تحریک انصاف کے 38حلقے چیلنج کرنے کی تیاری

اسلام آباد (رپورٹ:اختر صدیقی ) نواز لیگ نے عام انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے اہم ثبوت حاصل کر لئے ہیں ۔تحریک انصاف کے38 حلقوں کو چیلنج کرنے کیلئے عدالتوں سے رجوع کا فیصلہ کرتے ہوئے زاہد حامد کی سربراہی میں لیگل ٹیم بنا دی گئی ہے، جس نے ابتدائی ہوم ورک مکمل کر لیا۔ اس ضمن میں پیر 6اگست کو لاہور ہائی کورٹ میں پہلی درخواست دائر کیے جانے کا امکان ہے ۔نواز لیگ کے صدر شہباز شریف ،رہنما شاہد خاقان عباسی نے اتوار کو ملاقات میں پیپلز پارٹی کے خورشید احمد شاہ اور راجہ پرویز اشرف پر مشتمل وفد پر زور دیا ہے کہ وہ بھی مبینہ انتخابی دھاندلی کے ثبوت جمع کرتے ہوئے عدالتی کارروائی کرے۔نواز لیگ کے مطابق خواجہ سعد رفیق کے حلقے کی تحقیقات میں عمران خان پھنس گئے ہیں۔پیپلز پارٹی پہلے ہی چیف الیکشن کمشنر کے استعفے کا مطالبہ کر چکی ہے ۔مجوزہ حکومت کی اتحادی جماعت متحدہ قومی موومنٹ بھی کراچی میں الیکشن کمیشن کے دفتر پر مبینہ دھاندلی کیخلاف احتجاج ریکارڈ کرا چکی ہے ۔تفصیلات کے مطابق نواز لیگ نے عام انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے اہم ثبوت حاصل کر لئے ۔تحریک انصاف کے38 حلقے چیلنج کرنے کیلئے عدالتوں سے رجوع کا فیصلہ کرتے ہوئے زاہد حامد کی سربراہی میں قانونی ماہرین پر مشتمل ایک ٹیم بنا دی گئی ہے۔ کمیٹی نے ابتدائی ہوم ورک مکمل کر لیا۔ اس ضمن میں پیر 6اگست کو لاہور ہائی کورٹ میں پہلی درخواست دائر کیے جانے کا امکان ہے ۔باخبر ذرائع نے ’’امت‘‘ کو بتایا ہے کہ نواز لیگ نے اہم حلقے کھلوانے ، از سر نو گنتی کرنے ،دھاندلی کا جائزہ لینے،الیکشن کمیشن و دیگر اداروں کے کردار ، کراچی میں مختلف علاقوں سے ملنے والے بیلٹ پیپرز،نتائج کے اجرا میں تاخیر ،نتائج بھجوانے کے ترسیلی نظام میں اچانک خرابی ،نواز لیگی امیدواروں کی ناکامی ،پیسوں کااستعمال ،نگران حکومت کی مبینہ معاونت ،امیدواروں کو ڈرانے دھمکانے کے معاملات ،انتخابات کے بعد نواز لیگی امیدواروں سے رابطوں اور دیگر معاملات کو عدالتوں میں اٹھانے کیلئے بھی قانونی ٹیم بنا دی۔ زاہد حامد کی سربراہی میں قائم کمیٹی میں شاہد حامد، اے کے ڈوگر،خواجہ حارث،مصطفی رمدے و دیگر وکلا شامل ہیں ۔نواز لیگ شاہد خاقان عباسی، دانیال عزیز ، سعد رفیق ، شہباز شریف،طلال چوہدری ،سائرہ افضل تارڑ،طارق فضل چوہدری ،انجم عقیل ، راجہ جاوید اخلاص اور بابر نواز کے حلقوں کی تحقیقات کیلئے عدالت سے رجوع کرنا چاہتی ہے ۔اس ضمن میں دھاندلی کے مبینہ ثبوت بھی جمع کر لئے گئے ہیں۔ان ثبوتوں میں نواز لیگ کے نشان پر مہر لگے ہوئے پھٹے بیلٹ پیپرز،فارم 45نہ ملنے کی شکایات اور پولنگ ایجنٹوں کے بیانات حلفی شامل کیے گئے ہیں ۔نواز لیگ کا کہنا ہے کہ 38 حلقوں میں دھاندلی کے ثبوت اکٹھے کر لئے گئے ہیں۔2013 میں تحریک انصاف نے4حلقے کھلوانے کی بات کرتے ہوئے 35پنکچرزکا حوالہ دیا تھا۔ نواز لیگ لائرز ونگ کے ایک رہنما نے نام شائع نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ان کے پاس کافی اہم شواہد موجود ہیں جنہیں ابھی سامنے لانے کے بجائے عدالت میں پیش کرنے کے بعد ہی میڈیا کے سامنے لایا جائے گا۔وائٹ پیپر بھی شائع ہوگا۔نواز لیگ کے مشاہدحسین سید نے انتخابات سے پہلے ہی دھاندلی پر نظر رکھنے کے لئے سیل بنانے کا اعلان کیا تھا ۔ شواہد اسی سیل نے اکٹھے کیے۔نواز لیگ لائرز ونگ کے رہنما کا کہنا ہے کہ قیادت کو نتائج مرحلہ وار چیلنج کرنے کی تجویز دی تھی ۔قیادت نے ہی فیصلہ کرنا ہے کہ کس طرح سے عدالتوں میں شواہد کو چیلنج کرنا ہے۔ذرائع نے بتایا کہ شہباز شریف کی عام انتخابات کے فوری بعد نواز شریف سے اڈیالہ جیل میں ملاقات کے دوران دھاندلی کے شواہد جمع کرنے اور عدالت جانے پر اتفاق کیا گیا تھا۔نواز لیگی صدر شہباز شریف بیرسٹر ظفر اللہ کے توسط سے کراچی کے حلقہ این اے 249 کے نتائج پہلے ہی الیکشن کمیشن میں چیلنج کر چکے ہیں۔اس ضمن میں موقف اپنایا گیا کہ ان کے حلقے میں درست گنتی نہیں کی گئی۔ریٹرننگ افسرنے فارم45 پر کانٹ چھانٹ کی۔مسترد ووٹوں کے مقابلے میں جیتنے والے کے ووٹوں کا فرق صرف چند سو کا ہے۔الیکشن کمیشن این اے 249 میں انتخابات کالعدم قرار دے اور امیدوار کی کامیابی کا نوٹیفکیشن جاری نہ کرے ۔این اے 249 میں شہباز شریف پی ٹی آئی کے فیصل واوڈا سے ہارے۔نتیجے کے مطابق واوڈانے35344جبکہ شہباز شریف نے 34 ہزار 626 ووٹ لئے۔اطلاعات کے مطابق سعد رفیق کی اپیل پر ہائی کورٹ کی جانب سے نتائج روکنے کے فیصلے سےپر امید نواز لیگ نے وائٹ پیپر جاری کرنے کا فیصلہ بھی کر لیا ہے ۔ نواز لیگ کے رانا ثنا اللہ نے کہا ہے کہ ان کی جماعت پنجاب میں بھی حکومت بنا لے گی ۔

کراچی (رپورٹ: ارشاد کھوکھر) تحریک انصاف نے عمران خان کو وزیر اعظم بنوانے کیلئے7 جماعتوں اور آزاد اراکین کے ساتھ مل کر بظاہر نمبر گیم پوری کر لی ہے ۔ پی ٹی آئی نے 13میں سے 10 آزاد اراکین کی پی ٹی آئی میں شمولیت اور باقی 3 آزاد امیدواروں کی حمایت کا بھی دعویٰ کیا ہے ۔اسپیکر کے انتخاب میں کامیابی کیلئے کسی بھی امیدوار کو زیادہ سے زیادہ 166 ووٹ درکار ہوں گے۔ تحریک انصاف کو قومی اسمبلی میں خواتین اور اقلیتوں کی 70 مخصوص نشستوں میں سے33،نواز لیگ17،پی پی پی11 اور ایم ایم اے کو 4نشستیں ملیں گی۔ تفصیلات کے مطابق پی ٹی آئی نے عمران خان کی وزارت عظمیٰ یقینی بنانے کیلئے بظاہر نمبر گیم پوری کر لی ہے۔ایک ایک نشست والی جمہوری وطن پارٹی،عوامی مسلم لیگ،خواتین کی ایک مخصوص نشست کے ساتھ 3سیٹوں والے اتحاد جی ڈی اے، ایک مخصوص نشست کے ساتھ 5 نشستوں والی بلوچستان عوامی پارٹی اور خواتین کیلئے مختص ایک نشست کے ساتھ 7 نشستوں والی جماعت متحدہ پاکستان شامل ہے۔ قائد لیگ کی ایک خواتین کی مخصوص نشست کے ساتھ 5 نشستیں بنتی ہیں۔چودھری پرویز الٰہی کی جانب سے پنجاب اسمبلی کی نشست اپنے پاس رکھنے کے باعث وہ قومی اسمبلی کے جیتے ہوئے اپنے دونوں حلقے خالی کریں گے۔ قائد لیگ کے 3 اراکین کی حمایت سمیت پی ٹی آئی کو دیگر 6 اتحادی جماعتوں کے20 اراکین کی حمایت ملے گی۔ 10 آزاد اراکین بنی گالا میں عمران خان سے مل چکے ہیں۔ 8 سے 10 اگست تک تمام آزاد امیدوار الیکشن کمیشن کو تحریری طور پر پی ٹی آئی میں شمولیت کا فارم پر کر کے دیں گے، جس سے پی ٹی آئی کی قومی اسمبلی میں جنرل نشستوں کی تعداد126 ہو جائے گی۔خواتین و اقلیتی مخصوص نشستیں ملا کر ان کی تعداد 159 ہو جائے گی۔تحریک انصاف کی جانب سے عمران خان5،پی ٹی آئی کے ہی کے غلام سرور خان اور طاہر صادق قومی اسمبلی کے2؍2حلقوں سے جیتے ہیں ۔عمران کو 4 اور غلام سرور اور طاہر صادق کو ایک ایک نشست خالی کرنی ہے جن پر ضمنی انتخابات ہوں گے۔ اس طرح قومی اسمبلی کے ایوان میں تحریک انصاف کے اراکین کی تعداد 153 ہوگی۔ پنجاب سے قومی اسمبلی کے حلقوں سے منتخب7آزاد اراکین کی شمولیت سے پنجاب میں پی ٹی آئی کی قومی اسمبلی میں خواتین کی سیٹیں مزید 2 نشستوں کے ساتھ 15 ہو جائیں گی۔ 67 جنرل نشستوں کے ساتھ پنجاب سے تعلق رکھنے والے پی ٹی آئی کی تعداد 82 ہو گی۔ غلام سرور و طاہر صادق و عمران کی جانب سے ایک ایک نشست خالی ہونے سے پنجاب میں پی ٹی آئی کے ارکان کی تعداد 79 ہو جائے گی۔خیبر پختون میں ایک آزاد رکن کے شامل ہونے سے31 جنرل نشستوں اور 7 خواتین کی مخصوص نشستوں کے ساتھ کے پی میں پی ٹی آئی کے ارکان قومی اسمبلی کی تعداد 38 بن رہی ہے۔ عمران خان کی جانب سے بنوں اور پشاور کی نشستیں خالی کئے جانے سے یہ تعداد 36 رہ جائے گی ۔فاٹا سے بھی تحریک انصاف کے 6 اراکین جیتے ہیں۔ اسلام آباد میں خواتین کی مخصوص نشست کے ساتھ پی ٹی آئی اراکین کی تعداد 4 ہے۔عمران خان کی جانب سے ایک نشست خالی کئے جانے سے اسلام آباد سے پی ٹی آئی کے ایم این ایز کی تعداد3ہوگی۔ سندھ میں 2 آزاد اراکین علی محمد میر و علی نواز شاہ کی شمولیت سے قومی اسمبلی میں پی ٹی آئی کی جنرل نشستیں 17 ہوں گی ۔اس حساب سے 4 خواتین کی مخصوص نشستوں کے ساتھ متحدہ ارکان کی تعداد 21 ہو جائے گی۔کراچی سے عمران خان کی جانب سے جیتی ہوئی ایک نشست خالی کرنے سے یہ تعداد20 ہوگی۔ بلوچستان میں خواتین کی ایک مخصوص نشست کے ساتھ پی ٹی آئی کے اراکین قومی اسمبلی کی تعداد3 ہے۔پی ٹی آئی کو قومی اسمبلی میں اقلیتوں کیلئے مختص10 میں سے5 نشستیں ملیں گی جس سےقومی اسمبلی میں پی ٹی آئی کے ارکان کی تعداد 153 ہوگی۔ آزاد امیدوار ملنے سے پی ٹی آئی کو 3مخصوص نشستوں کا بھی فائدہ ہوگا۔ان میں سے پنجاب میں خواتین کی 2 اور ایک اقلیتی نشست بھی ملے گی ۔6 اتحادی جماعتوں کے 20 اراکین کے ساتھ پی ٹی آئی کے پاس وفاق میں اراکین اسمبلی کی تعداد 173 ہے۔ پی ٹی آئی کے ذرائع کا دعویٰ ہے کہ شمولیت کیے بغیر بھی باقی 3 آزاد امیدواروں کی انہیں حمایت حاصل ہے۔بی این پی مینگل کی ایک خاتون سمیت 4 ایم این ایز نے ابھی کسی کی حمایت نہیں کی۔ نواز لیگ کے حمزہ شہباز نے قومی اسمبلی کی نشست چھوڑ کر صوبائی نشست رکھنے کا فیصلہ کیا ہے ۔قومی اسمبلی کا 342 نشستوں کا ایوان اسپیکر اور وزیر اعظم کے چناؤ کے موقع پر 331 اراکین پر مشتمل ہوگا۔ اس حساب سے اسپیکر کا الیکشن جیتنے کیلئے امیدوار کو 166 ووٹ ملنا ضروری ہیں ۔ نواز لیگ کے ایم این ایز کی تعداد 80 بن رہی ہے جن میں 64 جنرل ، 2 اقلیتی اور 15 خواتین کی مخصوص نشستیں شامل ہیں ۔ پی پی کے اراکین کی تعداد 9، خواتین اور 2 اقلیتی مخصوص نشستوں کی تعداد 54، ایم ایم اے 3 خواتین ، اقلیتی مخصوص نشست کے ساتھ 16 اور اے این پی کا ایک رکن قومی اسمبلی ہے۔ ان جماعتوں کے ایم این ایز کی بظاہر تعداد 151 ہے ۔ 2 آزاد اور 4 بی این پی مینگل کے ایم این ایز کی حمایت ملنے کی صورت میں بھی اپوزیشن جماعتوں کے اراکین کی تعداد 175 بنتی ہے۔

Comments (0)
Add Comment