کراچی( رپورٹ:عمران خان )فیڈرل بورڈ آف ریونیو(ایف بی آر) کی جانب سے بیرون ملک اثاثے رکھنے والے پاکستانیوں میں شامل سرکاری افسران کی علیحدہ فہرستیں مرتب کرکے ان کے خلاف ایف آئی اے سے تحقیقات کروانے کا فیصلہ کیا گیا ہے ،وفاقی وزارت خزانہ اور وفاقی وزارت داخلہ کےاجلاس کے بعد ایف بی آر ہیڈ کوارٹرز سے فہرستیں ایف آئی اے کو بھیج دی گئیں ،اس ضمن میں اہم ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ ایمنسٹی اسکیم ختم ہونے کے بعد اپنے اثاثے ظاہر نہ کرنے والے شہریوں کے خلاف تحقیقات میں اہم فیصلہ کیا گیا ہے ۔ذرائع کے مطابق ایف بی آر ہیڈ کوارٹرز میں 60ہزار سے زائد ایسے پاکستانی شہریوں کی فہرستیں مرتب کی گئی ہے ،جس میں پاناما اسکینڈل ،پیراڈائز اسکینڈل میں آف شور کمپنیاں اور غیر ملکی اثاثے رکھنے والوں کے علاوہ برطانیہ ،متحدہ عرب امارات میں اثاثے رکھنے والوں سمیت ان افراد کو شامل کیا گیا ہے ،جو کہ پاکستان میں پر تعیش زندگیاں گزار رہے ہیں ۔مہنگے اسپتالوں میں علاج کراتے ہیں ،قیمتی گاڑیاں خریدتے ہیں ، غیر ملکی سفر کرتے ہیں، جائیدادوں کے مالک ہیں ،لیکن ابھی تک ان کے نام ٹیکس دہندگان کی فہرست میں شامل نہیں ہیں۔ یہ مجموعی فہرست ایف بی آر کے تمام شعبہ جات بشمول آئی اینڈ آئی ان لینڈ ریونیو،شعبہ براڈننگ ٹو ٹیکس ،صوبائی ایکسائز ڈپارٹمنٹ سے حاصل کردہ معلومات پر بنائی گئی ہے ،تاکہ ان تمام افراد سے مرحلہ وار انکم ٹیکس اور دیگر ٹیکس وصول کرکے ملکی خزانے میں اضافہ کیا جاسکے ۔فہرستوں کی تیاری کے دوران ابتدائی جانچ پڑتال میں معلوم ہوا کہ فہرست میں ایسے افراد کی کثیر تعداد شامل ہے ،جو کہ مختلف سرکاری محکموں میں کام کرتے ہیں اور جہاں ان کی سالانہ آمدنی محدود ہے، تاہم اس کے باجو د ان کے اثاثے کہیں زیادہ ہیں ،جس کے بعد یہ فیصلہ کیا گیا کہ ایسے تمام افراد کی علیحدہ سے فہرست مرتب کرکے ان کے خلاف فیڈرل اینٹی کرپشن قوانین کی شق نمبر 52کے تحت تحقیقات کی جائیں۔ اگر کسی کے اثاثے جائز آمدنی کے ثابت ہوتے ہیں تو ان کوکلیئر قرار دیا جائے گا۔