اوور ہالنگ – پرزے نہ ہونے پر پی آئی اے کے آپریشن متاثر

کراچی (رپورٹ : سید نبیل اختر ) پرزے نہ ہونے اور طیاروں کی مکمل اوور ہالنگ نہ ہونے کےباعث پی آئی اے کا فلائٹ آپریشن شدید متاثر ہو رہا ہے۔ قومی ائیر لائن کے پاس پرزوں کا اسٹاک ختم ہونے کے بعد روٹین چیک کےلئ آنے والے طیاروں سے پرزے نکال کر دوسرے طیاروں کو آپریشنل کیا جا رہا ہے، انجن کی خرابی کے باعث 8 ماہ سے 777 اور اے ٹی آر طیارہ گراؤنڈ ہے، جس کی وجہ سے پروازوں کی منسوخی اور تاخیر معمول بن گئی ہے ۔ طیاروں کی مینٹی ننس کے لئے ایئر کرافٹ آن گراؤنڈ پر 10 گنا مہنگے پرزے خریدنے سے خسارہ مزید بڑھے گا ۔ اہم ذرائع نے بتایا کہ پی آئی اے کے پاس 38 طیارے ہیں، جن میں بوئنگ 777 ، اے تھری 20 اور آے ٹی آر شامل ہیں ۔معلوم ہوا ہے کہ پی آئی اے کے پروکیورمنٹ ڈیپارٹمنٹ نے گزشتہ ایک سال سے اختیار کئے گئے فلیٹ کے پرزے خریدنے بند کر رکھے ہیں، جس کی وجہ سے لائن مینٹیننس اور انجینئرنگ کو طیاروں کی مرمت کے لئے پرزوں کی فراہمی نہیں ہو پا رہی ۔ ذرائع نے بتایا کہ پی آئی اے میں ڈرائی لیز 777 طیارہ اے پی بی ایچ وی گزشتہ 8 ماہ سے انجن میں خرابی کی وجہ سے گراؤنڈ ہے، جس کی مرمت کے لئے پی آئی اے انظا میہ نے محض یہ کہہ کر طیارے کو گراؤنڈ کر رکھا ہے کہ انجن کی اوور ہالنگ کےلئےپیسے نہیں ہیں ۔ اسی طرح دوسرا اے آر ٹی طیارہ بھی انجن میں خرابی کے باعث ساڑھے3 ماہ سے گراؤنڈ ہے، تاہم دونوں طیاروں کی اوور ہالنگ کے لئے خاطر خواہ اقدامات نہیں کئے گئے ہیں ۔ ذرائع نے بتایا کہ پرزہ جات کی کمی پورا کرنے کے لئے چیف ٹیکنیکل افسر عامر علی نے شعبہ انجینئرنگ کو ہدایت کی کہ وہ پہلے سے گراؤنڈ طیاروں کے پرزے ان طیاروں میں لگانا شروع کر دیں جو معمولی خرابی پر روٹین چیک کیلئے گراؤنڈ کئے گئے تھے ۔ احکامات پر عمل درآمد شروع ہونے پر خراب طیاروں سے پرزے نکال کر دیگر طیاروں کو آپریشنل بنانا معمول بنا لیا گیا، جس سے مزید 2 طیارے 777 اور ایک ایر آر ٹی بھی گراؤنڈ ہوگئے ۔ معلوم ہوا ہے کہ 38 طیاروں میں سے 2 کے انجن موجود نہیں، جس پرانہیں آپریشنل نہیں کیا جاسکا، جبکہ 2معمول کے چیکس پر پرزے نکالنے کی وجہ سے گراؤنڈ ہیں ۔ اسی طرح 2 طیارے اپنے سائیکل مکمل ہونے پر گراؤنڈ رہتے ہیں، جس کے بعد پی آئی اے انہیں فلائٹ آپریشن 30 اور کبھی 31 طیاروں کی مدد سےآپریٹ کرتی ہے ۔ ذرائع نے بتایا کہ پی آئی اے کے شعبہ انجینئرنگ اور مینٹیننس آپریشن کے درمیان ایئر کرافٹ آن گراؤنڈ طریقہ کار کے ذریعے پرزے منگوانے کا نیا سلسلہ شروع ہو گیا ہے،جس سے پی آئی اے کا خسارہ مزید بڑھ رہا ہے ۔ معلوم ہوا ہے کہ ایئر کرافٹ آن گراؤنڈ کے ذریعے جو پرزہ منگوایا جاتا ہے، اس پر 10 کے بجائے 100 روپے ادائیگی کرنا پڑتی ہے، تاہم وسائل کی کمی کا بہانہ بنا کر 777 ، اے تھری 20 طیاروں کے پرزوں کی خریداری بند رکھی گئی ہے اور پی آئی اے کو مزید خسارے سے دوچار کیا جا رہا ہے ۔مینٹی نینس درست انداز میں نہ ہونے اور طیاروں کے گراؤنڈ رہنے کی وجہ سے فلائٹ آپریشن شدید متاثر ہو رہا ہے۔معلوم ہوا ہے کہ31 جولائی کو ٹورنٹو سے کراچی آنیوالی پرواز پی کے 784 تکنیکی خرابی کے باعث مقررہ وقت پر روانہ نہیں ہو سکی۔ پرواز میں مجموعی تاخیر تقریباً 50 گھنٹے بتائی گئی ۔ترجمان نے کہا کہ مسافروں کو قیام و طعام کی تمام سہولیات فراہم کی جا رہی ہیں ۔اسی روز اسلام آباد سے برمنگھم جانیوالی پی آئی اے کی پرواز پی کے 791 میں تکنیکی خرابی کے باعث مقررہ وقت پر روانہ نہیں ہو سکی۔ترجمان نے کہا کہ مسافروں کو دوبارہ لاوئنج منتقل کر دیا گیا ہے اور ان کی مکمل دیکھ بھال کی جا رہی ہے ۔تکنیکی خرابی دور ہونے پر پرواز روانہ ہو جائے گی ۔قبل ازیں 22 جولائی کو مانچسٹر سے اسلام آباد آنے والی پی آئی اے کی پرواز پی کے 702 کی روانگی میں تاخیر ہوئی۔ ترجمان کی جانب سے کہا گیا کہ پرواز میں تاخیر کی وجہ طیارے میں تکنیکی خرابی کے سلسلے میں مینٹیننس کے کام کا جاری رہنا ہے ،جبکہ پرواز میں مجموعی تاخیر تقریباً 24 گھنٹے ہو گی۔ ترجمان نے کہا کہ مسافروں کو قیام و طعام کی تمام سہولیات فراہم کی گئی ہیں ۔اسی روز اسلام آباد سے لندن جانیوالی پی آئی اے کی پرواز پی کے 785 کی روانگی میں 6 گھنٹے تاخیر ہوئی ۔ترجمان کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ پرواز میں تاخیر آپریشنل وجوہات کی بنا پر کی گئی ہے ۔ ’’امت‘‘ نے مذکورہ خبر پر مؤقف کےلئے ترجمان پی آئی اے مشہود تاجور سے بات کی تو انہوں نے کہا کہ طیاروں سے پرزے نکال کر دوسرے طیارے کو آپریشنل بنانا غیر قانونی عمل نہیں، اسے ری پلیسمنٹ کہا جاتا ہے، جس کےلئےسی اے اے سے اجازت حاصل کرلی جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پرزوں کی کمی اور 2 طیاروں کے انجن کی اوور ہالنگ کا معاملہ ترجیحی بنیادوں پر دیکھا جا رہا ہے ۔اس سلسلے میں حال ہی میں انجینئرنگ کےلئے رقوم جاری کرنے کی منظوری بھی دی گئی ہے اوراگست کے آخر تک تمام گراؤنڈ طیارے آپریشنل ہوجائیں گے ۔

Comments (0)
Add Comment