مستونگ حملے کے بمبار حفیظ کی شناخت 2سوالات پرہوئی

کراچی (امت نیوز)مستونگ دھماکے کے بمبار کی شناخت ڈرامائی انداز سے ہوئی تھی۔17 جولائی کی رات سندھ پولیس ضلع ٹھٹہ کے شہر دھابیجی کے محلے غریب آباد کا گھیراؤ کرتی ہے۔ایک مکان کا دروازہ کھٹکھٹایا جاتا ہے۔60 برس کی عمر کے شخص کی جانب سے دروازہ کھولے جانے پر پولیس کا پہلا سوال ہوتا ہے حفیظ نواز کون ہے؟وہ شخص بتاتا ہے کہ حفیظ اس کا بیٹا ہے۔ دوسرا سوال ہوتا ہے کہ وہ کہاں ہے؟ وہ بلاجھجھک کہتا ہے کہ افغانستان جہاد کے لیے گیا ہے۔ تصویر کے ساتھ ان دو سادہ سوالوں کی مدد سے سندھ پولیس کے کاؤنٹر ٹیررازم ڈپارٹمنٹ کو مستونگ میں انتخابی مہم کے دوران خودکش حملہ کرنے والے حفیظ نواز کی شناخت کرنے میں کامیابی مل جاتی ہے۔ بی بی سی کے مطابق قانون نافذ کرنے والے ادارے مستونگ حملے کے چند دن کے اندر ہی حملہ آور کو شناخت کرنے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ایس ایس پی سی ٹی ڈی پرویز چانڈیو کے مطابق مستونگ دھماکے کے بعد وہ ڈی آئی جی سی ٹی ڈی کوئٹہ اعتزاز گورایہ سے رابطے میں تھے، جنھوں نے انہیں بتایا کہ نامعلوم لاشوں کے فنگر پرنٹ سے ایک نوجوان کی شناخت سندھ کے ضلع ٹھٹہ سے ہوئی ہے۔ انھوں نے اس لڑکے کی تفصیلات طلب کیں اور تفتیش کے لیے دھابیجی پہنچے۔محمد نواز کا تعلق ایبٹ آباد شہر کے محلے مولیا سے ہے مگر وہ تقریباً 30سال قبل دھابیجی منتقل ہو گیا تھا جہاں وہ دودھ فروخت کرتا ہے۔حفیظ کے علاوہ نواز کے دیگر بچوں کی پیدائش بھی یہاں ہی ہوئی۔ایس ایس پی پرویز چانڈیو نے بتایا کہ حفیظ کے بڑے بھائی عزیز کی کالعدم ٹی ٹی پی میں شمولیت کے بعد پورا خاندان افغانستان منتقل ہوگیا جس میں حفیظ کے علاوہ عزیز ، شکور، تین بہنیں اور والدہ شامل تھیں جو اس وقت اسپن بولدک میں موجود ہیں۔کاؤنٹر ٹیررازم پولیس کا خیال ہے کہ ٹی ٹی پی کے سربراہ ملا فضل اللہ اور کمانڈر داؤد محسود میں اختلافات اور ایک دوسرے پر حملوں کے بعد حاجی داؤد نے داعش سے رجوع کیا۔ داؤد کراچی پولیس میں ہیڈ کانسٹیبل تھا لیکن بعد میں افغانستان منتقل ہو گیا تھا۔ایس ایس پی پرویز کے مطابق حفیظ کے بڑے بھائی عزیز نواز نے بھی حاجی داؤد کے ساتھ داعش میں شمولیت اختیار کرلی اور پورے خاندان کو یہ کہہ کر افغانستان بلا لیا کہ داعش خلافت کے قیام کے لیے لڑ رہی ہے اور دوسری زمین ان کے لیے دارلحرب ہے۔ عزیز اپنے والد پربھی دباؤ ڈالتا رہا لیکن وہ افغانستان نہیں گیا۔کاؤنٹر ٹیررازم ڈپارٹمنٹ کی تفتیش کے دوران کراچی کے علاقے شاہ فیصل کالونی میں واقع ایک مدرسے کا مشکوک کردار بھی سامنے آیا ہے۔حفیظ اور عزیز نواز اسی مدرسے میں زیر تعلیم رہے۔ایس ایس پی پرویز چانڈیو کے مطابق مدرسے کا ریکارڈ تحویل میں لیا گیا اور جو طالب علم حفیظ کے ساتھ پڑھتے تھے ان سے تفتیش کی گئی جس کی مدد سے حفیظ کا ٹیلیفون نمبر ملا۔اس نمبر کی مدد سے حفیظ کے ہینڈلر تک رسائی ہوئی اور کوئٹہ سی ٹی ڈی سے مقابلے میں سہولت کار مفتی ہدیت اللہ قلعہ سیف اللہ میں مارا گیا۔

Comments (0)
Add Comment