تحریک انصاف – متحدہ سے اتحاد نے ووٹرز کو بددل کر دیا

اسلام آباد (وقائع نگار خصوصی) متحدہ قومی موومنٹ ایک ایسی مڈل ایج عورت ہے،جو ہر نئے دولہا کے ساتھ پھیرے لینے پر تیار رہتی ہے۔ یہ اپوزیشن میں بیٹھتی ہے نا اقتدار سے دوری کا کشٹ اٹھاتی ہے۔ کارنامے ہی ایسے ہیں کہ حکومت کی مخالفت کا بوجھ نہیں اٹھا سکتی۔ سو تیس، پینتیس برس سے وہ ہے اور حکومت۔ یعنی ایسا سینڈل جو مرکز کی ہر جماعت کے پاؤں میں فٹ آتا ہے۔ تازہ واردات تحریک انصاف کے ساتھ ہوئی ہے، جس کا ماضی متحدہ مخالف اعلانات، بیانات اور اقدامات سے بھرا پڑا ہے۔ ایک متعصب لسانی تنظیم کے ناخن اور دانت تراش بھی دیئے جائیں۔ تب بھی اس کے خمیر سے بدی کا لہو نکل نہیں سکتا۔ وقت آنے پر اپنا اثر ضرور دکھاتا ہے، لیکن بات یہ ہے کہ تحریک انصاف اور متحدہ پاکستان کا آقا ایک ہے۔ دونوں کو حکم ایک ہی دفتر سے ملتا ہے۔ لڑانا ملانا اسی دفتر کا کام ہے۔ سو منی بے چاری مفت میں بدنام ہے۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ کراچی میں پی ٹی آئی کو جو ووٹ پڑا ہے۔ وہ متحدہ مخالف ووٹر کا ہے یا ان لوگوں کا جو پہلے خوف کی وجہ سے متحدہ کو ووٹ دیتے تھے اور اب آزادی ملنے پر پی ٹی آئی کو دے رہے ہیں۔ ووٹ بینک کے باوجود اپنے ووٹ بڑھانے کا کام پہلے متحدہ خود کر لیتی تھی۔ اب پی ٹی آئی کے لیے الیکشن کمیشن اور غیبی طاقتیں انجام دے رہے ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ پی ٹی آئی کی حمایت کی ایک لہر تو اٹھی تھی یا کئی مہینوں کی مشقت سے اٹھائی گئی تھی، لیکن اس کے پیچھے متحدہ مخالفت کا جذبہ بھی تھا۔ کم از کم کراچی کی حد تک تو یہی تھا۔ اب تحریک انصاف متحدہ کو بغل میں بٹھا کر تالیاں پٹخارنے پر بھی لگا دے۔ تب بھی ووٹر کا دل تو کھٹا ہونا ہی ہے۔ یہی سب کرنا تھا تو پھر متحدہ کیا بری تھی؟۔ کراچی میں متحدہ نے اگرچہ بھرپور مہم چلائی کہ عمران خان ’’باہر‘‘ والے ہیں۔ یعنی پنجاب کے ہیں۔ جنہیں سندھ پر مسلط کیا جا رہا ہے، لیکن یہ کارڈ چلا نہیں۔ اس لیے نہیں کہ متحدہ کا ووٹر لسانی عصبیت سے باہر آگیا تھا۔ بلکہ اس لیے کہ متحدہ کے بنائے خوف اور دہشت کے جال میں دوبارہ پھنسنا نہیں چاہتا تھا۔ کراچی والے متحدہ سے بیزار تھے۔ وہی پرانی شکلیں، وہی پرانے دعوے، وہی پرانے نعرے اور وہی پرانے کرتوت۔ خود متحدہ میں جس طرح جوتیوں میں دال بٹی اور فاروق ستار و دیگر دست و گریباں ہوئے۔ اس نے بھی ووٹر کو دور کر دیا۔ اور اس سب سے ہٹ کر الطاف حسین کی بائیکاٹ کی اپیل نے بھی کچھ نہ کچھ کام دکھایا، اگرچہ پارٹی نے اسے مائنس کر دیا ہے۔ لیکن ووٹر نے نہیں کیا۔ حالانکہ ببول کے اس جھاڑ سے بھتے، قبضے، غنڈہ گردی اور دہشت گردی کے سوا کسی کو کچھ نہ ملا۔ لیکن دیوتا بنا کر جس طرح لوگوں کے ذہن میں اسے اتارا گیا تھا۔ اس نے کم از کم 2 نسلوں کو اندھا پجاری بنا دیا۔ یہ الگ بات ہے کہ جس نے دیوتا بنایا۔ اسی نے دھول بھی چٹا دی۔ بات یہ ہے کہ سیاست میں چاکری کرنے کا نقصان یہ ہے کہ آپ کو ایسوں سے بھی کمپرومائز کرنا پڑتا ہے، جن سے ہاتھ ملانے سے بھی آپ بچتے ہیں۔ اور ان سے بھی علیحدگی اختیار کرنی پڑتی ہے، جو آپ کے جنم جنم کے ساتھی ہوتے ہیں۔ کیونکہ قربت اور دوری کے فیصلے آپ کے ہاتھ میں نہیں ہوتے، کھیل کسی کا ہوتا ہے۔ آپ بس مہرے ہوتے ہیں اور یہ تو بالکل ضروری نہیں کہ کھلاڑی اپنے گیم پلان پر مہروں کو اعتماد میں لیتا ہو۔ سیاست تو ایسا کھیل ہے، جہاں فرزیں سے بھی پوشیدہ ہے شاطر کا ارادہ، پیادے کی تو اوقات ہی کیا ہے اور یہ بھی یاد رکھیں کہ نوکری آپ چھوڑ سکتے ہیں۔ چاکری نہیں۔ غلاموں کو آزادی کون دیتا ہے؟، سو تحریک انصاف اپنا وزیر،اعظم لانے کے لیے جتنی اتاؤلی ہو،رہی ہے۔ اس سے ایسی غلطیاں ہو رہی ہیں اور ہوں گی کہ حامیوں کو چھٹی کا دودھ یاد آ جائے گا۔ اچھا ہے، ایک بار عمران اپنی طلب پوری کر لیں۔ آٹے دال اور گوشت سبزی کے بھاؤ کا پتہ چلے۔ اس وقت تو بنی گالہ کی غلام گردشوں میں یہ سرگوشیاں چل رہی ہیں کہ عمران وزیر اعظم بن گئے تو کام کس وقت کریں گے؟، برسہا برس سے ان کا معمول ہے کہ دو ڈھائی بجے سو کر اٹھتے ہیں پھر گھنٹہ ایک جم میں لگاتے ہیں پھر ناشتہ کرتے ہیں اور تب جا کے زندگی کے معمولات شروع کرتے ہیں۔ وہ صبح تک جاگتے ہیں اور رات میں اپنے مخصوص معمولات پورے کرتے ہیں، جن میں مسکن معمولات بھی شامل ہیں۔ کوئی انتہائی مجبوری یا اشد ضروری کام ہو۔ تب صبح اٹھتے ہیں، لیکن یہ بھی ایک آدھ دن ہو سکتا ہے، روز نہیں۔ اب آپ 70 برس کے بوڑھے سے کیا توقع کرتے ہیں؟، وہ برسوں پرانا معمول زندگی یک لخت ترک کر دے۔ اچانک رات کو 10 بجے سونے لگے اور صبح جلدی اٹھنے لگے؟۔ وزیر اعظم ہاؤس میں تو کام 9 بجے صبح شروع ہو جاتا ہے۔ کوئی کتنا بھی زور مارے۔ 24 گھنٹے میں کایا پلٹ کے 2 بجے کی جگہ 8 بجے نہیں اٹھ سکتا اور روز تو نہیں اور اس عمر میں تو بالکل نہیں۔ ظفر اللہ جمالی کو وزارت عظمیٰ سے ہٹانے کا ایک سبب یہ بھی تھا۔ وہ 3 بجے سو کر اٹھتے تھے اور 4 بجے دفتر آتے تھے۔ چند دن تو ماتحتوں نے برداشت کیا۔ پھر مشرف سے شکایت کر دی۔ مشرف نے سمجھایا کہ بھائی دفتر جلدی آیا کرو، کار سرکار متاثر ہوتا ہے، مگر جمالی صاحب خود کو نہ بدل سکے۔ نتیجہ یہ کہ مشرف نے انہیں بدل دیا۔ بلاشبہ نئی شادی کے بعد عمران کی عادتوں میں کچھ بدلاؤ آیا ہو گا۔ مگر دیر تک سونے کی عادت کوئی نہیں بدل سکتا۔ جب اللہ کی پکار پر بندہ نہیں اٹھتا تو بیوی کی پکار پر کیسے اٹھے گا؟۔ جلدی اٹھنے کے لیے تو جلدی سونا ضروری ہے اور جلدی سونے کے لیے خود کو ڈسپلن میں لانا ضروری ہے۔ پہلے خود کو اپنا ماتحت بنائیں اور خود پر حکم چلائیں۔ پھر دوسروں کو حکم دیں۔ عمران نے خود کو قابو میں کر لیا تو اسے معجزہ ہی سمجھیں۔ یہ الگ بات ہے کہ معجزے اب رونما نہیں ہوتے اور ایک آخری بات۔ جس دن متحدہ تحریک انصاف سے الگ ہوئی۔ سمجھ لیں پیا کو کوئی اور بھا گیا ہے۔ الٹی گنتی تبھی سے شروع کر دیں۔

Comments (0)
Add Comment