مارجن سے ہارے۔یہ وہی مارجن ہے جو مہاجر ووٹ کا ہے ۔اگر نواب لیاقت کو یہاں سے پیپلز پارٹی ٹکٹ دیتی اور گیلانی ان کی سپورٹ کرتے تو پھر پی پی پی کو یہاں سے ہرانا بہت مشکل تھا۔اگرچہ نواب لیاقت نے پی پی پی اور یوسف رضا گیلانی کو سپورٹ کیا تھا لیکن برادری نے وہ رسپانس نہیں دیا، جو نواب لیاقت کے امیدوار ہونے کی صورت میں دیا جانا چاہیے تھا۔ دوسری جانب یوسف رضا گیلانی کا کہنا ہے کہ میں ہارا نہیں ہوں بلکہ مجھے ہرایا گیا ہے، جس دن الیکشن ہوا مجھے سکیورٹی اداروں نے پولنگ اسٹیشن کا دورہ کرنے سے منع کردیا اور وجہ یہ بتائی کہ آپ کی زندگی کو خطرہ ہے اس لیے آپ گھر سے باہر نہیں نکلیں گے۔ لامحالہ جب ایک امیدوار پولنگ اسٹیشن کا دورہ کرتا ہے تو حالات مختلف ہوتے ہیں۔یوسف رضا گیلانی نے ری کاونٹنگ کی درخواست بھی دی لیکن اسے مسترد کردیاگیا۔ یوسف رضا گیلانی کا مزیدکہنا تھا کہ ہمیں پولنگ اسٹیشن سے مصدقہ رزلٹ یعنی فارم 45نہیں دیا گیا ، اور ہمارے پولنگ ایجنٹوں کے سامنے گنتی نہیں کی گئی۔آر او نے ری کاؤنٹنگ کی اجازت کیوں نہیں دی یہ سمجھ سے بالاتر ہے۔

Comments (0)
Add Comment