کراچی(رپورٹ: راؤافنان) سندھ یونیورسٹی میں انتظامی،مالی بدعنوانیوں ،گاڑیوں کی خریداری اور فنڈز کے حوالے سے صوبائی ایچ ای سی کی انسپیکشن کمیٹی نے جانچ پڑتال شروع کردی ہے۔ تفصیلات کے مطابق سندھ یونیورسٹی میں مالی و انتظامی بدعنوانیوں،فنڈز کی جانچ پڑتال کرنے کے لئے سندھ ہائر ایجوکیشن کمیشن کی چارٹر انسپیکشن اینڈ ای ویلیوایشن کمیٹی کو ٹاسک دیا گیا ہے۔ ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ صوبائی ایچ ای سی کی سی آئی سی کمیٹی کے چیئرمین پروفیسر ڈاکٹر عبدالقدیر خان راجپوت نے 6اگست کو شیخ الجامعہ فتح محمد برفت سے ان ہی کے دفتر میں ملاقات کی،جس میں مالی و انتظامی بدعنوانیوں،فنڈزکے استعمال اوپابندی کے باوجودگاڑیوں کی خریداری کے بارے میں استفسار کیا،پی او ایل کے استعمال سمیت دیگر سوالات پوچھے گئے ،جن کا جواب دینے کے لئے شیخ الجامعہ نے مہلت مانگی اور تاحال انہوں نے کمیٹی کو جواب جمع نہیں کرایا ہے،صوبائی ایچ ای سی کی سی آئی سی کمیٹی کے چیئرمین پروفیسر ڈاکٹر عبدالقدیر خان راجپوت نے وائس چانسلر فتح محمد برفت کو خط نمبر CIEC/584/2018کے ذریعے 3اگست کو اطلاع دی تھی کہ سندھ ہائر ایجوکیشن کمیشن ایکٹ 2013 کی 10(1) (b)کے تحت مجاز اتھارٹی نے انہیں حکم دیا ہے کہ سندھ نیورسٹی کے انتظامی اور مالی معاملات کی جانچ پڑتال کی جائے اور اس ضمن میں وہ 6اگست کو ان کے دفتر کا دورہ کریں گے لہذا جو بھی ریکارڈ ہے۔ اس کا انتظام کیا جائے، ذرائع نے مزید بتایا کہ شیخ الجامعہ نے وفاقی ایچ ای سی کو ٹویوٹا فارچیونر کی خریداری کی اجازت لینے کے لئے رواں سال مارچ میں خط لکھا تھا جسے وفاقی ایچ ای سی نے صوبائی ایچ ای سی سے اجازت لینے کو کہا تھا تاہم صوبائی ایچ ای سی اور سابق سیکریٹری بورڈ اینڈ یونیورسٹی محمد حسین سید نے جامعہ کے 78کروڑ سے زائد مالی خسارے کا شکار ہونے اور وفاقی فنانس ڈویژن کی جانب سے گاڑیوں کی خریداری پر پابندی کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کی درخواست کو مسترد کردیا تھا تاہم شیخ الجامعہ نے تمام پابندیوں کو بالا طاق رکھتے ہوئے 62لاکھ روپے کی ٹیوٹا فارچیونر خریدی تھی،ذرائع کا کہنا ہے کہ جامعہ انتظامیہ کی جانب سے 20کروڑ روپے سے زائد سڑکوں کی تعمیر پر لگانے، گزشتہ ایک سال میں ایک تا 16گریڈ میں 150 سے زائد بھرتیاں کرنے،جامعہ کی گاڑیوں کا ذاتی استعمال کرنے سمیت دیگر مالی اور انتظامی بدعنوانیوں کی شکایت صوبائی حکومت کو موصول ہوئی تھی،’’امت‘‘ نے اس حوالے سے صوبائی ایچ ای سی کی سی آئی سی کمیٹی کے چیئرمین پروفیسر ڈاکٹر عبدالقدید خان راجپوت سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ چند سوالات پوچھے ہیں جن کا جواب شیخ الجامعہ کی جانب سے آنا باقی ہے،خبر پر موقف کے لئے شیخ الجامعہ فتح محمد برفت سے رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی تاہم انہوں نے کال اٹینڈ نہیں کی۔
کراچی(اسٹاف رپورٹر)سندھ یونیورسٹی کے اساتذہ نے مالی معاملات میں گھپلوں،27 کروڑ روپے تعلیمی سرگرمیوں کے بجائے سڑکوں کی تعمیر پر لگانے ،ٹرانسپورٹ بجٹ میں ساڑھے 3کروڑ روپے کے اضافے اور گھروں کی غیر قانونی الاٹمنٹ پر صوبائی حکومت سے تحقیقات کرنے کا مطالبہ کردیا ہے،75فیصد سے کم حاضری والے طلبہ کو امتحان میں شریک نہ کرنے کی پالیسی پر عمل کرنے اور ہاؤسنگ اسکیم کی مالی اور ترقیاتی تفصیلات پیش کرنے کے لئے انتظامیہ کو ایک ماہ کی مہلت دے دی ہے، انجمن اساتذہ نے مطالبہ کیا ہے کہ صوبائی حکومت جامعہ میں مستقل ڈائریکٹر فنانس تعینات کرے۔ اسی ضمن میں گزشتہ روز سندھ یونیورسٹی ٹیچرز ایسو سی ایشن کی جنرل باڈی کا اجلاس منعقد ہوا جس میں اساتذہ کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ اجلاس انجمن اساتذہ کی صدر ڈاکٹر عرفانہ ملاح کی صدارت میں منعقد ہوا،بعد ازاں انجمن سیکریٹری پروفیسر ڈاکٹر خالد لاشاری نے اجلاس میں بیٹھے تمام اساتذہ کے لئے ہاؤس کو اوپن قرار دیتے ہوئے انتظامی بدعنوانیوں،امتیازی رویہ اور مالی گھپلوں کی نشاندہی کرنے کا موقع دیا۔ شرکا کا کہنا تھا کہ انتظامیہ کے امتیازی رویہ کے باعث اساتذہ ذہنی دباؤ کا شکار ہیں۔ گزشتہ 5سال سے ہاؤسنگ اسکیم کے لئے تمام اساتذہ رقم جمع کرا رہے ہیں جبکہ ہاؤسنگ اسکیم کا ترقیاتی کام ٹھپ پڑا ہوا ہے جس پر اجلاس نے قرارداد منظور کی کہ ہاؤسنگ اسکیم کے اکاؤنٹس کی تفصیلات،اور ترقیاتی کام کی موجودہ صورتحال واضح کی جائے،اساتذہ نے طلبہ کی غیر حاضری پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ طلبہ خود ساختہ چھٹیاں کرلیتے ہیں اور جامعہ انتظامیہ صفر حاضری والے طلبہ کو بھی امتحان میں شریک ہونے دے دیتی ہے جس پر اساتذہ نے مطالبہ کیا کہ 75فیصد سے کم حاضری والے طلبہ کو امتحان میں شریک نہ ہونے دیا جائے ۔ اساتذہ کا کہنا تھا کہ جامعہ انتظامیہ نے تعلیمی سرگرمیوں کے بجائے 27کروڑ کی رقم سڑکوں کی تعمیر پر لگادی ہے،اسی طرح ٹرانسپورٹ بجٹ میں ساڑھے 3کروڑ روپے کا اضافہ کردیا گیا ہے جس سے ٹرانسپورٹ بجٹ ساڑھے 4کروڑ سے 8کروڑ پر جا پہنچا ہے۔انجمن اساتذہ نے شیخ الجامعہ پروفیسر ڈاکٹر فتح محمد برفت کو تمام مطالبات کو نافذ کرنے کے لئے ایک ماہ کی مہلت دے دی ہے۔