کراچی (رپورٹ ارشاد کھوکر) عمران خان کی وزارت عظمی کے ساتھ مضبوط حکومت بنانے کیلئے عددی اکثریت پوری نہ ہونے کے باعث مقتدر حلقوں نے پی ٹی آئی کی قیادت کو پیپلز پارٹی کو ساتھ لیکر چلنے کا مشورہ دے دیا۔ دونوں جماعتوں کے درمیان بیک ڈور رابطوں میں پی پی قیادت نے آئندہ ملکی صدارت، پنجاب اور کے پی کے حکومت سے حصہ مانگ لیا، جب کہ سندھ میں پی ٹی آئی کو حصہ دینے پر رضامندی کا اظہار کیا ہے۔ اس حوالے سے مثبت پیشرفت کے بعد دونوں جماعتوں کے رہنماؤں کے درمیان باضابطہ ملاقات متوقع ہے۔ باخبر ذرائع کے مطابق آزاد ارکان، مسلم لیگ ق ، متحدہ اور بلوچستان عوامی پارٹی کو ملاکر بھی وفاق میں مضبوط حکومت بنانے کیلئے مطلوبہ عددی اکثریت حاصل نہیں ہو پارہی۔ دوسری جانب الیکشن کمیشن کی جانب سے مختلف حلقوں میں ووٹوں کی دوبارہ گنتی سمیت ہارے ہوئے امیدواروں کی جانب سے عدالتوں سے رجوع کرنے کے پس منظر میں تحریک انصاف کیلئے نمبر گیم کا معاملہ مزید الجھ سکتا ہے۔ پیپلز پارٹی کی وفاق میں شمولیت سے تحریک انصاف کی حکومت نہ صرف مضبوط ہوگی بلکہ اسے قومی اسمبلی میں تقریباً دو تہائی اکثریت بھی مل جانے کا امکان ہے۔ جس سے عمران کیلئے اپنے وعدوں کی تکمیل اور مطلوبہ قانون سازی کرنا آسان ہو جائے گا۔ واضح رہے کہ قومی اسمبلی میں دو تہائی اکثریت کیلئے 229 ارکان کی حمایت درکار ہوتی ہے۔جہانگیر ترین کے طیارہ اڑانوں اور دیگر رہنماؤں کے رابطوں کے باوجود پی ٹی آئی کو بمشکل 172 کی سادہ اکثریت مل پائے گی۔جن میں پی ٹی آئی کی اپنی 140 نشستیں (مخصوص نشستیں ملا کر کل 146 بن رہی ہیں جن میں سے عمران کی 4 نشستوں سمیت 6 خالی ہو جائیں گی)۔متحدہ کی 7،بلوچستان عوامی پارٹی 5 ، ق لیگ 3 (کل 5 نشستوں میں سے پرویز الہی کی دونوں نشستیں خالی ہو جائیں گی) ، جی ڈی اے 3، جمہوری وطن پارٹی 1 سب ملا کر کل 159 نشستیں بنتی ہیں اس طرح تمام 12 آزاد ارکان ملاکر بھی تعداد 171 تک محدود رہے گی، جس کے نتیجے میں عمران وزیراعظم تو بن جائیں گے لیکن اعتماد کا ووٹ لینے میں بھی مشکلات آئیں گی۔ مقتدر حلقے سمجھتے ہیں کہ وفاق میں حکومت قائم کرنے کیلئے صرف 172 ووٹوں عددی اکثریت حاصل کر کے وزیر اعظم منتخب کرنا کافی نہیں ہوتا بلکہ اسمبلی میں قانون سازی وغیرہ کرنے اور اسمبلی کی کارروائی کو حکومتی ایجنڈا کے تحت چلانے کیلئے زیادہ اکثریت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ تین بڑی جماعتوں نواز لیگ، پیپلزپارٹی اور ایم ایم اے کے ساتھ دو تین چھوٹی جماعتوں پر مشتمل جو مضبوط اپوزیشن بننے جا رہی ہے اس کو توڑنا بھی ضروری ہے بصورت دیگر تحریک انصاف کی کمزور مخلوط حکومت کا چلنا مشکل ہوسکتا ہے اور اس صورتحال میں اپوزیشن کی رضامندی کے کوئی بھی قانونی بل وغیرہ کی سینیٹ سے منظوری بھی محال ہو جائے گی۔ انہی خدشات کو مد نظر رکھ کر مقتدر حلقوں نے پی ٹی آئی کی اعلیٰ قیادت کو مشورہ دیا ہے کہ مضبوط حکومت بنانے کیلئے پیپلزپارٹی کی جانب ہاتھ بڑھایا جائے۔جوڑ توڑ اور احتجاجی سیاست کی ماہر جماعت ساتھ ملانے سے نہ صرف یہ کہ اپوزیشن کمزور ہوگی بلکہ عمران خان کی حکومت کے لیے سینیٹ کا معاملہ بھی حل ہو جائے گا۔ مذکورہ ذرائع کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف کی ناتجربہ کار رہنماوٴں نے عجلت میں پیپلزپارٹی کے ساتھ حکومت سازی کیلئے کسی بھی قسم کی بات چیت نہ کرنے کا جو اعلان کیا تھا۔ اس صورتحال میں پی ٹی آئی کی قیادت اس پر نظر ثانی کر رہی ہے اور اس ضمن میں دونوں جماعتوں کے درمیان بیک ڈور رابطے شروع ہوگئے ہیں۔ جن میں مختلف رہنما اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ بالخصوص وسطی پنجاب سے تعلق رکھنے والے سابق وفاقی وزیر جو خود الیکشن ہار گئے ہیں۔ پی ٹی آئی کی اعلیٰ قیادت سے رابطے میں ہیں۔ جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے پی ٹی آئی کے سینئر رہنما کی جانب سے بھی جو پہلے پیپلزپارٹی میں رہ چکے ہیں سندھ سے تعلق رکھنے والے سینئر رہنما سے بیک ڈور رابطہ کیا گیا ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ پیپلزپارٹی کے اعلیٰ قیادت اس قسم کے رابطوں میں فی الحال خود براہ راست شامل نہیں ہے۔ تاہم بیک ڈور رابطوں میں شامل پارٹی رہنماوٴں کی جانب سے دی گئی رپورٹس کی بنیاد پر پی پی قیادت نے طے کیا ہے کہ حمایت کے عوض صرف وفاقی وزارتوں پر اکتفا نہیں کیا جائے گا بلکہ یہ مطالبہ بھی کیا جائے گا کہ ستمبر میں نئے صدر مملکت کا جو انتخاب ہونے جا رہا ہے اس میں ملکی صدارت پیپلزپارٹی کو دی جائے نیز پنجاب اور کے پی کے کی صوبائی حکومتوں میں بھی پی پی کو حصہ دیا جائے، جس کے بدلے میں پیپلزپارٹی سندھ حکومت میں پی ٹی آئی کو حصہ دے گی۔ ذرائع نے یہ بھی بتایا کہ پیپلزپارٹی کیلئے زیادہ اہمیت کی بات یہ بھی ہے کہ انہیں پنجاب حکومت میں بھی حصہ ملے تاکہ پیپلزپارٹی کو پنجاب اپنی سیاسی سرگرمیاں تیز کرنے اور اپنے پاوٴں مضبوط کرنے کا موقع مل سکے۔ پیپلزپارٹی نے پنجاب اسمبلی کی 6 نشستیں جیتی ہیں ایک دو خواتین کی مخصوص نشستوں کے ساتھ پنجاب اسمبلی میں پیپلزپارٹی کے اراکین کی تعداد 7 سے 8 ہوجائے گی۔ اس طرح کے پی کے میں بھی ایک خواتین کی مخصوص نشست کے ساتھ پی پی کے اراکین کی تعداد 5 ہوگی۔ جس طرح سندھ میں پیپلزپارٹی کو حکومت سازی کیلئے کسی اتحادی کی ضرورت نہیں ہے اس طرح کے پی کے میں بھی تحریک انصاف کو کسی اتحادی کی ضرورت نہیں ہے۔ تاہم پی پی کی قیادت چاہتی ہے کہ تحریک انصاف سے حکومتی شراکت کی صورت میں کے پی کے سے بھی کچھ حاصل کرکے پارٹی کو مضبوط بنایا جائے۔ ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ ملکی صدارت کیلئے سابق صدر مملکت آصف علی زرداری خود امیدوار ہوں گے، جس پر تحریک انصاف کی قیادت کی جانب سے رضامند ہونا انتہائی مشکل ہے تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ اگر حکومتی شراکت بنتی ہے تو پھر صدر مملکت کیلئے گھوم پھر کے سینیٹر رضا ربانی وغیرہ کا نام بھی آسکتا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اس ضمن میں عمران خان کی فیس سیونگ کیلئے بات چیت کے عمل میں بلاول بھٹو کو آگے بڑھایا جاسکتا ہے تاکہ وہ یہ کہہ سکیں کہ انہوں نے بلاول سے ہاتھ ملایا ہے آصف علی زرداری سے نہیں ۔ واضح رہے کہ انتخابی مہم کے دوران تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان یہ اعلان کر چکے ہیں کہ وہ آصف علی زرداری کے ساتھ ملکر کسی بھی صورت میں حکومت نہیں بنائیں گے۔ اگر ایسی صورتحال بنی تو پھر وہ اپوزیشن میں بیٹھنے کو ترجیح دیں گے۔ ذرائع نے بتایا کہ وفاقی حکومت میں شراکت کے معاملے پر پیپلزپارٹی کی جانب سے اسپیکر شپ کا معاملہ بھی سامنے آسکتا ہے۔ جبکہ دیگر ذرائع کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی قیادت خصوصاً عمران خان کے لیے پیپلزپارٹی کے ساتھ ملکر حکومت بنانا ناممکن نظر آرہا ہے تاہم پیپلزپارٹی کے ساتھ ورکنگ ریلیشن شپ بہتر بنانے کا معاملہ آگے بڑھ سکتا ہے۔ مذکورہ ذرائع نے بھی اس بات کی تصدیق کی کہ دونوں جماعتوں کے درمیان بیک ڈور رابطے ضرور ہیں تاہم حکومتی شراکت کا معاملہ مشکل ہے۔ پی پی ذرائع کا کہنا ہے کہ اس سلسلے میں فی الحال کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہوگا کیونکہ پی پی کے سامنے 2008 میں پنجاب میں نواز لیگ کی صوبائی حکومت کا حصہ بننے کا تجربہ ہے اور پی پی قیادت مخمصے میں ہے کہ وفاقی حکومت تشکیل پانے پر خالی ہونے والی نشستوں پر ضمنی انتخابات کے بعد اگر پی ٹی آئی بہتر پوزیشن میں آگئی اور اس نے اتحاد سے ہاتھ کھینچ لیا تو پھر وہ کہاں کھڑی ہوگی۔ اس لئے تمام معاملات پہلے ہی طے کئے جائیں گے تاکہ بعد میں مسائل نہ ہوں۔دریں اثنا پیپلز پارٹی کے چئیرمین بلاول بھٹو زرداری نے پنجاب اور مرکز میں اپوزیشن بنچوں پر بیٹھنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم کسی کی غیر مشروط حمایت نہیں کریں گے ۔ جنوبی پنجاب صوبہ کوئی کٹھ پتلی جماعت نہیں صرف پیپلزپارٹی ہی بنا سکتی ہے۔پنجاب سے منتخب پارٹی ارکان و رہنماؤں سے گفتگو کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ ہماری حمایت اور مخالفت صرف عوامی مسائل کی بنیاد پر ہوگی۔بلاول بھٹو سے ملاقات کرنے والوں میں حسن مرتضیٰ، علی حیدر گیلانی اور دیگر شامل تھے،جنہوں نے پنجاب میں حکومت سازی کے امور پر تبادلہ خیال کیا۔