لاہور (نمائندہ خصوصی) مسلم لیگ (ن) کے مرکزی صدر شہباز شریف نے پچھلے 3 دن سے خود کو گھر تک محدود کر لیا ہے۔ سیاسی سرگرمیوں اور حکمت عملی کے حوالے سے اہم دن بھی وہ اپنے دفتر میں نہیں آئے ہیں۔ ’’اُمت‘‘ کے ذرائع کے مطابق ان کا پارٹی کے لوگوں سے بھی اس دوران کم ہی رابطہ ہوا ہے۔ جمعرات کے روز جیل میں نواز شریف سے ملاقات کے بعد انہوں نے انتہائی تھوڑی دیر کے لیے اپوزیشن جماعتوں کے اجلاس میں شرکت کی اور اس کے بعد گھر کے ہو کر رہ گئے۔جمعہ کے بعد سے کوئی سیاسی سرگرمی نظر نہیں آئی ۔ ’’اُمت‘‘ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ بطور پارٹی صدر شہباز شریف نے نواز شریف کے سامنے اب تک جو بھی دعوے کیے ہیں، وہ پورے نہیں کرسکے۔ نواز شریف کے بیانیے میں نرمی کی بات کرتے ہوئے انہوں نے معاملات بہتر کرنے کیلئے خود متحرک ہونے کی اجازت مانگی تو نواز شریف نے انہیں کہا اچھا آپ اپنے مقدمات سے متعلق ہی کوشش کر دیکھیں، لیکن اس میں بھی شہباز شریف کامیاب نہ ہوسکے۔ بعدازاں 13 جولائی کو نواز شریف کے استقبال کیلئے کارکنوں کے ساتھ ایئرپورٹ نہ پہنچ کر بھی انہوں نے بڑے بھائی کو مایوس کیا۔انتخابات کے بعد سخت احتجاجی مؤقف کے بجائے پنجاب میں حکومت بنانے کیلئے کوشش کرنے اور قومی اسمبلی میں بھی حلف اٹھانے کے فیصلے پر شہباز شریف نے اصرار کر کے اجازت لی، لیکن پنجاب سے کوئی ایک بھی آزاد رکن پارٹی میں شامل نہ کرسکے۔ ذرائع کے مطابق نواز شریف ہی نہیں، پارٹی کے لوگوں کی بڑی تعداد سابق وزیراعلی پنجاب سے ناامید ہونے لگی ہے اور وہ لوگ جو ماضی میں شہباز شریف کی ٹیم سمجھے جاتے تھے، وہ بھی اب ان کے ساتھ رابطے سے زیادہ جیل میں نواز شریف اور مریم سے ملاقات کیلئے کوشاں نظر آ رہے ہیں۔ اس صورتحال میں شہباز شریف نے پچھلے کم از کم 3 دنوں سے خود کو گھر تک محدود کر رکھا ہے اور سیاسی سرگرمیوں اور رابطوں سے گریز اختیار کیے ہوئے ہیں۔ ان ذرائع کے مطابق مسلم لیگ (ن) کے مرکزی رہنما خواجہ سعد رفیق کا شہباز شریف کی طرف سے نومنتخب ارکان صوبائی اسمبلی کے اعزاز میں دیئے گئے عشائیہ اور پنجاب اسمبلی میں قیادت کے لئے حمزہ شہباز کو آگے کرنے کی تقریب میں شرکت نہ کرنا بھی معنی خیز تھا۔ جبکہ بعد ازاں خواجہ سعد رفیق اور بعض دوسرے رہنما جیل میں نواز شریف سے ملاقات کیلئے پہنچ گئے۔ ذرائع کے مطابق پیپلز پارٹی پنجاب کے اہم رہنما نے بھی شہباز شریف کو مشورہ دیا تھا کہ حمزہ یا شریف خاندان کے کسی اور فرد کو پنجاب اسمبلی میں آگے نہ کیا جائے۔ اس صورت میں پیپلز پارٹی کیلئے بھی حمایت کرنا مشکل ہوسکتا ہے، لیکن شہباز شریف نے پی پی رہنما کی طرف سے تجویز کیے گئے نام کے بعد چپ اختیار کر لی۔