تہران(امت نیوز)ایران میں معاشی بدحالی کے خلاف کسانوں اور ٹرک ڈرائیوروں کے مظاہروں نے ملک گیر احتجاج کی شکل اختیار کر لی اور اس میں تاجر اور عام شہری بھی شامل ہو گئے ہیں۔ مہنگائی، بے روزگاری اور بجلی و پانی کے بحران کے خلاف تہران اور اصفہان سمیت مختلف شہروں میں ہزاروں افراد سڑکوں اور چوراہوں پر سراپا احتجاج ہیں جبکہ ہڑتالوں کا سلسلہ جاری ہے۔ گزشتہ6 ماہ میں ڈالر کے مقابلے میں ایرانی ریال کی قدر120 فیصد گر چکی ہے اورمنگل کو ایک ڈالر ایک لاکھ 19ہزار ریال تک پہنچ گیا۔ ایران میں سرکاری اہلکاروں کی ماہانہ تنخواہ250ڈالرجبکہ افسر کی تنخواہ450ڈالر کے مساوی بتائی جاتی ہے ۔گزشتہ تین ماہ سے انہیں بھی تنخواہوں کی ادائیگی نہیں ہو سکی جس کے باعث عوامی غم و غصہ بڑھ رہا ہے۔ منگل کو اصفہان کے صنعتی کمپلیکس میں ہزاروں دکانداروں اور اسٹال مالکان نے کاروبار بند کر کے احتجاج کیا اور مہنگائی اور ایران کی دوسرے ملکوں میں مداخلت کے خلاف نعرے لگائے۔دارالحکومت تہران کی ہر بڑی شاہراہ پر بھی ہزاروں شہری سراپا احتجاج ہیں اور حکومت مخالف نعرے لگا رہے ہیں۔گزشتہ روز تہران میں مکمل ہڑتال کی گئی تھی۔اس دوران تمام مرکزی بازار بند رہے اور معمولات زندگی معطل رہے جب کہ مظاہرین کو روکنے کے لیے بڑی تعداد میں پولیس اور فوج کی نفری تعینات کی گئی تھی۔ اس دوران مشتعل مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے سیکورٹی فورسز نے طاقت کا استعمال کیا اور آنسو گیس کی شیلنگ اور ہوائی فائرنگ کی۔ مجاہدین خلق آرگنائزیشن کے پیرس میں ترجمان شاہین گوبادی نے برطانوی میڈیا کو بتایا کہ ایران کی معاشی بدحالی کی وجہ صرف امریکی پابندیاں نہیں بلکہ حکومتی عہدیداروں کی کرپشن اور عوام کا پیسہ خطے مین جنگوں اور بنیاد پرستی پر خرچ کرنا ہے۔ ماہرین کے مطابق اس سال کے آخر تک ایران میں افراط زر کی شرح 20فیصد تک پہنچ جائے گی جس سے صو رتحال مزید بد تر ہو جائے گی۔11جولائی کو ایرانی فورسز نے کسانوں پر پیلٹ گن کا استعمال کیا تھا جس سے درجنوں افراد چھررے لگنے سے زخمی ہو گئے تھے۔ دوسری جانب ایرانی حکومت نے 2009سے گھروں میں نظر بند اصلاح پسند اپوزیشن رہنماؤں 76سالہ میرحسین موسوی اور 80سالہ مہدی کروبی کو رہا کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔