کراچی (رپورٹ: نواز بھٹو) نیب نے نواز لیگ کے سابق وفاقی وزیر اور موجودہ پی پی رہنما عبدالحکیم بلوچ کے خلاف 73 کروڑ کی کرپشن اور آمدن سے زائد اثاثے بنانے کے الزامات کی ابتدائی چھان بین مکمل کر لی ہے۔ ملیر اور ٹھٹہ میں 12 سے زائد جائیدادیں موجود ہیں، جو انہوں نے اپنے رشتہ داروں کے نام کر رکھی ہیں جو کہیں بھی ظاہر نہیں کی گئی ہیں۔ نیب کراچی نے چھان بین کے دوران ٹھوس شواہد حاصل کرنے کے بعد تحقیقات کی منظوری کی سفارش کردی ہے ۔عبدالحکیم بلوچ کا کہنا ہے کہ میرے تمام اثاثے الیکشن کمیشن میں ظاہر کئے جا چکے ہیں۔اگر ایم این اے فنڈ ملتا، تو میں ن لیگ کیوں چھوڑتا۔دوسری طرف درخواست گزار کا کہنا ہے کہ ان کی 500ایکڑ زمین پر قبضہ کیا گیا، جس پر اس نے فریال تالپور، حکیم بلوچ اور مرتضیٰ بلوچ کے خلاف 11مقدمات کئے۔ اس پر انہوں نے مذاکرات اور جرگہ کے لئے مجھ پر دباؤ ڈالا۔ تفصیلات کے مطابق ن لیگ کے سابق وفاقی وزیر اور موجودہ پی پی رہنما عبدالحکیم بلوچ کے خلاف نیب حرکت میں آگیا اور کرپشن سے متعلق ابتدائی چھان بین مکمل کرلی گئی ہے۔ تفتیشی افسر نے باقاعدہ تحقیقات کی منظوری کے لئے نیب ہیڈ کوارٹر اسلام آباد کو بھی لیٹر لکھ دیا گیا ہے جبکہ ڈی جی نیب کراچی نے اس کی تحقیقات کی سفارش کی ہے۔ نیب کی طرف سے کہا گیا ہے کہ درخواست گزار غلام اکبر ولد ٹھارو خان جتوئی کی سابق وفاقی وزیر حکیم بلوچ کے خلاف دی جانے والی درخواست پر ابتدائی چھان بین کے دوران کرپشن کے حوالے سے ٹھوس شواہد ملے ہیں۔نیب کراچی کے کیس نمبر NABK 2017090799054 میں کہا گیا ہے کہ ابتدائی چھان بین کے دوران آمد ن سے زائد 73 کروڑ کے اثاثے بنانے کے شواہد ملے ہیں۔تفتیشی افسر کا کہنا ہے کہ آمدن سے زائد اثاثے اپنے قریبی رشتہ داروں کے نام کر رکھے ہیں، جو کہیں بھی ظاہر نہیں کئے گئے۔چھان بین کے دوران اس بات کے بھی ٹھوس شواہد ملے ہیں کہ عبد الحکیم بلوچ نے ملیر اور ٹھٹہ میں 12سے زائد جائیدادیں بنا رکھی ہیں۔ یہ بھی ان کے قریبی افراد اور رشتہ داروں کے نام کی ہیں۔نیب ذرائع کے مطابق عبد الحکیم بلوچ کے خلاف ایم این اے فنڈز میں بھی خورد برد کے شواہد ملے ہیں جبکہ ملیر ڈیولپمنٹ پیکیج میں ہونے والی کرپشن میں بھی ان کے ملوث ہونے کے شواہد ملے ہیں۔اس سلسلے میں نیب ذرائع کا کہنا ہے کہ ملنے والے ناقابل تردید شواہد پر امید ہے کہ تحقیقات کی منظوری مل جائے گی۔جب نیب ذرائع سے درخواست گزار کی عدم دلچسپی سے متعلق پوچھا گیا، تو انہوں نے کہا کہ چھان بین شروع ہونے سے پہلے نیب انٹیلی جنس اس کا جائزہ لیتی ہے اور اس بنیاد پر بننے والی سورس رپورٹ پر ہی ابتدائی چھان بین کی منظوری حاصل کی جاتی ہے اس میں درخواست گزار کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا۔اس سلسلے میں حکیم بلوچ کا کہنا ہے کہ نیب مجھے ایسے ہی پریشان کر رہا ہے جبکہ میرے تمام اثاثے الیکشن کمیشن میں ظاہر کئے جاچکے ہیں۔اس کے علاوہ میرے پاس کچھ نہیں ہے۔انہوں نے ‘‘امت’’ سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ اگر مجھے ایم این اے فنڈ میں کچھ ملتا، تو میں (ن) لیگ کیوں چھوڑتا۔ مجھے میرے حلقے کی ترقی کے لئے نواز شریف نے کوئی فنڈ نہیں دیا تھا، اگر ملا ہے تو ثابت کریں ۔انہوں نے کہا کہ مجھے ابھی تک تحقیقات کے لئے نہیں بلایا، اگر بلایا گیا تو میں جاؤں گا۔باقی جس کی درخواست پر تحقیقات کی جا رہی ہے ثابت اس نے کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ درخواست گزار اکبر جتوئی ایڈووکیٹ سے مصلحت ہو چکی ہے اور اس نے تمام مقدمات واپس لے لئے ہیں۔ حکیم بلوچ کے خلاف نیب میں درخواست دینے والے اکبر جتوئی ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ سجاول میں میری 500ایکڑ سے زائد زمین پر حکیم بلوچ اور دیگر نے قبضہ کر لیا تھا، جس پر میں نے فریال تالپور، پی پی ضلع ملیر کے رہنما مرتضیٰ بلوچ کے خلاف سپریم کورٹ، ہائی کورٹ، اینٹی کرپشن اور نیب میں درخواستیں دائر کی تھیں۔ انہوں نے کہا میرے زمین کے جعلسازی کے ذریعے 250ایکڑ زمین کے کھاتے تبدیل کئے گئے، جس پر انہوں نے فریال تالپور اور حکیم بلوچ کے خلاف 11کیس داخل کئے۔ انہوں نے کہا کہ بعد میں کیس واپس لینے کے لئے فریال تالپور کا پیغام ملا تاہم بعد میں میر منظور پنہور کے پاس جرگہ رکھا گیا اور میں نے سارے کیس واپس لے لئے۔ انہوں نے کہا کہ نیب کی طرف سے مجھے نوٹس موصول ہوا تھا، لیکن میں نہیں گیا تھا۔