کراچی(اسٹاف رپورٹر)پولیس نے مذکورہ 7 ماہ میں 356گاڑیاں اور 3401 موٹر سائیکلیں برآمد کرنے کا دعویٰ کیا ہے، جن میں سے کتنی گاڑیاں اورموٹر سائیکلیں مالکان کو واپس کی گئی ہیں۔اس کے بارے میں تاحال کوئی معلومات حاصل نہیں ہوسکی ہیں۔ برآمد موٹر سائیکلیں اور گاڑیاں مالکان کو واپس کرنے کے عوض بھی پولیس مٹھائی کے نام پر رشوت وصول کرتی ہے، جس کے بعد گاڑی یا موٹر سائیکل اصل مالک کے حوالے کی جاتی ہے۔ رشوت نا دینے کی صورت میں متاثرہ شخص کو تھانے کے مسلسل چکر لگوا کر پریشان کیا جاتا ہے، جب تک متاثرہ شخص رشوت کی رقم ادا نہیں کردیتا۔ پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ فی موٹر سائیکل 3سے 5ہزار روپے اور فی کار کے لیے 20سے 25ہزار روپے رشوت مالکان سے لی جاتی ہے ۔اس ضمن میں جب اے سی ایل سے کے ایس ایس پی اسد رضا سے دوبارہ رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی، تو ان سے رابطہ ممکن نہیں ہوسکا، جس کے بعد ڈی ایس پی جاوید عباس سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے بتایا کہ یہ سب باتیں بے بنیاد ہیں۔گاڑی مالکان سے کوئی رقم نہیں لی جاتی۔ایس ایس پی اے سی ایل سی نے خصوصی ٹیم بھی تشکیل دے رکھی ہے، جو ان سارے معا ملات پر کڑی نظر رکھتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ رشوت وصولی کا کام ان تھانوں میں ہوتا ہے، جہاں مالکان مقدمے کے بجائے صرف رپورٹ درج کرواتے ہیں، جس کے بعد اگر ان کی گاڑی یا موٹر سائیکل مل جاتی ہے، تو پھر پولیس اسے واپس کرنے کے عوض رشوت وصول کرتی ہے، جو گاڑی کے مالک کے مجبور ہوکر دینی پڑتی ہے۔