ملیر مویشی منڈی میں بیوپاری بھتہ خوری کا شکار

کراچی(رپورٹ: اقبال اعوان)ملک بھر سے قربانی کے جانور فروخت کرنے کے لئے ملیر مویشی منڈی آنے والے بیوپاری بھتہ خوری کا شکار ہونے لگے۔منڈی کی انٹری فیس کے حوالے سے معاملہ عدالت میں ہونے کے باوجود مقامی جرائم پیشہ گروہ کی جانب سے بھتہ خوری جاری ہے۔اس کے مقامی ڈسٹرکٹ کونسل کراچی، کے ایم سی اور ڈی ایم سی ملیر کے نام پر من مانی چنگی وصول کی جاری ہے۔ تفصیلات کے مطابق عیدالاضحی کے لئے ملک بھر سے جانوروں کی آمد کے ساتھ ہی ملیر مویشی منڈی میں لوٹ مار کا بازار گرم ہوگیا ہے۔دو روز قبل مقامی عدالت میں جانوروں کے تاجر کی جانب سے جانور انٹری کے نام پر بھاری رقوم کی وصولی کے حوالے سے کیس کی سماعت ہوئی تھی اور عدالت نے ایس ایس پی ملیر کو سارے معاملے کی رپورٹ 10 روز میں دینے کی ہدایت کی تھی، تاہم اس کے باوجود ملیر مویشی منڈی میں بھتہ خوری کا بازار بند نہیں ہوا ہے۔دوسری جانب جانور کراچی لانے والے جہاں نیشنل ہائی وے سپر ہائی وے، آر سی ڈی شاہراہ پر 150 روپے اور 100 روپے فی جانور چیکنگ کے نام پر لئے جارہے ہیں، تاہم کراچی میں انٹری پوائنٹس یا منڈیوں کے اندر آنے کے دوران کسی مقام پر جانور کو چیک کرنے یا ویکسنیشن کرانے کا انتظام نہیں کیا گیا۔گزشتہ سال جانوروں کے بدن پر چیچڑی چیک کی جاتی تھی اور اس کی ویکسین کی پرچی چیک کی جاتی تھی۔اس بار ایسا کچھ نہیں ہے۔ملیر مویشی منڈی جو سال بھر لگتی ہے جہاں پر دوسرے شہروں سے گائے، بیل ، بکرے اور بھینس کالونی سے بھینسیں لائی جاتی ہیں۔ان کی انٹری فیس بڑے جانور کے 150 روپے اور بکرے بھیڑ کے 50 روپے ہوتے ہیں۔ تاہم بقر عید کے جانوروں کی آمد سے قبل ٹھیکہ ہوتا ہے اور انٹری فیس بڑھا دی جاتی ہے۔ملیر منڈی میں تاحال کوئی سسٹم نہیں چل رہا ہے ۔انٹری پوائنٹ پر کے ایم سی ویٹرنری ڈپارٹمنٹ کا بینر لگا کر بڑے جانور کی فیس 500 سے 750 روپے، بکرے کی 100 یا 250 روپے وصولی کی جارہی ہے۔اس طرح ڈی ایم سی ملیر، ڈسٹرکٹ کونسل کراچی والے الگ الگ روک کر چنگی مانگ رہے ہیں۔مقامی افراد جنہوں نے نجی پلاٹوں پر باڑے قائم کر رکھے ہیں۔وہ سرکاری منڈی تک بیوپاریوں کو نہیں جانے دے رہے اور کہا جارہا ہے کہ کسی کو کوئی چنگی نہ دو۔ ہم سے رابطہ کرو۔ 5 ہزار روپے میں جانوروں سے لدا ایک ٹرالر کلیئر کریں گے۔بیوپاریوں کو نجی پلاٹوں کے باڑوں پر لے جایا جارہا ہے اور جانور باندھ کر فی جانور رکھنے کی فیس، پانی، بجلی، سیکورٹی کے نام پر وصولی کی جارہی ہے۔ ان بڑے پلاٹوں کے گیٹ پر اسلحہ بردار سیکورٹی گارڈ موجود ہیں۔اس طرح بیوپاری مال باندھ کر یرغمال بن جاتے ہیں۔دوسری جانب سرکاری منڈی میں 5/7 فٹ گوبر، سوکھی گھاس، بھوسے کے کچرے پر جانور باندھے جارہے ہیں۔گندگی کے باعث تعفن بدبو، مچھر اور دیگر حشرات کی بھرمار ہے۔یہاں جانور اور بیوپاری دونوں بیمار ہورہے ہیں۔رحیم یار خان کے بیوپاری رمضان کا کہنا ہے کہ 25 بڑے جانور لے کر آئے تھے۔ ابھی تک بس چنگی کے نام پر رقم ہی ادا کررہے ہیں۔جانوروں کو پلانے والا پانی فی ڈبہ 10 روپے میں خرید رہے ہیں۔چارہ، بھوسہ، کتر، دانہ، سب مہنگا ہے، جبکہ اپنے لئے پینے کے پانی، کھانے پینے کی اشیاء مہنگے داموں ہوٹلوں سے لے رہے ہیں۔کشمور کے بیوپاری اکرم کا کہنا ہے کہ منڈی کی صورتحال دیکھ کر دوسری منڈی منتقل ہوجائیں گے۔ گندگی پر جانور باندھے ہیں۔ رحیم بخش کا کہنا ہے کہ ابھی خریداری شروع نہیں ہوئی اور ایک جانور فروخت نہیں ہوا۔البتہ اخراجات بہت آرہے ہیں۔

Comments (0)
Add Comment