20 اگست کو سماعت – مشرف غداری کیس عمران کیلئے نیا امتحان

اسلام آباد(رپورٹ:اخترصدیقی)سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کوسماعت کے لیے مقررکردیاگیاہے اور پرویزمشرف کانئی تاریخ سماعت پر بھی پیش نہ ہونے اورنئے پراسیکیوٹرکی تعیناتی کے احکامات جاری کیے جانے کاامکان ہے دوسری جانب وفاقی وزارت داخلہ کی جانب سے ملزم کے خلاف ریڈوارنٹ جاری نہیں کیے ہیں ۔عدالتی احکامات پر نگران حکومت نے ابھی تک عمل درآمدنہیں کیاہے اور نہ ہی اس حوالے سے کوئی جواب تیار کیاگیاہے یہ سب کام بھی نئی حکومت پر چھوڑنے کافیصلہ کیاگیاہے ۔ذرائع نے روزنامہ امت کوبتایاہے کہ سابق صدرپرویزمشرف کے خلاف غداری کے مقدمے کی سماعت کے لیے نئی تاریخ کااعلان کردیاگیاہے تاہم اس نئی تاریخ پر بھی پرویزمشرف کے پیش ہونے کے امکانات نہ ہونے کے برابرہیں وزارت داخلہ اور دفاع دونوں نے تاحال پرویزمشرف کواس کی من پسندسیکیورٹی دینے کی حامی نہیں بھری ہے جبکہ نگران وفاقی حکومت نے اس کیس میں کوئی دلچسپی نہیں لی ہے اور معاملات کوجوں کاتوں رکھاہے خصوصی عدالت کی جانب سے پرویزمشرف کوگرفتار کرنے اور پیش کرنے کے معاملے پر بھی کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی ہے ۔نگران حکومت نے پرویزمشرف کی گرفتاری سمیت تمام معاملات نئی حکومت پر چھوڑ دیے ہیں سپیشل پراسیکیوٹراکرم شیخ ایڈووکیٹ سپریم کورٹ بھی اس کیس سے خود کوالگ کرچکی ہے اورانھوں نے بھی معاملہ نئی حکومت پر چھوڑ دیاہے ۔ذرائع کامزیدکہناہے کہ تحریک انصاف کی حکومت کی تشکیل پر کچھ وقت لگے گااور اس دوران بیس اگست کی تاریخ بھی گزرجائیگی اور عدالت کی جانب سے نئے پراسیکیوٹر کی تعیناتی کے احکامات جاری کیے جانے اور معاملہ عدلیہ کی تعطیلات کے بعدتک ملتوی ہونے کاامکان ہے ۔تحریک انصاف ابھی تک حکومتی تشکیل کے معاملات سے باہر نہیں نکل سکی ہے ایسے میں سابق صدرپرویزمشرف کے خلاف کیس کی سماعت میں کوئی مثبت پیش رفت نہیں ہوسکے گی ۔اور پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے قیام کے ساتھ ہی عمران خان کاامتحان شروع ہونے والاہے ۔سابق صدرپرویزمشرف کی گرفتاری کامعاملہ تاحال حل طلب ہے ابھی تک وزارت داخلہ کی جانب سے ریڈوارنٹ جاری نہیں کیے گئے ہیں ۔سابق صدرپرویزمشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کی سماعت کرنے والی خصوصی عدالت نے کیس کوسماعت کے لیے مقررکردیاہے اور وفاقی حکومت سمیت دیگر سے 20اگست تک جواب مانگ لیاہے پرویز مشرف سنگین غداری کیس کی سماعت خصوصی عدالت میں ہوگی، جس کی سربراہی لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس یاور علی کریں گے۔بینچ کے دیگر ارکان میں بلوچستان ہائیکورٹ کی جسٹس طاہرہ صفدر اور سندھ ہائیکورٹ کے جسٹس نذر اکبر شامل ہیں۔سیشن جج راؤ عبدالجبار کو خصوصی عدالت کا رجسٹرار بھی مقرر کردیا گیاتھا۔تحریک انصاف کے قریبی ذرائع کاکہناہے کہ سابق صدرپرویزمشرف کی گرفتاری سے اہم سابق وزیراعظم میاں نوازشریف کے خلاف باقی ماندہ نیب ریفرنسزکی سماعت اور فیصلہ ہیں ۔سابق وزیراعظم میاں نوازشریف کے خلاف نئی حکومت کس حدتک عدالت کی جانب سے دی گئی سزاپر عمل درآمدکرتی ہے اسلام آبادہائی کورٹ میں نئی حکومت کیاموقف اختیارکرتی ہے ابھی اس کابھی فیصلہ نہیں کیاجاسکاہے ۔ذرائع نے روزنامہ امت کوبتایاکہ نگران حکومت نے پراسیکیوٹرکے لیے سابق ایڈیشنل اٹارنی جنرل راناوقار کانام طے کیاتھامگراب اس معاملے کونئی حکومت پر چھوڑ دیاگیاہے اور نئی حکومت ہی پراسیکیوٹرکی تعیناتی کرے گی ۔اس حوالے سے تحریک انصاف کے وکلاء ونگ میں سے تعیناتی کی جائیگی یہ سب نئی حکومت کی تشکیل کے بعدہی کیے جانے کاامکان ہے ۔اور حکومت بیس اگست کونئے پراسیکیوٹرکی تعیناتی کے لیے عدالت سے وقت دینے کی درخواست کرسکتی ہے اور یہ معاملہ عدالتی تعطیلات کے بعدتک موخر ہونے کاامکان ہے ۔واضح رہے کہ جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف وفاقی حکومت کی جانب سے وزارتِ داخلہ کے ذریعے سنگین غداری کیس کی درخواست دائر کی گئی تھی جسے خصوصی عدالت نے 13 دسمبر 2013 کو قابلِ سماعت قرار دیتے ہوئے سابق صدر کو 24 دسمبر کو طلب کیا تھا۔اس کیس میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے نومبر 2013 میں ایڈووکیٹ اکرم شیخ کو پراسیکیوشن کا سربراہ مقرر کیا تھا۔ابتدائی طور پر جنرل (ر) پرویز مشرف کی قانونی ٹیم نے ایڈووکیٹ اکرم شیخ کی بطور چیف پراسیکیوٹر تعیناتی چیلنج کی تھی لیکن غداری کیس کے لیے مختص خصوصی عدالت کے ساتھ ساتھ اسلام آباد ہائی کورٹ نے اس چیلنج کو مسترد کردیا تھافروری 2014 میں جنرل (ر) پرویز مشرف عدالت میں پیش نہیں ہوئے تھے جس کے بعد عدالت نے 18 فروری 2014 کو ان کے قابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کردیے تھے۔مارچ 2014 میں خصوصی عدالت نے سنگین غداری کیس میں سابق صدر پر فرد جرم عائد کی تھی جبکہ اسی سال ستمبر میں پراسیکیوشن کی جانب سے ثبوت فراہم کیے گئے تھے۔عدالت نے 8 مارچ 2016 کو جنرل (ر) پرویز مشرف کو سنگین غداری کیس میں کرمنل پروسیجر کوڈ (سی آر پی سی) کی دفعہ 342 کے تحت بیان ریکارڈ کروانے کے لیے طلب کیا تھا۔بعد ازاں عدالت نے 19 جولائی 2016 کو جنرل (ر) پرویز مشرف کو مفرور قرار دے کر ان کے خلاف دائمی وارنٹ گرفتاری بھی جاری کردیے تھے اور اس کے ساتھ ساتھ ان کی جائیداد ضبط کرنے کا بھی حکم دے دیا تھا۔تاہم اسلام آباد ہائیکورٹ کے حکم امتناع کے بعد خصوصی عدالت پرویز مشرف کے خلاف مزید سماعت نہیں کرسکی تھی جبکہ اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے ان کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) سے نکالنے کے حکم کے بعد وہ ملک سے باہر چلے گئے تھے۔ رواں سال کے آغاز میں خصوصی عدالت نے غداری کیس کی سماعتیں دوبارہ شروع کی تھیں اور حکم دیا تھا کہ جنرل (ر) پرویز مشرف کا کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بلاک کیا جائے، جس کے بعد مسلم لیگ (ن) کی سابق حکومت نے مئی میں عدالتی احکامات پر عمل کرتے ہوئے شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بلاک کردیا تھا۔بعد ازاں 11 جون کو سپریم کورٹ نے جنرل (ر) پرویز مشرف کا قومی شناختی کارڈ (این آئی سی) اور پاسپورٹ بحال کرنے کا حکم دیا تھا۔چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار نے پرویزمشرف کوملک میں واپس آنے اور عام انتخابات میں کاغزات نامزدگی داخل کرانے کی بھی اجازت دی تھی تاہم جب انھوں نے عدالت میں پیش ہونے سے انکار کیاتھاتوان کے کاغذات نامزدگی مستردکردینے کے احکاما ت جاری کردیے تھے جس کے بعدپرویزمشرف عام انتخابات سے باہر ہوگئے تھے اوران کے کاغذات نامزدگی کوریٹرننگ افسران نے مستردکردیاتھا۔اور چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے بھی برہمی کااظہار کیاتھا۔

Comments (0)
Add Comment