کے الیکٹرک میٹر ریڈنگ میں ہیر پھیر سے صارفین کو لوٹنے لگی

کراچی ( رپورٹ : اسامہ عادل )کے الیکٹرک نے میٹر ریڈنگ میں ہیر پھیر کر کے صارفین کو لوٹنے کا نیا سلسلہ شروع کرد یا، شکایات کی صورت میں اضافی بجلی استعمال ہونے یا اگلے بل میں رقم ایڈجسٹٹ کرنے کا کہہ کرصارفین کو ٹرخا دیا جاتا ہے ۔شہر کے بیشتر علاقوں میں غیر قانونی کنکشن منقطع کرنے اور بنڈل کیبل کی تنصیب کے باوجود لوڈشیڈنگ کا سلسلہ جاری ہے۔ تفصیلات کے مطابق کے الیکٹرک کا عملہ نت نئے حربے استعمال کرتے ہوئےشہریوں سے غیر قانونی طور پر رقم وصول کرنے میں مصروف ہے۔ اس حوالے سے جہاں شہریوں سے بقایاجات سمیت دیگر مدات میں وصولی کا سلسلہ جاری ہے ،وہیں صارفین کی سابقہ اور موجودہ ریڈنگ میں رد وبدل کیساتھ غلط ریڈنگ پر مشتمل بل بھیجنا بھی شامل ہے۔ اس حوالے سے ’’امت‘‘ کو لانڈھی کے ایک شہری کا بل موصول ہوا، جس کے مطابق کے الیکٹرک نے صارف نمبر اے ایل 360761 ، اکاؤنٹ نمبر 0400016462533 کے حامل نیو مظفر آباد لانڈھی کے رہائشی کو جولائی کا بل ارسال کیا ،جس میں استعمال شدہ یونٹ 330 ظاہر کئے گئے اور اسکیل کے مطابق 2 سو سے 3 سو یونٹ تک 10 روپے 20 پیسے اور 301 یونٹ سے 700 یونٹ تک فی یونٹ 15 روپے 45 پیسے کے حساب سے بل بنایا،جس کی رقم 3 ہزار 547 روپے 50 پیسے ظاہر کی گئی ، جب کہ دیگر مدات کیساتھ کل ادائیگی کی رقم 4 ہزار 255 روپے ظاہر کی گئی ،تاہم کے الیکٹرک کی جانب سے ارسال کردہ مذکورہ بل کے مطابق صارف کے میٹر کی سابقہ ریڈنگ 32506 اور موجودہ ریڈنگ 32614 ہے، جس کے مطابق صارف کے استعمال شدہ یونٹ 108 بنتے ہیں اور اس کی رقم ایک ہزار 101 روپے بنتی ہے، تاہم کے الیکٹرک نے مذکورہ صارف کے بل میں گئی گنا اضافی رقم شامل کرتے ہوئے ہندسوں کے ہیر پیر سے غیر قانونی طور پر تقریباً ڈھائی ہزار روپے کا اضافی بل بھیجا اور اسی حساب سے ٹیکس کی رقم بھی بل میں شامل کی گئی ۔ذرائع کا کہنا ہے کہ کے الیکٹرک بیشتر شہریوں کی کم علمی کا فائدہ اٹھاتی ہے ،کیونکہ عام شہری اس طرح کے ٹیکنیکل فراڈ سجمھ نہیں پاتے ،جب کہ زیادہ تر پڑھے لکھے افراد بھی بل کی تفصیلات میں جائے بغیر بل میں ظاہر شدہ رقم ادا کردیتے ہیں، جس کا پورا پورا فائدہ کے الیکٹرک اٹھاتی ہے، جبکہ اگر کوئی شہری اضافی بل کی شکایات لے کر کے الیکٹرک کے دفتر کا رخ کرتا ہے تو ابتدا میں اسے بل درست ہونے اور مکمل ادائیگی کا بول کر لوٹا دیا جاتا ہے اور اگر اس حوالے سے غلطی تسلیم بھی کی جائے تو صارف کومذکورہ رقم اگلے ماہ کے بل میں ایڈجسٹ کرنے کا کہا جاتا ہے ۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ کے الیکٹرک کی جانب سے صارف کے اگلے ماہ کے بل میں مذکورہ رقم پہلے اسکیل کے مطابق ایڈجسٹ کی جاتی ہے ،جبکہ اس سے قبل کے الیکٹرک صارف سے دوسرے اسکیل کے حساب سے رقم وصول کر چکی ہوتی ہے ۔دوسری جانب کے الیکٹرک کی جانب سے 2 سال قبل فلیگ شپ کمیونٹی ڈیولپمنٹ پروجیکٹ ’اجالا‘ کے تحت بجلی کی تقسیم کے نظام کو بہتر بنانے کیلئے ایریل بنڈل کیبل کی تنصیب کا اعلان کیا گیا تھا، جس کے بعد بجلی ادارے کی جانب سے شہر کے مختلف علاقوں میں ایریل بنڈل کیبل اور نئے ٹرانسفارمر کی تنصیب کیساتھ مختلف علاقوں میں غیر قانونی کنڈا کنکشن ہٹانے اور پاور انفراسٹرکچر کو بہتر بنانے کا دعوی کیا گیا تھا۔ اس اقدام کا مقصد مکینوں کو بجلی کی قابل بھروسہ فراہمی کو یقینی بنانے اور علاقوں میں نقصانات کی شرح کو کم کر کے لوڈ مینجمنٹ کے نام پر جاری بجلی معطلی کے سلسلے کو بہتر بنانا بتایا گیا تھا، تاہم اس کے برعکس شہر کے مختلف علاقوں میں کے الیکٹرک کی جانب سے بنڈل کیبل کی تنصیب کے باوجود مذکورہ علاقوں میں بجلی کی فراہمی کا نظام بہتر نہیں کیا اور ان علاقوں میں بھی پہلے کی طرح یومیہ 8 گھنٹے تک بجلی معطلی کا سلسلہ بدستور جاری ہے اور ساتھ ہی رات کے اوقات میں ایک سے 2 گھنٹے کیلئے بجلی بندش معمول بنی ہوئی ہے ۔’’امت‘‘ کو بلدیہ ٹاؤن سیکٹر 8 بی کے رہائشی عمران نے بتایا کہ کے الیکٹرک کی جانب سے 6 ماہ قبل علاقے میں لگی تاروں کو بنڈل کیبل سے تبدیل کیا گیا۔ کے الیکٹرک عملے کا کہنا تھا کہ بجلی چوری کے خاتمے اور علاقے میں بلا تعطل بجلی کی فراہمی کیلئے نئی کیبل ڈالی جارہی ہے ،تاہم نئی کیبل ڈالنے اور 6 ماہ گزرنے کے باوجود لوڈشیڈنگ میں کوئی کمی نہیں آئی اور اب بھی علاقے میں 10 سے 12 گھنٹے تک بجلی بند کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ انہوں نے بتایا کہ علاقے میں اکثر رات کے اوقات بھی بجلی بند کر دی جاتی ہے۔ جس کا دورانیہ ایک سے 2 گھنٹے تک ہوتا ہے۔ اسی طرح کورنگی پی اینڈ ٹی سوسائٹی کے رہائشی طاہر کا کہنا تھا کہ کے الیکٹرک کی جانب سے علاقے میں یومیہ 3 بار بجلی معطل رکھی جاتی ہے، جبکہ اکثر رات کے اوقات میں بھی بجلی بند کر دی جاتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ علاقے موجود تمام تاریں بنڈل کیبل سے تبدیل کی جا چکی ہیں، جس کے بعد بجلی چوری ممکن نہیں تاہم اس کے باوجود علاقے میں لوڈ شیڈنگ کا سلسلہ ختم نہیں کیا جا رہا۔

Comments (0)
Add Comment