اسلام آباد/ کوئٹہ/ پشاور( نمائندگان امت/مانیٹرنگ ڈیسک)حکومت سازی میں تحریک انصاف کے رہنما باہم حریف بن گئے۔ق لیگ،بلوچستان عوامی پارٹی اور آزاد ارکان کی حمایت کے باوجود معاملات حل نہ ہو سکے۔پسند کے عہدوں کی دوڑ اورمختلف امور پر اختلافات نے عمران خان کی پریشانیوں میں اضافہ کردیا۔خیبرپختون اور پنجاب کے وزرائے اعلیٰ کےناموں کا اعلان نہ ہو سکا۔ وفاقی کابینہ کے لئے فیصلے میں بھی دشواری پیش آ رہی ہے۔جام کمال کی نامزدگی پر پی ٹی آئی بلوچستان کے صدر نے اعلانیہ مخالفت کر دی۔پرویز الٰہی کو اسپیکر بنانے کے فیصلے پر بھی رہنماؤں کے تحفظات ہیں۔خیبر پختون میں وزارت اعلیٰ کیلئے پرویز خٹک کی بھاگ دوڑ جاری ہے۔کراچی سے منتخب تحریک انصاف کے ارکان نےمتحدہ پاکستان سے اتحاد کے مخالف کر دی۔پنجاب میں حکومت بنانے کیلئے ن لیگ کی کوششیں جاری ہیں۔تفصیلات کے مطابق تحریک انصاف حکومت سازی کے حوالے سے بدھ کو بھی کسی حتمی نتیجے پر نہیں پہنچ سکی، تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی زیر صدارت بنی گالا میں اعلیٰ سطح کا مشاورتی اجلاس ہوا، جس میں پنجاب اور خیبرپختون کے وزرائے اعلیٰ کے امیدواروں پر غور کیا گیا۔ اجلاس میں جہانگیر ترین، شاہ محمود قریشی ، چوہدری سرور، شفقت محمود، نعیم الحق اور دیگر رہنما شریک ہوئے۔مشاورتی اجلاس میں پی ٹی آئی رہنماؤں کے درمیان وفاق، پنجاب، خیبر پختون اور بلوچستان میں حکومت سازی کے حوالے سے مشاورت کی گئی، پارٹی کے سینئر رہنما جہانگیر ترین نے پارٹی قیادت کو آزاد امیدواروں کے ساتھ جاری رابطوں میں پیش رفت سے آگاہ کیا تاہم صوبوں کے گورنرز اور وزرائے اعلیٰ کے نام فائنل نہ ہوسکے۔پنجاب کی وزارت اعلی کے لئے تحریک انصاف کے 5امیدوار علیم خان، فواد چوہدری ، یاسمین راشد، محمود الرشید اور میاں اسلم اقبال میدان میں ہیں جب کہ خیبرپختون میں نئے وزیراعلی کے لئے عاطف خان، پرویز خٹک اور اسد قیصر کے نام زیرغور ہیں۔ذرائع نےدعویٰ کیا ہے کہ خیبرپختون کے گورنر کے لئے ارباب شہزاد کا نام فیورٹ ہے جب کہ بلوچستان کے گورنرکے لئے یارمحمدرند کے نام پر غور کیا جارہا ہے ۔ذرائع کے مطابق پارٹی رہنمائوں کے درمیان عہدوں کی دوڑ اور مختلف معاملات پر اختلافات کے باعث حکومت سازی عمران خان کے لئے دردسر بن گئی ہے،خیبرپختون اور پنجاب میں وزرائے اعلیٰ پر سامنے آنے والے اختلافات کو حل کرنے کے لئے مختلف فارمولوں پر بھی غور کیا جارہا ہے ۔ پنجاب کے حوالے سے ایک تجویز یہ ہے کہ ڈھائی ڈھائی سال کے لئے وزرائے اعلیٰ لائے جائیں جس میں ایک ٹرم شاہ محمود قریشی اور دوسری ٹرم جہانگیر ترین گروپ کو دی جائے،ذرائع کے مطابق تحریک انصاف کی وزیراعلیٰ پنجاب کی لسٹ میں یاسر ہمایوں اور میاں اسلم اقبال کے نام شامل ہیں جب کہ نیب نوٹسز کے باعث وزارت اعلیٰ کے مضبوط امیدوار تصور کیے جانے والے علیم خان کے اس منصب پر بیٹھنے کے امکانات کم ہوگئے ہیں۔پنجاب کابینہ کے لیے بھی کئی نام سامنے آئے ہیں جن میں ڈاکٹر یاسمین راشد کو وزیر صحت اور سابق اپوزیشن لیڈر میاں محمود الرشید کو سینئر وزیر بنائے جانے کا امکان ہے۔ذرائع کا کہنا ہےکہ سبطین خان، راجہ بشارت، میاں وارث اور مخدوم ہاشم جواں بخت بھی وزرا کی دوڑ میں شامل ہیں جبکہ چوہدری سرورکی خواہش ہے کہ انھیں گورنر پنجاب مقرر کیا جائے،خیبرپختون کی وزارت اعلیٰ کے حوالے سے ذرائع کا کہنا ہے کہ پرویزخٹک نے آخری وقت تک ہتھیار نہ ڈالنے کا فیصلہ کیا ہوا ہے اور ان کی خواہش ہے کہ یہ عہدہ کسی نہ کسی قیمت پر حاصل کیا جائے،ذرائع کے مطابق اس مسئلہ کا حل نکالنے کے لئے پرویز خٹک گروپ نے یہ تجویز دی ہے کہ قومی اسمبلی میں عددی اکثریت پوری کرنے کے لئے فی الحال پرویز خٹک قومی اسمبلی کی نشست رکھیں گے اور ضمنی الیکشن میں صوبائی نشست پر انتخاب لڑکر صوبے میں اقتدار کی باگ دوڑ سنبھال لیں گے اور اس دوران صوبے میں عبوری وزیراعلیٰ لاکر حکومت چلائی جائے۔ ذرائع کے مطابق عمران خان کی جانب سے اس تجویز کو منظور کئے جانے کا امکان بہت کم ہے کیونکہ شاہ محمود نے وزیراعلیٰ پنجاب کا منصب حاصل کرنے کے لئے ایسی ہی تجویز دی تھی لیکن اس کو پذیرائی نہیں مل سکی لیکن پرویز خٹک کا معاملہ اس حوالے سے مختلف ہے کہ وہ تعارفی اجلاس کے نام پر 45ارکان کی حمایت شوکرچکے ہیں۔ بی این پی رہنما جام کمال کووزیر اعلیٰ بلوچستان نامزد کرنے پر تحریک انصاف بلوچستان کی پارلیمانی پارٹی ناراض ہو گئی۔ذرائع کا کہنا ہے کہ عمران خان نے بلوچستان عوامی پارٹی اور تحریک انصاف بلوچستان کے اجلاس میں معاملہ نمٹایا تھا۔عمران خان نے سردار یار محمد رند اور بی اے پی کے جام کمال کو معاملات مشاورت سے طے کرنے کا اختیار دیا تھا۔تاہم ذرائع کا بتانا ہے کہ جہانگیر ترین نے اپنے طور جام کمال کی وزیراعلیٰ بلوچستان نامزدگی کا اعلان کیا جس پر پی ٹی آئی بلوچستان پارلیمانی پارٹی اس اعلان سے ناراض ہو گئی۔پی ٹی آئی بلوچستان کے صدر یار محمد رند کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں اپنی حکومت بنا سکتے تھے مگر جہانگیر ترین کے اعلان سے بلوچستان عوامی پارٹی کو حکومت بنانے کا موقع مل گیا ہے۔یار محمد رند نے کہا کہ عمران خان نے کسی کو وزیر اعلیٰ نامزد نہیں کیا، اتحاد کے معاہدے میں صرف یہ طے ہوا ہے کہ جس کے پاس اکثریت ہو گی وہی حکومت بنائے گا۔ یار محمد رند نے کہا کہ پارٹی جس کو منتخب کرے گی وہی وزیراعلیٰ بلوچستان بنےگا۔ان کا کہنا تھا کہ عمران خان نے کہا تھا کہ مل بیٹھ کر بات کر لیں گے، عمران خان جو فیصلہ کریں گے وہی حتمی ہو گا، حکومت بنانے کا حق پارلیمنٹ میں بیٹھے ارکان اور چیئرمین کا ہوتا ہے۔انہوں نے کہا کہ جام کمال کی بطور وزیراعلیٰ نامزدگی پر کوئی اعتراض نہیں کیا لیکن وزیراعلیٰ جام کمال کو بنانا ہے یا کسی اور کو، اس کا فیصلہ باہمی مشاورت سےکریں گے۔ذرائع نےدعوی کیا ہے کہ بلوچستان کے گورنرکے لئے یارمحمدرند کے نام پر غور کیا جارہا ہے۔ جبکہ بی اے پی اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ بلوچستان میں قدوس بزنجو کو اسپیکر بنا کر جام کما ل کی وزارت اعلیٰ کی رکاوٹ دور کی جائے۔ بلوچستان عوامی پارٹی کے ایک رکن نے بھی پی ٹی آئی کی حمایت کا اعلان کردیا۔ ذرائع کے مطابق پی ٹی آئی اور بلوچستان عوامی پارٹی (بی اے پی) میں جام کمال کو بطور وزیرِ اعلیٰ نامزد کرنے پر اختلافات نے جنم لے لیا ہے۔ بی این پی مینگل نے بھی ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔ نجی ٹی وی کے مطابق پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے ہمارامؤقف ہے کہ الیکشن میں دھاندلی ہوئی،اس کوقبول نہیں کریں گے،چاہتے ہیں کہ اپوزیشن کی مشترکہ آوازایوان میں بلندہو۔سرداراختر مینگل نے اسمبلی میں جانے کا فیصلہ کیا ہے، ہم پارلیمنٹ میں جاکر احتجاج رکارڈکرائیں گے، پیپلز پارٹی اجلاس میں سیاسی جماعتوں سے بات چیت کیلئے کمیٹی قائم ہوئی،کمیٹی مولانا فضل الرحمان ، ن لیگ اور حاصل بزنجو سے ملاقاتیں کر چکی ہے،سرداراخترمینگل سے ان کے تحفظات پربات ہوئی ہے،سرداراخترمینگل کے تحفظات تحریری طورپرموصول ہوگئے ہیں،سرداراخترمینگل کےساتھ مل کرمضبوط اپوزیشن بنائیں گے۔دوسری جانب بی این پی مینگل اور متحدہ مجلس عمل (ایم ایم اے) کے اراکین نے بھی کوئٹہ میں اہم ملاقات کی جس میں بی اے پی کو سادہ اکثریت حاصل ہونے کے بعد حکومت کے قیام کے حوالے سے موجود متبادل آپشنز پر غور کیا گیا۔ جبکہ تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ق) کے درمیان پنجاب اور وفاق میں حکومت سازی کے لیے فارمولہ طے پاتے ہی اختلافات سامنے آگئے ہیں ۔ذرائع کے مطابق حکومت سازی کے لیے دونوں جماعتوں کے درمیان طے پانے والے معاہدے کے تحت اسپیکر پنجاب اسمبلی کا عہدہ ق لیگ کے پرویزالہٰی کو دینے کا فیصلہ ہوا اور تحریک انصاف مسلم لیگ (ق) کو وفاق اور پنجاب میں 2 ، 2 وزارتیں بھی دے گی تاہم شراکت اقتدار کا فارمولا طے ہوتے ہی تحریک انصاف کے بعض رہنمائوں نے پرویز الٰہی کو اسپیکر بنانے پر تحفظات ظاہر کردیئے کیونکہ پرویز الٰہی کیخلاف نیب کیسز ہیں،جس کے بعد تحریک انصاف کی قیادت نے ق لیگ کو اسپیکر کے لئے نیا نام دینے کا پیغام دے دیا ہے۔ ذرائع کے مطابق وفاق میں حکومت بنانے کے معاملے میں متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے ساتھ اتحاد پر کراچی سے منتخب ہونے والے تحریک انصاف کے اراکین تقسیم کا شکار ہوگئے ہیں۔ذرائع کے مطابق مرکز میں حکومت بنانے کے حوالے سے ایم کیو ایم پاکستان کے ساتھ اتحاد کی مخالفت کرنے والے پی ٹی آئی اراکین کا موقف ہے کہ متحدہ سے اتحاد پارٹی ساخت کے لیے نقصان دہ ہے۔مخالفت کرنے والے اراکین کا کہنا ہے کہ اگر یہ اتحاد ہوا تو پھر پارٹی قیادت سے اس حوالے سے احتجاج کیا جائے گا۔ذرائع نے بتایا کہ جن اراکین نے اعتراض اٹھایا ہے وہ پی ٹی آئی کے مرکزی رہنما جہانگیر خان ترین کے ساتھ ایم کیو ایم پاکستان کے مرکز بہادرآباد بھی نہیں گئے تھے۔تاہم اس اتحاد کے حق میں بات کرنے والے پی ٹی آئی کراچی کے دیگر اراکینِ اسمبلی کا کہنا تھا کہ ایم کیو ایم پاکستان کے ساتھ وفاق میں حکومت بنانے کے لیے اتحاد وقت کی ضرورت ہے۔ نجی ٹی وی کے مطابق متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان کے کنوینر خالد مقبول صدیقی نے سندھ میں پیپلزپارٹی کی حکومت کا ساتھ دینے کا تاثر رد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم مرکز میں تحریک انصاف کی حمایت کریں گے۔ علاوہ ازیں تحریک انصاف میں آزاد ارکان کی شمولیت کا سلسلہ جاری ہے اور دو ارکان قومی اسمبلی اور چھ ارکان پنجاب اسمبلی نے شامل ہونے کا اعلان کر دیا ہے، فیصل آباد کے حلقہ این اے 101 سے رکن قومی اسمبلی عاصم نذیر نے عمران خان سے ملاقات کر کے تحریکِ انصاف میں شمولیت کا اعلان کیا۔ڈیرہ غازی خان میں کھوسہ فیملی کو شکست سے دوچار کرنے والے آزاد رکن قومی اسمبلی امجد کھوسہ اور ایم پی اے محسن عطا کھوسہ بھی تحریکِ انصاف میں شامل ہو گئے ۔ چنیوٹ کے حلقہ پی پی 93 سے تیمور لالی، پی پی 124 جھنگ سے تیمور خان اور پی پی 277 سے علمدار قریشی نے بھی تحریکِ انصاف کا راستہ چُن لیا ہے۔ مظفر گڑھ سے سردار خُرم خان لغاری اور جھنگ سے مہر اسلم بھروانہ بھی پی ٹی آئی میں شامل ہو گئے ہیں۔ ذرائع کے مطابق جمہوری وطن پارٹی نے بھی بلوچستان میں بلوچستان عوامی پارٹی کی حمایت کا فیصلہ کر لیا ۔ پارٹی سربراہ نوابزادہ شاہ زین بگٹی آج جمعرات کو اس کاباقاعدہ اعلان کرینگے۔ الیکشن کمیشن ذرائع کے مطابق خواتین کی مخصوص نشستوں پر پی ٹی آئی کو مشکلات کا سامنا ہے کیو نکہ قومی کی 2 اور صوبائی کی ایک نشست پر خواتین پارلیمنٹ سے باہر ہو گئی ہیں۔قومی اسمبلی کے لئے پی ٹی آئی نے 8خواتین کے ناموں پر مشتمل ترجیحی فہرست الیکشن کمیشن میں جمع کرائی تھی تاہم 8میں سے 2 خواتین ڈاکٹر روبینہ اور ڈاکٹر غزنہ خالد صدیقی جو کہ ترجیحی فہرست میں 5 اور 7 نمبر پر ہیں نے کاغذات نامزدگی جمع نہیں کرائے۔خیبرپختون اسمبلی میں پی ٹی آئی نے 15 خواتین پر مشتمل فہرست جمع کرائی تھی جس میں سیریل نمبر 15 کی امیدوار نادیہ عمبرین خٹک نے کاغذات نامزدگی جمع نہیں کرائے۔اس ساری صورتحال میں پی ٹی آئی وزارت عظمی کے حصول میں دو ووٹوں سے محروم ہوگئی۔ تحریک انصاف کے سیکر یٹری اطلاعا ت نعیم الحق نے کہا ہے کہ آج وزرائے اعلیٰ کے ناموں کا فیصلہ ہوجائے گا،نمبر گیم پر بات کرتے ہوئے فوادچوہدری نے کہا کہ ایم کیو ایم سے بات چل رہی ہے ،اختر مینگل گروپ کی شمولیت سے نمبر پورے ہو جائیں گے۔دوسری جانب مسلم لیگ (ن) کے وفاق میں 64 اور پنجاب اسمبلی میں 129 ارکان ہیں اور پنجاب میں حکومت سازی کے لیے یہ بھی بھرپور کوششیں کر رہی ہے۔ رانا ثناءکا دعویٰ ہے کہ چوہدری نثار بھی (ن) لیگ کو ووٹ دیں گے اس طرح مسلم لیگ کی نشستوں کی تعداد 137 بنتی ہے۔