اسلام آباد(اویس احمد) وفاقی اردو یونیورسٹی کے اسلام آباد کیمپس کی ذاتی عمارت کی تعمیر میں تاخیر سے منصوبے کے تخمینہ لاگت میں 28 کروڑ روپے کا اضافہ ہونے کا انکشاف ہوا ہے، جبکہ دوسری جانب سپریم کورٹ نے جامعہ اردو کے اسلام آباد کیمپس کی کرائے کی عمارت پر واپڈا اور جامعہ کے مابین جاری جھگڑے کو حل کرنے کے لیے دو ہفتے کا وقت دے دیا ۔ ذرائع کے مطابق جامعہ انتظامیہ کی جانب سے نئےکیمپس کی تعمیر کے لیے ریوائیزڈ پی سی ون وزارت منصوبہ بندی کو بھجوایا ہے جس کے مطابق منصوبے کا تخمینہ لاگت 92 کروڑ روپے کو پہنچ گیا ہے، حالانکہ 2013 میں منظور کیے گئے پی سی ون کے مطابق منصوبے کا تخمینہ لاگت 64 کروڑ روپے تھا جس میں سے 10 کروڑ روپے کی رقم جامعہ انتظامیہ کو جاری بھی کر دی گئی تھی، تاہم مختلف وجوہات کی بنا پر جامعہ انتطامیہ بروقت عمارت کی تعمیر شروع نہیں کر سکی۔ جامعہ ذرائع کا کہنا ہے کہ نئے کیمپس کی تعمیر کا آغاز کر دیا گیا ہے اور تعمیراتی کام تیزی سے جاری ہے جسے اگست 2019 تک مکمل کر لیا جائے گا۔جامعہ انتظامیہ ذرائع کا کہنا ہےکہ سپریم کورٹ کی جانب سے دو ہفتے کی مہلت کے دوران کوشش کی جائے گی کہ واپڈا کو آئندہ برس اگست تک عمارت خالی نہ کروانے پر قائل کیا جا سکے اور اس سلسلے میں اردو یونیورسٹی انتظامیہ چیئرمین سی ڈی اے سے بھی تعاون طلب کرے گی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ جامعہ نے گزشتہ برس سپریم کورٹ کے احکامات کے بعد دوسری کرائے کی عمارت حاصل کرنے کی کوشش بھی کی، تاہم جامعہ کی ضرورت کے مطابق عمارتوں کے کرائے اتنے ہیں کہ دو برس کے کرائے میں جامعہ کو اپنی عمارت کی تعمیر کے برابر رقم ادا کرنا پڑ جائے گی۔ اس لیے فی الوقت جامعہ انتظامیہ کے پاس دو ہی حل ہیں، یا تو واپڈا کو عمارت خالی نہ کروانے پر قائل کیا جائے، یا پھر جامعہ کا اسلام آباد کیمپس بند کر دیا جائے۔ دوسری جانب سپریم کورٹ نے جامعہ اردو کی نئی عمارت کی تعمیر کی نگرانی خود کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے جامعہ انتظامیہ کو ہدایت کی ہے کہ ترجیحی بنیادوں پر کلاس رومز تعمیر کر کے جامعہ کو نئے کیمپس میں منتقل کیا جائے۔ سپریم کورٹ کے احکامات کی روشنی میں جامعہ اردو نے 28 مارچ 2018 سے اپنی عمارت تعمیر کر کے اس میں منتقل ہونا تھا اور واپڈا کی کرائے کی عمارت خالی کرنا تھی، تاہم اردو عدالت عالیہ کے احکامات پر عمل درآمد نہ ہوسکا۔ جسٹس گلزار احمد اور جسٹس فائز عیسیٰ پر مشتمل بینچ واپڈا کی جانب سے دائر توہین عدالت کی درخواست پر سماعت کے دوران جامعہ کے وکیل نے عدالتی احکامات پر عمل درآمد کرنے میں ناکامی کا اعتراف کرتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ ایچ ای سی کی جانب سے فنڈز روکنے کے باعث تعمیر میں تاخیر ہوئی۔اس پر جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ یونیورسٹی کی عمارت تعمیر ہو رہی ہے یا کسی شہنشاہ کا محل ہے جو مکمل نہیں ہو رہا۔ عدالت نے جامعہ انتظامیہ کی جانب سے منصوبہ بندی کی کمی پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یونیورسٹی کی تعمیر کے لیے کوئی پلاننگ موجود نہیں۔جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ یہ کیسی یونیورسٹی ہے جس کی نہ اپنی عمارت ہے اور نہ وائس چانسلر ہے۔انہوں نے سوال کیا کہ دنیا میں کہیں سرکاری یونیورسٹی کرائے کی عمارت میں قائم کی جاتی ہے؟ عدالت نے دو ہفتے بعد آئندہ پیشی پر سی ڈی اے، واپڈا اور جامعہ اردو کے سربراہان کو طلب کرتے ہوئے، ہدایت کی ہے کہ دو ہفتوں کے اندر تینوں ادارے باہم مشاورت سے مسئلے کا حل نکالیں اور عدالت کو اس بارے میں آگاہ کیا جائے۔ جامعہ اردو کا اسلام آباد کیمپس نومبر 2003 میں قائم ہوا تھا، تاہم آج تک اسے اپنی عمارت میسرنہیں آ سکی۔ اس وقت بھی اسلام آباد کیمپس واپڈا سے 26 لاکھ روپے ماہانہ کرائے پر حاصل کردہ عمارت میں قائم ہے، جبکہ واپڈا گزشتہ تقریباً تین برس سے عمارت خالی کروانے کی کوشش کر رہا ہے۔