اسلام آباد/کراچی (نمائندہ امت/اسٹاف رپورٹر) اپوزیشن جماعتوں نے وزیر اعظم، اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکرشپ کیلئے متفقہ امیدوار لانے کا اعلان کر دیا۔ وزارت عظمی کیلئے عمران خان کا مقابلہ شہباز شریف کریں گے، جبکہ اسپیکر پیپلز پارٹی اور ڈپٹی اسپیکر کا امیدوار مجلس عمل نامزد کرے گی۔ کل جماعتی کانفرنس کے بعد میڈیا بریفنگ میں رہنماؤں کا کہنا تھا کہ ہم حکومت بنانے کی پوزیشن میں ہیں۔ تحریک انصاف کو ٹف ٹائم دیں گے۔ انتخابی نتائج اور دھاندلی کے خلاف ایوان کے اندر اور باہر بھرپور احتجاج کیا جائے گا۔ دوسری جانب پیپلز پارٹی نے پی ٹی آئی کے ساتھ براہ راست ٹکراؤ سے گریز کی پالیسی اپنالی ہے اور اپوزیشن میں رہتے ہوئے نئی حکومت میں شمولیت کا دروازہ بھی کھلا رکھا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اپوزیشن اتحاد کا مستقبل اسپیکرشپ کے انتخاب سے وابستہ ہے جو خفیہ رائے شماری کی بنیاد پر ہوگا اور اسی سے حکومت اور اپوزیشن کی اصل عددی حیثیت کا پتہ چلے گا۔ناکافی عددی قوت دیکھ کر جوڑ توڑ کے بادشاہ آصف علی زرداری راستہ الگ کرسکتے ہیں۔ذرائع کے مطابق چئیرمین بلاول بھٹو زرداری اے پی سی میں اسی وجہ سے شریک نہیں ہوئے کہ بیک ڈور رابطے بار آور آنے پر پی ٹی آئی کے ساتھ باضابطہ بات چیت کے عمل میں پی پی کی نمائندگی کرسکیں جبکہ کل جماعتی کانفرنس میں شریک پی پی رہنماؤں نے بھی وزارت عظمی کا انتخاب ہارنے کی صورت میں قائد حزب اختلاف کیلئے حمایت کی واضح یقین دہانی نہیں کرائی تاکہ بعد میں اپوزیشن اتحاد سے الگ ہونے میں کوئی پریشانی نہ ہو۔ اطلاعات کے مطابق جمعرات کو اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کی رہائش گاہ پر کل جماعتی کانفرنس منعقد ہوئی جس میں مسلم لیگ ن ، پیپلز پا رٹی ، ایم ایم اے ، اے این پی ، قومی وطن پارٹی اور دیگر جماعتوں کے رہنما شریک ہوئے۔ نمایاں شرکا میں شہباز شریف ، یوسف رضا گیلانی، سید خورشید شاہ، مولانا فضل الرحمن، سراج الحق، میر حاصل بزنجو، اسفندیار ولی، محمود خان اچکزئی، آفتاب شیر پاؤ، خواجہ آصف، احسن اقبال، سردار مہتاب خان، شیری رحمان ، قمر الزمان کائرہ، عبدا لغفور حیدری، لیاقت بلوچ و دیگر شامل تھے۔ اے پی سی میں فیصلہ کیا گیا کہ مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف عمران خان کے مقابلے پر وزیر اعظم کا الیکشن لڑیں گے۔ جبکہ پیپلز پارٹی کے سنیئر رہنما اور رکن قومی اسمبلی نوید قمر ممکنہ طور پر اسپیکر کے عہدے کے لیے اس اتحاد کے مشترکہ امیدوار ہو سکتے ہیں تاہم اس ضمن میں آفتاب شعبان میرانی، ڈاکٹر نفیسہ شاہ اور خورشید احمد شاہ کا نام بھی لیا جارہا ہے، جبکہ ایم ایم اے ڈپٹی اسپیکر کے عہدے کے لیے امیدوار کا نام آج دے گی۔ذرائع کے مطابق اس موقع پر وزیراعظم کا الیکشن ہارنے کی صورت میں مشترکہ اپوزیشن لیڈر کی نامزدگی پر بھی غور کیا گیا تاہم اختلاف رائے کے باعث اس کا فیصلہ وزیر اعظم کا انتخاب ہونے کے بعد تک کے لیے چھوڑ دیا گیا ہے۔اجلاس میں تمام جماعتوں نے اپنے اپنے نمائندوں پر مشتمل گروپ بھی تشکیل دیا، مسلم لیگ ن نے اسے ایکشن جبکہ پیپلز پارٹی نے ورکنگ گروپ کا نام دیا ہے، جس میں احسن ا قبال، شیری رحمان، عبدالغفور حیدری، انیسہ زیب طاہر خیلی، لیاقت بلوچ، عثمان کاکڑ، اویس نورانی، افتخار حسین، غلام بلور اور مشاہد حسین سید سمیت دیگر ارکان شامل ہیں۔ یہی گروپ آئندہ کا لائحہ عمل تیار کرے گا اور اس کا پہلااجلاس آج طلب کر لیا گیا ہے۔ اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے پی پی رہنما شیری رحمان نے الیکشن کو دھاندلی زدہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ایوان کے اندر اور باہر احتجاج کیا جائے گا، مضبوط اور مربوط اپوزیشن کا کردار ادا کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ جمہوری قوتوں کا تیسرا اہم اجلاس تھا جس میں بہت سے نکات پر اتفاق کیا گیا اور فیصلہ کیا گیا ہے کہ تمام جماعتیں ایوان میں جائیں گی۔ پی پی رہنما نے کہا کہ اس اتحاد کے ٹی او آر طے کیے جائیں گے اور ان ہی ٹی او آرز کے تحت آگے بڑھا جائے گا۔ وزیراعظم، اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کے لیے ناموں کا اعلان متعلقہ جماعتیں کریں گی۔ حکومت بنانے کی پوزیشن میں ہیں۔ عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے رہنما میاں افتخار حسین نے کہا کہ ہم اپوزیشن کے طور پر مقابلہ نہیں کرنے جارہے بلکہ ہم حکومت بنانے کی پوزیشن میں ہیں۔انہوں نے کہا کہ دباؤ کی وجہ سے اُدھر جانے والے ادھر بھی آسکتے ہیں۔ایم ایم اے کے رہنما لیاقت بلوچ نے کہا کہ الیکشن کمیشن اور نگراں حکومت آئین اور قانون کے تحت انتخاب نہیں کراسکی، ہارنے والوں کو پتہ نہیں انہیں کیوں ہرایا ہے۔ ن لیگ کے رہنما احسن اقبال نے کہا کہ پہلی بار یہ ہوا کہ الیکشن کے بعد اکثر جماعتوں نے نتائج مسترد کیے۔ کٹھ پتلی گٹھ جوڑ کو شکست دینے کی کوشش کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہم خیال جماعتوں نے تمام حل طلب معاملات پر اتفاق رائے کرلیا ہے۔پی ٹی آئی کو بتائیں گے کہ حقیقی اپوزیشن کیا ہوتی ہے۔ ن لیگ کی ترجمان مریم اورنگزیب کا کہنا تھا کہ تمام جمہوری پارٹیوں کے درمیان اتحاد ہوگیا ہے، طے ہوگیا ہے کہ تمام جماعتیں پارلیمنٹ میں جائیں گی۔انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کو بتائیں گے کہ حقیقی اپوزیشن کیا ہوتی ہے۔ ذرائع کے مطابق اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے سب سے زیادہ زور اسپیکر شپ کے انتخابات پر دیا جارہا ہے جس سے ان کی اصل عددی قوت ظاہر ہوجائے گی، کیونکہ یہ خفیہ رائے شماری کے مطابق ہوگا۔ اپوزیشن جماعتوں کے جو نئے منتخب ایم این ایز ہوں گے۔ ان میں سے کتنے ان کے ساتھ کھڑے رہتے ہیں اور آزاد امیدوار کیا کردار ادا کرتے ہیں۔ وزیر اعظم کا انتخاب جو خفیہ رائے شماری کے ذریعے نہیں ہوگا اس میں متعلقہ جماعتوں کے فیصلے کے برعکس ووٹ دینے والا رکن کو قانونی طور پر نااہل ہوکر نشست خالی کرنا پڑے گی۔ ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ اسپیکر کے انتخاب سے صورتحال واضح ہونے کے بعد نواز لیگ کے صدر میاں شہباز شریف عمران کے مقابلے میں خواجہ آصف، احسن اقبال یا کسی اور کو بھی نامزد کرسکتے ہیں۔نئی قومی اسمبلی کا پہلا اجلاس اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کی زیر صدارت ہوگا اور وہ تمام نومنتخب ایم این ایز سے رکنیت کا حلف لے کر نئے اسپیکر قومی اسمبلی کے انتخاب کے کاغذات نامزدگی جمع کرانے کا اعلان کرتے ہوئے اجلاس ملتوی کر دیں گے۔ بعد ازاں نئے اسپیکر کا انتخاب ہوگا۔ موجودہ اسپیکر ایاز صادق عہدے سے سبکدوش ہوجائیں گے اور نئے منتخب اسپیکر کی زیر صدارت اجلاس میں ڈپٹی اسپیکر کا انتخاب بھی اسی طرح ہوگا۔ جس کے بعد قومی اسمبلی کے نئے قائد ایوان (وزیر اعظم) کے انتخاب کیلئے کاغذات نامزدگی جمع کرانے کا مرحلہ آئے گا اور اس کے ایوان میں وزیر اعظم کا انتخاب ہوگا۔ اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کے انتخاب کیلئے خفیہ ووٹنگ کے ذریعے رائے شماری ہوگی جبکہ وزیر اعظم کے انتخاب کے خفیہ نہیں بلکہ سرعام ہاتھ اٹھاکر ایک طرف کھڑے ہوکر اپنے ووٹ کا اظہار کریں گے۔
اسلام آباد/کوئٹہ(نمائندگان امت) تحریک انصاف رہنماؤں کی سرتوڑ کوششوں اورجہانگیر ترین کی طیارہ اڑانوں کے باوجود قومی اسمبلی میں نمبر پورے کرنا مشکل ترین چیلنج بن گیا، 8 روز گزر جانے کے باوجود مرکز میں حکومت سازی کا اعلان نہیں کیا جاسکا۔ ایم کیو ایم پاکستان کے بعد بی این پی مینگل کی منت سماجت پر بھی اتر آئی۔ جب کہ اختر مینگل نے بنی گالا جانے سے انکار کرتے ہوئے 6 مطالبات پیش کردیئے۔ سابق وزیراعلی بلوچستان کا کہنا تھا کہ جسے بات کرنی ہے وہ خود بلوچستان ہاؤس آئے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ عمران خان آئندہ ایک دو روز میں بلوچستان ہاؤس جاکر بی این پی مینگل سے مدد مانگیں گے۔ ذرائع کے مطابق ق لیگ، متحدہ اور آزادارکان کی حمایت کے باوجود حکومت سازی کے لئے واضح اکثریت حاصل نہیں ہوپارہی ہے۔ تحریک انصاف کے اپنے 115 ارکان، ایم کیو ایم کے 6 ، بلوچستان عوامی پارٹی 4، جی ڈی اے 2، ق لیگ 2، جمہوری وطن پارٹی اور شیخ رشید ملاکر2 اور 7 آزاد ارکان ملاکر بھی تعداد بمشکل 132 ہورہی ہے۔ کیونکہ عمران خان کی 4 سیٹوں سمیت پی ٹی آئی کی 7 نشستیں کم ہوں گی۔ جس کے باعث جمعرات کو تحریک انصاف کے وفد نے اختر مینگل سے ملاقات کرکے انہیں وفاق میں شامل ہونے کی دعوت دی۔ بعد ازاں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بی این پی مینگل کے سربراہ نے کہا کہ حکومت میں شمولیت کی دعوت پر تحریک انصاف کے وفد کا مشکور ہوں، مثبت بات چیت ہوئی۔ ہم نے تحریک انصاف کے سامنے بلوچستان کے مسائل رکھے، لاپتہ افراد کی بازیابی اور سی پیک پر عملدرآمد کا بھی مطالبہ کیا ہے لہٰذا ہمیں مثبت جواب ملا تو ساتھ دینے کو تیار ہیں۔اختر مینگل کا کہنا تھاکہ ہم اس ملک کےحکمرانوں کے جلے ہوئے ہیں اس لیے احتیاط کریں گے،ماضی میں ہمارے مطالبات پر کوئی پیش رفت نہیں ہوئی، لاپتہ افراد کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔بلوچستان کی وزارت اعلیٰ سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ ایسا نہیں کہ کسی کو وزیراعلیٰ نامزد کردیا جائے اور ہم آنکھیں بند کرکے حمایت کریں، جے یو آئی اتحادی ہے، حکومت یا اپوزیشن میں بیٹھنے کا فیصلہ مل کر کرینگے۔تحریک انصاف کے رہنما نعیم الحق نے مطالبات عمران خان کے سامنے رکھنے کی یقین دہانی کراتے ہوئے کہا کہ عمران خان پہلے لیڈر ہوں گے جو بلوچستان کے مسائل حل کرینگے۔یار محمد رند نے کہاکہ اختر مینگل کے مطالبات عمران خان کے سامنے رکھیں گے، یقین ہے کہ عمران خان سے ملاقات کے بعد اختر مینگل کی جماعت اور ہم ساتھ چلیں گے۔ ذرائع کے مطابق اختر مینگل کو دعوت دی گئی کہ وہ بنی گالا آئیں تاہم انہوں نے وہاں جانے سے معذرت کرلی۔ رات گئے ایم ایم اے کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے بھی اختر مینگل سے ملاقات کی اور انہیں اپوزیشن اتحاد کے ساتھ ملنے کی دعوت دی۔جب کہ پیپلزپارٹی کی جانب سے رابطے کی اطلاعات بھی ہیں۔ بعض دیگر ذرائع یہ بھی کہتے ہیں کہ ہوسکتا ہے کہ سردار اختر جان مینگل کو ایم ایم اے اور دیگر سیاسی پارٹیاں بلوچستان میں وزیراعلیٰ بنانا چاہتی ہیں لیکن سردار اختر جان مینگل نے تمام سیاسی پارٹیوں سے دو دن کی مہلت مانگ لی ہے اور اس دوران سردار اختر جان مینگل کا کہنا ہے کہ میں دو دن کے دوران اپنی پارٹی کے رہنماؤں سے مشاورت کرونگا اور اس کے بعد ہی حتمی فیصلہ کرونگا۔