سات سو سے زائد آف شور کمپنی مالکان کی فائلیں کھل گئیں

اسلام آباد (وقائع نگار خصوصی) وزارت خزانہ کے حکام نے ایف بی آر کو حکم دیا ہے کہ پاناما سمیت دیگر ممالک میں رجسٹرڈ کی جانے والی تمام آف شور کمپنیز کے خلاف ٹیکس چھپانے کے الزام میں تحقیقات شروع کردی جائیں۔ اور ان تمام کمپنیز مالکان اور ڈائریکٹرز کی فائلیں کھول دی جائیں۔ جن کے نام پاناما پیپرز اور پیراڈائز لیکس میں سامنے آئے تھے۔ واضح رہے کہ پاناما میں رجسٹر آف شور کمپنیاں بنانے انہیں پوشیدہ رکھنے اور ٹیکس نہ دینے کے الزام میں سابق وزیراعظم نواز شریف کے خلاف مقدمات بنائے گئے تھے۔ انہی مقدمات کے نتیجے میں کرپشن ثابت نہ ہونے کے باوجود انہیں وزارت عظمیٰ سے فارغ کیا گیا۔ اور سزا سنائی گئی۔ایف بی آر حکام کا کہنا ہے کہ مذکورہ بالا افراد کیخلاف تحقیقات ٹیکس ایمنسٹی اسکیم آنے کے بعد عارضی طور پر روکی تھیں اور31 جولائی کو اسکیم خاتمے کے بعد ازسرنو شروع کر دی ہیں۔ اس حوالے سے نوٹیفکیشن بھی جاری کر دیا گیا ہے۔ آف شور کمپنیاں بنانے والے جن پاکستانیوں کے خلاف تحقیقات شروع کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ ان میں تحریک انصاف کے رہنما جہانگیرترین، عبدالعلیم خان اور ان کی اہلیہ کرن عبدالعلیم، سابق رکن پنجاب اسمبلی شعیب صدیقی ، عمران خان کے بیرون ملک بڑے فنانسر سید ذوالفقار عباس عرف زلفی بخاری و دیگر شامل ہیں۔ کراچی میں ایف بی آر کمشنرز نے بتایا کہ آف شور کمپنیوں کی تعداد تقریباً 518 جب کہ ان کے مالکان اور ڈائریکٹرز کی تعداد 700سے زائد ہے، جن کیخلاف فائلیں کھولنے کا عمل شروع کردیا گیا ہے۔ وفاقی ادارے کو برطانیہ سے 500 ایسے پاکستانیوں کے کوائف بھی مل گئے ہیں، جنہوں نے برطانیہ میں اربوں روپے کے اثاثے بنا رکھے ہیں تاہم انہیں پاکستان میں ظاہر نہیں کیا ۔واضح رہے کہ وفاقی حکومت کی جانب سے پاکستانی شہریوں کو اپنے چھپائے گئے اثاثے ظاہر کرنے کے لئے 3 ماہ قبل ایمنسٹی اسکیم دی گئی تھی، جو کہ 31جولائی کو ختم ہوچکی ہے ،ایف بی آر ذرائع کے مطابق ان 3 ماہ کے دوران پاناما سمیت متحدہ عرب امارات اور دیگر ممالک کے علاوہ ملک میں مخفی اثاثے رکھنے والے شہریوں کے خلاف جاری تمام انکوائریاں اور تحقیقات روک دی گئی تھیں تاکہ ان میں سے جو افراد از خود ایمنسٹی اسکیم سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے اثاثے ظاہر کردیں تو ان پر لاگو ٹیکس کی کٹوتی کے بعد انہیں ٹیکس نیٹ میں لایا جاسکے اسی دوران یہ فیصلہ بھی کرلیا گیا تھا کہ ایمنسٹی اسکیم کے دوران جو افراد اپنے اثاثے از خود ظاہر کردیں گے انہیں کچھ نہیں کہا جائے گا تاہم ایمنسٹی اسکیم کے دوران بھی جو افراد اپنے اثاثے ظاہر نہیں کریں گے ان کے خلاف مہلت گزرنے کے بعد سخت کارروائی عمل میں لائی جائے گی ،اب اسکیم ختم ہونے کے بعد وفاقی وزارت خزانہ نے پاناما اسکینڈل میں آف شور کمپنیوں کے مالکان اور دیگر اثاثے چھپانے والے افراد کے خلاف تحقیقات از سر نو شروع کرنے کے احکامات دے دئیے ہیں ،مذکورہ احکامات چیئرمین فیڈرل بورڈ آف ریونیو ( ایف بی آر ) کے تحت ملک بھر کے متعلقہ ایف بی آر کمشنرز کو ارسال کردئیے گئے ہیں تاکہ وہ اپنے دائرہ کار اور حدود میں آنے والے ایسے شہریوں کے خلاف تحقیقات کا آغاز کرسکیں ۔ایف بی آر کے کمشنر سید سیدین نے ’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ پاناما اسکینڈل منظر عام پر آنے کے بعد اس میں شامل ان 600پاکستانی شہریوں کے خلاف ملک بھر میں تحقیقات شروع کردی گئی تھیں، جن کے نام اور کوائف اسکینڈل میں سامنے آئے تھے اور اس حوالے سے ملک بھر کے متعلقہ ایف بی آر کمشنرز کی جانب سے گزشتہ ڈیڑھ برسوں میں متعدد رپورٹیں بھی چیئرمین ایف بی آر آفس کو ارسال کی جاتی رہی ہیں، جنہیں سپریم کورٹ میں بھی پیش کیا گیا ہے تاہم گزشتہ 3 ماہ میں ایمنسٹی اسکیم کے دوران یہ تحقیقات روک دی گئی تھیں ،انہوں نے مزید بتایا کہ تحقیقات کے دوران کئی ایسے افراد تھے جن کے مکمل کوائف اور ان کے اثاثوں کی تفصیلات مل گئی تھیں لیکن کئی ایسے بھی تھے جو کہ مستقل طور پر بیرون ملک مقیم ہیں اور وہیں کے شہری ہیں اس لئے ان کی تفصیلات سامنے نہیں آسکیں، جبکہ کئی ایسے بھی ہیں جنہوں نے ایف بی آر کی جانب سے ارسال کردہ نوٹسز کے جوابات نہیں دئے تھے ،دوسری جانب ایف بی آر ذرائع نے بتایا ہے کہ ایف بی آر کی جانب سے پاناما اسکینڈل کی جانے والی تحقیقات میں رواں برس مارچ تک اچھی خاصی پیش رفت ہوچکی تھی تاہم کئی مشکلات بھی پیش آرہی تھیں کیونکہ تحقیقات میں معلوم ہوا تھا کہ پانامااسکینڈل میں شامل بہت سے افراد برطانیہ ،امریکہ ،متحدہ عرب امارات اور دیگر یورپی ممالک سمیت دنیا کے کئی ممالک میں رہائش پذیر ہیں اور ایف بی آر کے لئے بیک وقت اس اسکینڈل کی تحقیقات کو مکمل کرنے کے لئے تمام ملکوں سے کوائف حاصل کرنا اس وقت ناممکن تھا اسی وجہ سے رواں برس مارچ تک 157افراد ایسے بھی سامنے آئے جن کا ریکارڈ ایف بی آر کو پاکستان میں مل ہی نہیں سکا تھا اور ایف بی آر کی جانب سے ان افراد کی معلومات کی فراہمی کے لئے عوام الناس سے بھی مدد حاصل کرنے کا فیصلہ کیا تھا ،ذرائع کے بقول تحقیقات میں سامنے آنے والی انہیں مشکلات کو حل کرنے کے لئے وفاقی وزارت خزانہ کے تحت عالمی سطح پر دنیا بھر کے 36ممالک پر مشتمل تنظیم کے پلیٹ فارم کے تحت او سی ای ڈی ( آرگنائزیشن فار اکنامک کارپوریشن اینڈ ڈیولپمنٹ )کا معاہدہ کیا تھا، جس کے تحت ان ممالک میں موجود پاکستانیوں اور ان کے اثاثوں کی تفصیلات پاکستانی حکام کو مل سکتی ہیں ،اس ضمن میں ایف بی آر کے ایک اور کمشنر محمد عاصم نے ’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ گزشتہ روز 500ایسے پاکستانیوں کی تفصیلات ایف بی آر افسران کو ملی ہیں، جو کہ پاکستانی حکومت نے برطانوی حکام سے لی ہیں ان افراد کے برطانیہ میں اربوں روپے کے اثاثے ہیں جن کے حوالے سے متعلقہ کمشنرز کو تحقیقات کی ذمے داریاں دی گئی ہیں ،اس ضمن میں ایف بی آر ذرائع کا کہنا ہے کہ پاناما اسکینڈل میں از سر نو تحقیقات کے احکامات جاری کردئے گئے ہیں اور اس بار پاناما اسکینڈل میں ملوث ان شخصیات کے خلاف انتہائی سخت کارروائی کی جائے گی جنہوں نے گزشتہ 3 ماہ کے دوران بھی اپنی آف شور کمپنیاں اور اثاثے ظاہر نہیں کئے ہیں ذرائع کے مطابق 3 ماہ قبل جب ایف بی آر کے قوانین میں ترمیم کر کے اثاثوں سے متعلق ایف بی آر ایکٹ 2018کو شامل کیا گیا اسی وقت فیصلہ کرلیا گیا تھا کہ ہر ملک سے آنے والی فہرست پر علیحدہ علیحدہ تحقیقات شروع کی جائیں گی، جس کا سلسلہ شروع کردیا گیا ہے اور برطانیہ کے ساتھ ہی متحدہ عرب امارات میں پراپرٹی کے بزنس میں سرمایہ کاری کرنے والوں اور وہاں پر اثاثے رکھنے والوں کے خلاف بھی علیحدہ سے تحقیقات کی جا رہی ہیں تاہم ایمنسٹی اسکیم گزرنے کے بعد ایف بی آر کو حکامات دئے گئے ہیں کہ موجودہ صورتحال میں جبکہ ملکی معیشت زبوں حالی کا شکار ہے اور مالی طور پر ملک کو مستحکم کرنے کے لئے اثاثے چھپانے والوں اور آف شور کمپنیاں رکھنے والوں سے مکمل وصولیاں کی جائیں اور انہیں قانون کے کٹہرے میں لایا جائے، جس کے لئے ایف بی آر کے شعبہ ڈائریکٹوریٹ جنرل آف براڈننگ ٹو ٹیکس کو بھی گزشتہ روز اہم احکامات دے گئے ہیں ۔یاد رہے کہ اپریل 2016 میں صحافیوں کے ایک بین الاقوامی اتحاد نے دنیا بھر کے ہزاروں ایسے دولت مند افراد کے نام اور تفصیلات افشا کی تھیں، جنہوں نے بظاہر ٹیکس بچانے کے لیے بیرونِ ملک یہ کمپنیاں قائم کی ہوئی تھیں۔گو کہ ان میں تحریک انصاف کے رہنماؤں سمیت600 سے زائد پاکستانیوں کے نام تھے لیکن حزبِ مخالف نے پاکستان کے اس وقت کے وزیرِ اعظم نواز شریف کے 3 بچوں کے نام آف شور کمپنیوں پر حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا تھا۔ یہ معاملہ عدالت عظمیٰ تک پہنچا تھا جہاں سے نواز شریف کو رواں سال جولائی میں آنے والے فیصلے پر اپنے منصب سے علیحدگی اختیار کرنا پڑی تھی۔بعد ازاں کرپشن سے متعلق جرم ثابت نہ ہونے کے باوجود محض اقامہ رکھنے پر انہیں کل 11 برس قید کی سزا سناتے ہوئے تاحیات نااہل قرار دے دیا گیا۔نومبر 2017 میں پیراڈائز لیکس کے نام سے100 سے زائد مزید پاکستانیوں کے نام سامنے آئے۔ جنہوں نے آف شور کمپنیاں بنائی ہوئی تھیں۔ ن لیگ کے رہنما حنیف عباسی کی درخواست پر سپریم کورٹ نے 15 دسمبر2017 کو تحریک انصاف کے رہنما جہانگیر ترین کو آف شور کمپنی اور اس کے اثاثے چھپانے کا جرم ثابت ہونے پر تاحیات نااہل قرار دے دیا تھا۔اطلاعات کے مطابق ترین نے برطانیہ کی کاؤنٹی ہمپشائر کے علاقے ہیڈوے میں فارم ہاؤس شینی ویو لمیٹڈ نامی آف شور کمپنی کے ذریعے 2005 میں 10 لاکھ 20 ہزار اسٹرلنگ پاؤنڈ (15 کروڑ 71 لاکھ روپے ) میں خریدا۔ پی ٹی آئی کے دوسرے رہنما علیم خان بھی سینٹرل لندن میں 3 جائیدادوں کے مالک ہیں، جس میں ایک پارک ویسٹ میں 5 ویں فلور پر ایک کمرے کا فلیٹ، جو جولائی 2007 میں 3 لاکھ پاؤنڈ (4 کروڑ 62 لاکھ روپے) میں خریدا گیا، بعد ازاں ویسٹ پارک کے دو فلیٹس جون اور اگست 2017 میں تقریباً 5-5 لاکھ پاؤنڈ میں فروخت کیے گئے۔علیم خان برطانیہ میں ماربل اریچ اپارٹمنٹ میں ایک اور فلیٹ کے مالک ہیں، جو انہوں نے آف شور کمپنی کے ذریعے اگست 2002 میں 2 لاکھ 20 ہزار پاؤنڈ (3 کروڑ 38 لاکھ روپے) میں خریدا، جبکہ اسی اپارٹمنٹ میں 2 فلیٹس گزشتہ سال 4 لاکھ 95 ہزار پاؤنڈ (7 کروڑ 62 لاکھ روپے) اور دوسرا فلیٹ 4 لاکھ 15 ہزار پاؤنڈ (6 کروڑ 39 لاکھ روپے) میں فروخت کیے۔علیم خان کی تیسری آف شور پراپرٹی محض 6 ماہ قبل 4 لاکھ 5 ہزار پاؤنڈ (6 کروڑ 23 لاکھ روپے) میں خریدی گئی۔برطانیہ میں پی ٹی ائی کے رہنما اور عمران خان کے بڑے فنانسر سید ذوالفقار عباس بخاری عرف زلفی بخاری نے بہنوں کے اشتراک سے 6 آف شور کمپنیاں بنائی تھیں۔ جن کیخلاف نیب بھی تحقیقات کر رہا ہے۔وہ سینٹرل لندن میں 2 مہنگی ترین آف شور جائیداد کے مالک ہیں، اینیس مور گارڈن میں ان کے فلیٹس کی مالیت کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جاسکتا ہے کہ ایک فلیٹ جولائی 2008 میں 9 لاکھ 49 ہزار 950 پاؤنڈ (14 کروڑ 63 لاکھ 70 ہزار روپے) میں فروخت ہوا۔ تحریک انصاف کے سابق رکن پنجاب اسمبلی شعیب صدیق نے 10لاکھ ملائشین رنگٹ کے سرمایہ سے ہوٹل ، ریسٹورنٹ ، کیفے اور فوڈ جنرل آئٹمز کے بزنس کے لیے رجسٹرڈ اے ایس ایم وینچرز نامی آف شور کمپنی 3جنوری 2011 میں ملائیشیا میں قائم کی تھی ۔ وہ لاہور سے پی ٹی آئی ٹکٹ پر 2018 کے انتخابات میں ہار گئے۔پاناما اسکینڈل کھلنے کے ایک ماہ بعد 13 مئی 2016 کو لندن کے ہیتھرو ائیرپورٹ پر گفتگو کرتے ہوئے پی ٹی ائی کے سربراہ عمران خان نے بھی آف شور کمپنی بنانے کا اعتراف کیا جو بقول انہوں نے 1983 میں لندن فلیٹس خریدنے کیلئے بنائی اور بعد میں ختم کردی تھی۔

Comments (0)
Add Comment