اسلام آباد (وقائع نگارخصوصی) اہم بات یہ نہیں ہے کہ پنجاب سے تحریک انصاف کو ایک کروڑ ساڑھے گیارہ لاکھ ووٹ ملے ہیں، اہم بات یہ ہے کہ نواز لیگ کو ایک کروڑ 5 لاکھ ووٹ پڑے ہیں، جسے نواز شریف کے موقف کی حمایت میں پڑنے والا ووٹ سمجھا جا رہا ہے ، یعنی مقتدر حلقوں کی مخالفت میں نواز شریف کے بیانیے کو پڑنے والا ووٹ۔ یہ ووٹ کہیں اور نہیں پنجاب میں پڑا ہے ، جو فوج کا گھر ہے اور اس عالم میں پڑا ہے کہ نواز لیگ کو ہاتھ پاؤں باندھ کر اکھاڑے میں پھینکنے کی چیخ پکار سے آسمان لرز رہا ہے ، گویا مقابلہ شفاف اور کھلا ہوتا تو ان ووٹروں کی تعداد میں کئی لاکھ اضافہ ہو چکا ہوتا، جو سیاست میں فوج کے کردار پر تنقید کے حوالے سے نواز شریف کے موقف کی حمایت کرتے ہیں۔ یہ لمحہ فکریہ ہے ۔ ہم پہلے بھی لکھ چکے ہیں کہ پنجاب کو دھینگا مشتی کا اکھاڑا نہیں بننا چاہئے ۔ وہ 55 فیصد پاکستان ہے ۔ اسے آشتی، امن اور استحکام کا مرکز رہنا چاہئے ، تاکہ دوسرے صوبوں میں بدامنی روکنے کے لئے درکار سیاسی، نظریاتی، معاشی اور انتظامی وسائل اور طاقت دستیاب رہے اور دوسرے صوبوں کے محب وطن عوام کو بہتری کی امید بندھی رہے ۔ پنجاب میں سوچ کی تقسیم کا اتنا بڑا مظاہرہ ماضی میں کبھی دیکھنے کو نہیں ملا۔ اس سے خطرہ ہے کہ عوام اور فوج میں فاصلے اتنے نہ بڑھ جائیں کہ انہیں پاٹنا مشکل ہو جائے ، کیونکہ جس قسم کے نعرے کبھی فاٹا کے پہاڑوں اور بلوچستان کے جنگلوں میں لگتے تھے ، وہ اب لاہور کی سڑکوں پر لگ رہے ہیں۔ یہ تشویشناک ہے اور اس کا حل یہ بھی نہیں کہ نواز لیگ کا سائز مزید چھوٹا کیا جائے ۔ اس کے اثرات مزیدکم کرنے پر کام کیا جائے اور نواز شریف کو مزید کڑی سزا دی جائے ۔ سزاؤں اور سختی کا نتیجہ آپ نے دیکھ لیا۔ ظاہر ہے کہ اس ایک کروڑ 5 لاکھ ووٹروں میں لاکھوں افراد ایسے بھی ہوں گے ، جو حاضر سروس یا ریٹائر فوجی یاپیرا ملٹری فورسز سے تعلق رکھتے ہوں گے یا ان کے گھر والے ، خاندان اور برادری والے ہوں گے ۔ یہ معاملہ سنگینی کے اعتبار سے اس سے کہیں زیادہ ہے ، جتنا بظاہر نظر آتا ہے ۔ اس لئے مقتدر حلقوں کو ضرور سوچنا چاہئے اور اپنی پالیسی میں تبدیلی لانی چاہئے ۔ پنجاب اور فوج کو ایک دوسرے کے سامنے نہیں کھڑا ہونا چاہئے ، جس دن ایسا ہوا ملک کی تباہی ہے پھر ایٹم بم کام آئے گا نہ بیلاسٹک میزائل۔ اس آگ پر دشمن کو چند روپوں کا پیٹرول ہی چھڑکنا ہوگا، باقی کام آگ خود کر دے گی۔ دوسری بات یہ کہ شہباز شریف کو مناسب راستہ نہ ملنے کا نتیجہ یہ ہے کہ مریم نواز مستقبل کی لیڈر بن کر سامنے آ رہی ہیں۔ پنجاب کے نوجوان ان کے گرد جمع ہوسکتے ہیں، کیونکہ انہوں نے مزاحمت کر کے باپ کے نظریے سے وفاداری دکھائی اور جیل جانے کی قربانی دے کر خود کو آرام طلب لیڈر بننے سے بچایا ہے ۔ یہ قوم دلیر کو پسند کرتی ہے یا مظلوم کو۔ مریم نواز دونوں کا استعارہ بنتی جا رہی ہیں، جبکہ بے نظیر کی طرح ان کے اثاثے میں باپ کا وزن پہلے سے موجود ہے ۔ ہم پہلے بھی کہتے رہے ہیں کہ یہ سوچنا حقیقت سے آنکھیں چرانے کے مترادف ہوگا کہ نواز شریف اور ان کے گھرانے کو ایک ہلے میں سیاست سے باہر پھینکا جا سکتا ہے ۔ انتظامی اور قانونی طور پر تو شاید ایسا ہوسکتا ہے ، لیکن سیاسی طور پر نہیں اور سیاسی طور پر اس کا حل یہی ہے کہ ان کے چھوٹے بھائی کو آگے لایا جائے ۔ عمران خان اس مسئلے کا حل نہیں۔ مسئلے کا حصہ ہیں۔ انہیں جتنا آگے لایا جائے گا، نواز شریف کا بیانیہ اتنا مضبوط ہوگا۔ مریم اتنی طاقتور ہوں گی اور شہباز اتنے ہی کمزور ہوں گے اور شہباز کی کمزوری تصادم روکنے والے آخری دروازے کا ٹوٹنا ہے ۔ وہ پیچ سے نکل جاتے ہیں تو پنجاب میں سوچ کا وہ اختلاف سڑکوں پر آسکتا ہے ، جو نواز شریف کے بیانیے کو ووٹ ملنے کی صورت میں سامنے آیا ہے ۔ خدا کرے کہ یہ تصادم نہ ہو، لیکن نہ بھی ہوا تو پوری نسل کے دل میں گرہ ضرور باندھ دے گا۔ یاد رہے کہ مشرقی پاکستان ایک دن میں علیحدہ نہیں ہوا تھا۔ ایسی سرگرمیوں نے ہی بنگالیوں کو مشتعل کیا تھا اور انہوں نے ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھائے تھے ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ مہلت ابھی باقی ہے ، شہباز کو پنجاب میں حکومت بنانے دی جائے اور ان سے بعض مطلوبہ مطالبات منوا لئے جائیں، تاکہ عوامی اختلاف تصادم کی طرف نہ چل پڑے ۔