کراچی(رپورٹ:حسام فاروقی)سات ماہ کے دوران شہریوں کو 828گاڑیوں اور 15ہزار 9سو 74موٹر سائیکلوں سے محروم کیا گیا ہے، جن کی مالیت ساڑھے 97 کروڑوں روپے سے زائد ہے ، جبکہ وارداتوں کی روک تھام کے لئے بنایا جانے والا اینٹی کار لفٹنگ سیل سات ماہ کے دوران کچھ ہی ملزمان کو گرفتار کرسکا، جن کی گرفتاری کے باوجود بھی کراچی میں گاڑیاں چھینے جانے اور چوری کئے جانے کی وارداتیں عروج پر ہیں، جن میں کوئی کمی واقع نہیں ہوسکی ہے ۔تفصیلات کے مطابق سی پی ایل سی کی جانب سے جاری کی گئی 7 ماہ کی رپورٹ کے مطابق رواں سال کے سات ماہ یعنی جنوری سے جولائی تک کراچی کے شہریوں کو جرائم پیشہ افراد نے مسلسل اپنا شکار بنائے رکھا۔چھ ماہ کے دوران 828گاڑیوں سے شہری محروم ہوگئے،جن میں سے 135گاڑیاں چھینی اور 693گاڑیاں چرائی گئیں۔ایک گاڑی کی اوسط قیمت اگر 6لاکھ روپے بھی مقرر کی جائے، تو 828گاڑیوں کی مجموعی مالیت 49کروڑ 68لاکھ روپے بنتی ہے۔اسی طرح رواں 7 ماہ میں شہریوں کو 15ہزار 9سو 74موٹر سائیکلوں سے بھی محروم کیا گیا ہے ، جن میں سے 1258موٹر سائیکلیں چھینی اور 14716 چوری کی گئی ہیں۔اسی طرح ایک موٹر سائیکل کی اوسط قیمت30ہزار روپے بھی طے کی جائے، تو 15974موٹر سائیکلوں کی قیمت 47کروڑ 92لاکھ سے زائد بنتی ہے۔ پولیس کچھ گاڑیاں اور موٹر سائکلیں برآمد کرنے کا دعویٰ بھی کرچکی ہے ، جو دعوے کی حد تک ہی رہا۔ اس وقت کراچی میں موٹر سائیکلیں چھیننے اور چوری کرنے میں دو بڑے گروپ ملوث ہیں، جن کے 100سے زائد کارندے منظم طریقے سے اپنا نیٹ ورک چلا رہے ہیں۔ اس وقت کراچی پولیس کے لئے موٹر سائیکل لفٹر کھوکھر گروپ درد سر بنا ہوا ہے، جس کا تعلق شکارپور اور اوباڑو سے بتایا جاتا ہے۔ اس گروپ کے کارندے کراچی سے موٹر سائیکلیں چھین اور چوری کرکے حب ، گوادر اور خضدار منتقل کرتے ہیں، جہاں سے وہ گاڑیاں آگے نئے کاغذات تیار کرکے فروخت کی جاتی ہیں اور جو موٹر سائیکلیں پرانی ہوتی ہیں۔ان کے پارٹس کراچی کے مختلف مقامات پر بنے گوداموں میں نکال کر کراچی کی ہی مارکیٹوں میں فروخت کے لئے پہنچا دیئے جاتے ہیں۔اسی طرح مٹھل گروپ بھی کراچی پولیس کے لئے درد سر بنا ہوا ہے۔اس گینگ کے زیادہ تر کارندوں کا تعلق لاڑکانہ ، جیکب آباد اور کشمور سے ہے۔یہ ملزمان بھی موٹر سائیکلیں چھین یا چوری کرکے کراچی اور سندھ کے دیگر شہروں سے بلوچستان منتقل کردیتے ہیں۔ان ملزمان کو مقامی پولیس کی بھی مکمل مدد حاصل ہوتی ہے ۔ دونوں گروپوں کے کئی کارندوں کی گرفتاری کے باوجود ان گینگز کی کمر توڑی نہیں جاسکی اور یہ گینگز مسلسل کراچی میں وارداتوں کے نئے ریکارڈ قائم کرتے جا رہے ہیں ۔ پولیس صرف خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہی ہے ۔ کراچی میں پرانے کارلفٹر گروہوں کو پولیس ختم کرچکی تھی، لیکن حالیہ سات ماہ کے دوران گاڑیاں چھیننے اور چوری کی تیزی سے بڑھتی وارداتوں نے کراچی پولیس کے لئے پریشانی پیدا کر دی ہے ۔ اے سی ایل سی تاحال لاعلم ہے کہ اب کراچی میں کون سا گینگ وارداتیں کر رہا ہے ، کیونکہ ملزمان کا تعلق پولیس کے ریکارڈ میں شامل پرانے گینگوں سے نہیں ہے۔مسروقہ گاڑیاں جیکب آباد ، کشمور ، پنجاب اور بلوچستان اور کے پی کے کے بعض شہروں میں پہنچائی جاتی ہیں جہاں سے ان کی نمبر اور کاغذات تبدیل کرکے انہیں آگے فروخت کیا جاتا ہے ۔اے سی ایل سی کے سربراہ ایس ایس پی اسد رضا نے’’ امت‘‘ کو بتایا کہ پولیس کو کئی اہم ملزمان کا سراغ مل چکا ہے ، جن کے خلاف جلد کارروائی کی جائے گی۔ان پر ابھی تک ہاتھ اس لئے نہیں ڈالا گیا ہے کہ کہیں ان کی گرفتاری سے ان کے سرغنہ فرار نہ ہوجائے ۔ملزمان سے تمام گاڑیاں برآمد کر کے شہریوں کو واپس کی جائیں گی۔ان کا مزید کہنا تھا کہ پولیس اپنا کام نہایت ایمانداری اور محنت سے کر رہی ہے اور جلد عوام کو ان ملزمان سے نجات دلا دی جائے گی۔