غیرمعیاری واٹر کمپنیوں کولائسنس اجرا پرکوالٹی کنٹرول اتھارٹی کی طلبی

کراچی (اسٹاف رپورٹر ) چیئرمین واٹر کمیشن جسٹس(ر)امیر ہانی مسلم نےغیر معیاری واٹر کمپنیوں کو لائسنس اجرا پر ڈائریکٹر جنرل کوالٹی کنٹرول اتھارٹی کو 2اگست کو طلب کرلیا ہے کہ بتایا جائے کہ لوکل کمپنیوں کو معیارپر پورا اترے بغیر پانی فروخت کی اجازت کس طرح دی گئی جنوبی اورشرقی اضلاع میں کچرا اٹھانے والے ٹھیکیداروں کو نوٹس جاری کرتے ہوئے کل (بدھ) طلب کرلیاجبکہ ایم ڈی واٹر بورڈ اور کنٹونمنٹ حکام کوہدایت کہ واجبات سے متعلق تنازعہ مل بیٹھ کر طے کریں اس دوران واٹر بورڈ پانی کیلئے کوئی قدم نہ اٹھائے۔ جبکہ ڈپٹی کمشنر شہید بے نظیر آباد اسپتال کو تمام وارڈز سے پانی کے نمونے لے کر کل تک رجسٹرار کو بھیجنے کا حکم دیدیا۔پیر کو ہائی کورٹ میں واٹر کمیشن نے سندھ بھر میں فراہمی و نکاسی آب کے حوالے سے سماعت کی۔ سیکریٹری صحت، ایم ڈی واٹر بورڈ سمیت دیگر حکام پیش ہوئے۔ کمیشن نے دوران سماعت پیپلز میڈیکل کالج واسپتال شہید بینظیر آبادکے ایم ایس مظفر علی چانڈیو سے استفسار کیاکہ کتنے پیسے ملے تھے اور کہاں کہاں خرچ کیے۔ جس پرانہوں نے بتایا کہ 30 کروڑ روپے کا سامان باہر سے منگوایا گیا۔ اس موقع پر کمیشن نے ریماکس دیئے دو یوم میں 86 کروڑ خرچ کیے اورجن کے کاغذات لے کر آئے ہو ۔ آپ کو پتہ ہے نواب شاہ اسپتال میں پینے کا پانی ناقابل استعمال ہے ۔ کمیشن نے اظہار برہمی کرتے ہوئے ریماکس دیئے آپ کو خدا کا خوف نہیں ہے۔ مشینری باہر سے منگوا رہے ہیں پینے کا پانی نہیں ہے۔ ڈاکٹر مرتضی نے کہا کہ فلٹرز لگے ہوئے ہیں مگر ٹائم پر تبدیل نہیں کئے جاتے اور 90 فیصد نمونے خراب آئے ہیں۔ کمیشن نے استفسار کیا کہ آپ یہ مشینری کس کے لئے منگوا رہے ہیں۔ ایم ایس نے بتایا کہ مریضوں کے لئے مشینری منگوائی ہے۔ کمیشن نے ریمارکس دیئےکہ مریض گندا پانی پی کر مر جائیں۔ پیسے واپس کرو یا پھر توہین عدالت کی کاروائی کا سامنا کرو۔ سماعت کے موقع پر ایم ایس پیپلز میڈیکل کالج اسپتال شہید بے نظیر آباد جاری کردہ فنڈز میں بے قاعدگیوں کے حوالے سے تفصیلات پیش نہیں کرسکے۔ کمیشن نے استفسار کیا کہ کیا ہم تمام سیکریٹریوں کے خلاف نیب کو کارروائی کا حکم دے دیں؟ ۔ جسٹس (ر) امیر ہانی مسلم نے ریمارکس دیئے اسپتالوں میں پینے کا پانی نہیں ہے، اسپتالوں کی صورتحال انتہائی خراب ہے۔ اس کے پیچھےجو لوگ ہیں ان کو بھی جانتے ہیں۔ کمیشن نے ریمارکس میں کہا کہ اسپتالوں میں پانی جیسے سہولیات نہیں، ہیپاٹائٹس جیسی بیماریاں پھیل رہی ہیں اور بیرون ملک سے سامان منگوایا جارہا ہے۔ کمیشن کو ڈاکٹر غلام مرتضیٰ نے بتایا اسپتال کا پانی پی سی ایس آئی آر کے بجائے اپنی لیبارٹری سے ٹیسٹ کرایا گیا۔ سماعت کے موقع پر ایم ایس پیپلز میڈیکل کالج واسپتال شہید بے نظیر آباد نے کہا کہ اب پانی کا ٹیسٹ مستند ادارے سے کرایا جائے گا۔ کمیشن نے کہا کہ اب آپ وہاں ہونگے تو چیک کروائینگےایم ایس پیپلز میڈیکل کالج واسپتال نے بتایاکہ سال بھر میں 2 کروڑ روپے کا پانی خریدا گیا ہے۔ واٹر کمیشن کے روبرو پینے کے پانی سے متعلق ڈاکٹر غلام مرتضی کی رپورٹ پیش کی۔ کمیشن نے ریمارکس دیئے اسپتال میں لگے 2 فلٹر پلانٹ کا پانی مریض پی رہےہیں وہ پینے کے لائق نہیں ہے ۔ ایم ایس کا کہنا ہے کہ یہ بات اس کے علم میں نہیں ہے۔ ایم ایس کو اس حوالے سے کچھ نہیں پتہ ہے۔ ایم ایس نے بتایا کہ منرل واٹر کے 28 ڈسپنسر وارڈز میں لگے ہوئے ہیں۔ جس پر ڈاکٹر مرتضی نے بتایا کہ اسپتال میں پرائیویٹ کمپنی کا پانی بھی پینے کے قابل نہیں ہے۔ سیکریٹری صحت نے بتایا بد قسمتی سے پینے کے پانی کا بجٹ 2 کروڑ 65 لاکھ روپے تھا۔ کمیشن نے کہا کہ پانی کے معاملے پر کیوں سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا گیا۔ ڈھائی کروڑ روپے بچا لئے یہ صاف پانی پر لگاتے تو لوگ گندہ پانی پینے سے نہ مرتے۔ سیکریٹری خزانہ نور عالم کمیشن میں پیش ہوئے۔ ۔ کمیشن نےکہا کہ اسپتال میں جو کمپنی پانی فراہم کررہی ہے وہ کوالٹی کنٹرول اتھارٹی سے رجسٹرڈ نہیں ہے۔ پیپلز میڈیکل کالج کے کلرک سلیم نے کمیشن کو بتایا کہ آب حیات کمپنی سے پانی لے رہے ہیں۔کمیشن نےغیر معیاری واٹر کمپنیوں کو لائسنس اجراپر وضاحت کیلئے ڈی جی پی ایس کیو سی اےکو 2 اگست کو پیش ہونے کا حکم دیا۔ ایڈیشنل سیکریٹری فنانس آصف جہانگیر نے جواب کے لیے مہلت طلب کرلی۔ کمیشن نے استفسار کیا کہ کتنی مہلت چاہئے۔کمیشن نے مہلت کی درخواست منظور کرتے ہوئے سماعت 7 اگست تک ملتوی کردی۔ کمیشن کے روبرو فیصل کنٹونمنٹ بورڈ کے حکام پیش ہوئے۔ انہوں نے کمیشن کو بتایا کہ واٹر بورڈ انتظامیہ کی جانب سے پانی کی فراہمی بند ہونے کا خدشہ ہے۔ 60 ارب کےواجبات کی ادائیگی کہا جا رہا ہے اگر ادا نہیں کیا تو پانی کی فراہمی بند کردی جائے گی۔ ہم ہر ماہ بل ادا کرتے ہیں اور کوئی واجبات نہیں ہیں۔ ایم ڈی واٹر بورڈ نے بتایا کہ اگر واجبات نہیں ہیں تو پانی کی فراہمی بند نہیں کی جائے گی۔ ۔

Comments (0)
Add Comment