عمران حکومت میں اعظم خان کو پرنسپل سیکرٹری بنانے کا فیصلہ

اسلام آباد(رپورٹ:ناصرعباسی)پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی )کی وفاق میں ممکنہ حکومت کے قیام کے بعد پرنسپل سیکرٹری کے عہدے پر سابق چیف سیکرٹری خیبر پختونخوا اعظم خان کو تعینات کرنے کا حتمی فیصلہ کرلیا گیا ہے۔جبکہ دیگر اہم وزارتوں کے سیکرٹریز اور دیگر افسران کے تبادلوں اور تقرریوں کے امکانات بڑھ گئے ہیں ۔نئےمتوقع پرنسپل سیکرٹری اعظم خان کا تعلق پاکستان ایڈمنسٹریٹو گروپ(ڈی ایم جی)سے ہے ۔جو ستمبر2017 سے جون 2018تک چیف سیکرٹری کے عہدے پر بھی فرائض سرانجام دے چکے ہیں جبکہ اس سے قبل وہ ایڈیشنل چیف سیکرٹری کے عہدے پر فائض تھے ۔وہ ایڈیشنل چیف سیکرٹری فاٹا سیکرٹری کھیل، سیاحت اور امور نوجوانان ، سیکرٹری داخلہ وقبائلی امورکے علاوہ کمشنر پشاور کے عہدے پر بھی فائض رہ چکے ہیں اور بہتر انداز میں افسر شاہی سے دفتری کام لینے کا وسیع تجربہ رکھنے کے حوالے سے مشہور ہیں۔ذرائع کے مطابق اعظم خان کی بطور پرنسپل سیکرٹری تعیناتی کے بعد تمام وزارتوں اور محکموں کے سربراہان کو ٹاسک دینے کے علاوہ ان کی کارکردگی کو باقاعدگی سے مانیٹر کیے جانے کا امکان ہے کیونکہ وہ اس سے قبل خیبر پختونخوا میں بیوروکریسی کے سربراہ کے طور پر تمام اداروں کی کارکردگی کو خود مانیٹر کیا کرتے تھے ۔دوسری جانب قومی احتساب بیورو(نیب)کی تحویل میں موجودسابق پرنسپل سیکرٹری فواد حسن فوادکو معطل کیے جانے اوروفاقی دارالحکومت میں نیب کی جانب سےنئی حکومت قائم ہونے کےبعدکرپشن اور بےقاعدگیوں میں ملوث سرکاری افسران کے کارروائیوں کی بازگشت پر وفاقی دارالحکومت کی مختلف وزارتوں اور محکموں میں تعینات فواد حسن فواد کے قریبی سمجھے جانے والے ساتھی افسران نےاپنے آپکو بچانے کےلیے نئی حکومت کے قیام سے قبل کم اہمیت کے حامل اداروں میں تبادلے کروانے شروع کردئیے ہیں ۔تاکہ ماضی میں ہونے والی کرپشن اور بے قاعدگیوں کے متعلق ان سے پوچھ گچھ نہ کی جاسکےجبکہ زیر اعتاب افسران نے سابقہ دور حکومت میں ہونے والی کرپشن اور بے قاعدگیوں میں ملوث سیاسی شخصیات اور افسران کے متعلق دستاویزی محفوظ کر لیے ہیں جو نئی انتظامیہ کے حوالے کیے جائیں گے ۔ذرائع کے مطابق نئے پرنسپل سیکرٹری کی جانب سے عہدہ سنبھالنے کے بعد وزارتوں ،خود مختار اور نیم خود اداروں کے سربراہان کی بڑی پیمانے پر تبادلوں کا امکان ہے جبکہ نیب اور وفاقی تحقیقاتی ایجنسی(ایف آئی اے)کی جانب سے جن سرکاری افسران کے خلاف تحقیقات کی جارہی ہیں ان کیسز میں بھی تیزی سے پیش رفت متوقع ہے۔

Comments (0)
Add Comment