کراچی (رپورٹ: ارشاد کھوکھر) عام انتخابات کے بعد کل کی حریف جماعتیں حلیف بننے سے چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کیلئے خطرے کی گھنٹی بن گئی ۔ نئی صف بندی پر پیپلز پارٹی کے نواز لیگ کیساتھ کھڑے ہو جانے کے باعث سینیٹ میں پی ٹی آئی کی نئی بننے والی حکومت کیخلاف اراکین کی تعداد 66 ہو گئی ہے ،جبکہ آزاد اراکین سمیت پی ٹی آئی کیساتھ اتحاد میں جانے والی جماعتوں کے سینیٹ اراکین کی تعداد 37 ہے، جس کی وجہ سے پی ٹی آئی حکومت کو قانون سازی میں سخت مشکلات کا سامنا ہوگا۔ اس تمام صورت حال میں پیپلز پارٹی کا کردار اہم ہوگا کہ ایسی کسی سرگرمی کا وہ حصہ بنتی ہے یا نہیں۔ تفصیلات کے مطابق 25 جولائی کے عام انتخابات کے بعد اس وقت پیپلز پارٹی، نواز لیگ، جماعت اسلامی، جے یو آئی(ف)، پشتون خواہ ملی عوامی پارٹی، نیشنل پارٹی اور اے این پی بظاہر اس وقت ایک پیچ پر نظر آ رہی ہیں۔ نواز لیگ کے سینیٹر اسحاق ڈار کی رکنیت معطل ہے ،جبکہ سینیٹ کے باقی 103 اراکین میں سے مندرجہ بالا جماعتوں کے سینیٹرز کی تعداد 66 ہے۔ جن میں سے مارچ 2018میں نواز لیگ کے آزاد حیثیت میں منتخب ہونے والے 14اور 2015میں پارٹی ٹکٹ پر منتخب 17سینیٹرز کیساتھ نواز لیگ کے سینیٹرز کی تعداد 31ہے۔ پیپلز پارٹی کے 20، نیشنل پارٹی کے 5، جے یو آئی (ف) کے سینیٹرز کی تعداد 4 ہے ،جبکہ پختون خواہ ملی عوامی پارٹی کے 3سینیٹرز ہیں۔ جبکہ 18 آزاد سمیت ممکنہ طور پر پی ٹی آئی کیساتھ جانے والی جماعتوں کے سینیٹرز کی تعداد تقریباً 37بنتی ہے، جن میں پی ٹی آئی کے اپنے 12سینیٹرز ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اس وقت تمام جماعتوں کی توجہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں بننے پر مرکوز ہے، جہاں حکومتیں بننے کے بعد چیئرمین سینیٹ کا معاملہ آسکتا ہے۔ جس میں سب سے اہم کردار پی پی کا ہوگا ،کیونکہ بلوچستان میں نواز لیگ کے سردار ثنا اللہ زہری کی حکومت کے خاتمے کے بعد عبدالقدوس بزنجو کے وزیر اعلیٰ بلوچستان بننے کے بعد سینیٹ انتخابات ہوئے تھے، جس میں بلوچستان میں پی پی کی اعلیٰ قیادت نے بھی کردار ادا کیا تھا۔ خصوصاً چیئرمین سینیٹ کے انتخابات میں نواز لیگ کے امیدوار کو ہرانے اور صادق سنجرانی کو کامیاب کرانے میں آصف زرداری نے اہم کردار ادا کیا تھا۔ تاہم آصف زرداری کی خواہش تھی کہ سلیم مانڈوی والا ڈپٹی چیئرمین کے بجائے چیئرمین بنے ،لیکن یہ نہیں ہوسکا تھا۔ اس ضمن میں رابطہ کرنے پر سندھ کے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل بیرسٹر غلام مصطفی مہیسر نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ آئینی طور پر وزیر اعظم، اسپیکر قومی اسمبلی اور چیئرمین سینیٹ کے انتخاب اور انہیں بنانے کا ایک جیسا ہی طریقہ ہے۔ چیئرمین سینیٹ کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے 50فیصد سے کم سینیٹرز کی حمایت حاصل ہونے کی صورت میں ہٹایا جاسکتا ہے اور اس کے بعد نئے چیئرمین سینیٹ کا انتخاب ہوسکتا ہے، جبکہ اس ضمن میں دیگر ذرائع کا کہنا ہے کہ چیئرمین سینیٹ کے حوالے سے اس وقت جو سیاسی جماعتوں کی نئی صف بندی ہے۔ اس میں صورتحال واضح ہے ،تاہم وفاقی حکومت کیلئے پی ٹی آئی کا نمبرز گیم ابھی مکمل نہیں ہوا ہے اور اب یہ دیکھنا ہے کہ اس میں پیپلز پارٹی کا کیا کردار اور حکمت عملی ہوتی ہے۔