کراچی (وقائع نگار خصوصی ) کراچی میں قومی اور صوبائی کے عقل چکرانے والے انتخابی نتائج کے بعد اب بلدیاتی انتخابات میں بھی تحریک انصاف کو کلین سوئپ فتح دلانے کا فیصلہ کرلیا گیا ہے ۔ یہ انتخابات اگلے برس 2019 میں ہوں گے ۔ اور اس کے لئے پاک سرزمین پارٹی میں شامل کئے گئے متحدہ کے سابق سیکٹر اور یونٹ انچارجوں کو تحریک انصاف میں شامل کرنے کی ہدایت جاری کردی گئی ہیں ۔ جو سیکٹر اور یونٹ کی سطح پر تحریک انصاف کے دفاتر کھولیں گے اور بلدیاتی انتخابات میں تحریک کو کامیاب کرنے کے لئے وہی ہتھکنڈے استعمال کریں گے۔ جو قبل ازاں الطاف کی متحدہ کے لئے کرتے رہے تھے اہم ذرائع نے اس خبر کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا ہے کہ پاک سرزمین میں شامل ہونے والے لنگڑوں ، ٹنڈوں ، گنجوں اور اسی قبیل کی دیگر مخلوق کو گزشتہ ہفتے تحریک انصاف جوائن کرنے کا اشارہ دے دیا گیا ہے انکار کرنے والوں کو پرانے مقدمات کے تحت گرفتار کرلیا جائے گا ۔ذریعے کے بقول ضلع وسطی سے تعلق رکھنے والے کئی سیکڑ اور یونٹ انچارجز پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کرچکے ہیں، جبکہ انکار کرنے والے بعض افراد کو گرفتار بھی کیا جا چکا ہے اہم ذرائع نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ دبئی میں لانڈری لگانے والوں نے دوسری بار کراچی میں لانڈری لگانے کا فیصلہ کیا ہے اور پاک سرزمین پارٹی میں دھل دھلا کر شامل ہونیو الے دہشت گردوں کو ایک بار پھر تحریک انصاف کی لانڈری میں دھونے کی تیاری شروع کردی گئی ہے یہ حکم آسمانی کونسل نے جاری کیا ہے اس حکم کے نتیجے میں پاک سرزمین پارٹی کو خالی کرنے کا پروگرام ہے ذریعے کے بقول ٹنڈ کنے ، بدمعاش تحریک انصاف میں شامل ہوجائیں گے ۔ ان کے سا تھ نرمی برتی جائے گی اور سابقہ مقدمات سے کوئی تعرض نہیں کیا جائے گا اور بھرتی ہونے والوں کو ٹاسک دیا جائے گا کہ وہ اپنے اپنے علاقوں میں سیکٹر اور یونٹ کی سطح پر تحریک انصاف کے دفتر کھولیں اور انہیں فعال کریں کیونکہ ذریعے کا کہنا ہے کہ کراچی میں تحریک انصاف کا کوئی نیٹ ورک نہیں ہے نہ گراس روٹ لیول پر اس کی کوئی نمائندگی ہے اس کمی کو پاک سرزمین پارٹی کے دہشت گردوں کے ذریعے پورا کیا جائے گا اور یوں کراچی کے عوام کو ایک نئی متحدہ کا سامنا ہوگا، جس کا لیبل دوسرا لیکن بوتل میں شراب وہی پرانی ہوگی ذریعے کے مطابق خطرہ یہ ہے کہ بلدیاتی الیکشن میں تحریک انصاف کو حتمی فتح دلانے کے لئے ان غنڈوں کو کھلی چھوٹ دی جاسکتی ہے اور اس کے عوض انہیں بعض رعایتیں بھی مل سکتی ہیں جس کے نتیجے میں شہر میں بھتے اور لوٹ مار کا ایک نیا پیٹرن وجود میں آسکتا ہے ذریعے کے بقول یہ طے کرلیا گیا ہے کہ اب کے برس ہونے والے بلدیاتی الیکشن میں کراچی سے تحریک انصاف کو جیت دلانی ہے اور میئر بھی تحریک انصاف کا لانا ہے اس لئے موجودہ میئر اور بلدیاتی نمائندوں کو فنڈز بھی جاری نہیں کئے جا رہے ۔ ذریعے کے بقول پاک سرزمین اور متحدہ پاکستان کے رہنماؤں کو اس نئی تبدیلی سے آگاہ کردیا گیا ہے اور انہیں مشورہ دیا گیا ہے کہ اسے قبول کرلیں اس میں ان کی بہتری ہے ذریعے کے بقول دونوں جماعتوں کے رہنماؤں نے اس ضمن میں اپنے تعاون کا یقین دلایا ہے ذریعے نے یہ بھی بتایا کہ کراچی اور خیبر پختون کے کئی علاقوں سے تحریک انصاف کو نشستیں دلانے کا فیصلہ آخری وقت میں ہوا تھا ۔ کیونکہ اہم اداروں کی رپورٹوں سے واضح ہوگیا تھا کہ پنجاب سے تحریک انصاف مطلوبہ سیٹیں نہیں نکال پائیں گی۔ ذریعے نے یہ بھی بتایا کہ اس تبدیلی سے قبل تمام اہم ادارے پی ایس پی اور متحدہ کو مخصوص تعداد میں نشستیں ملنے کی یقین دہانی کراچکے تھے ۔اس طرح پیر پگارا کی سربراہی میں قائم گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کو بھی کافی نشستیں دلانے کی تسلی کرائی گئی تھی لیکن آخر وقت میں بازی پھنس گئی اور کئی پیادوں کو ضائع کرنا پڑا ۔ ذریعے کے بقول کراچی میں تحریک انصاف کو مقبول دکھانے کے لئے اسے متحدہ کے زیر اثر علاقوں سے بھی جتوایا گیا تاکہ بلدیاتی الیکشن کی فتح پر زیادہ انگلیاں نہ اٹھیں۔ ذریعے کے بقول آخری وقت میں ہونے والی ان تبدیلیوں پر موثر عمل درآمد کے لئے ان اداروں کو اپنا کام روکنے کی ہدایت کی گئی تھی، جو پی ایس پی اور متحدہ سمیت کئی چھوٹے بڑے سیاسی گروپوں کو آپریٹ کررہے ہیں۔ ذریعے نے بتایا کہ اس شرمناک شکست کے بعد مصطفیٰ کمال اورانیس قائم خانی میں شدید اختلافات ہوگئے ہیں کیونکہ مصطفی کمال اداروں سے رابطوں کے ذمہ دار تھے، جبکہ انیس تنظیمی سیٹ اپ بنانے کے لئے دہشت گردوں کو بلانے اور پی ایس پی میں شامل کرنے کی ڈیوٹی سنبھالے ہوئے تھے ۔ ذریعے کے بقول جب پی ایس پی کے ساتھ ہاتھ ہو گیا تو انیس قائم خانی اور انیس ایڈووکیٹ نے مصطفیٰ کمال کو آڑے ہاتھوں لیا اور ان سے سخت سوالات کئے لیکن کمال کے پاس کسی سوال کا جواب نہیں تھا۔ کیونکہ جن لوگوں سے کمال کے رابطے تھے انہوں نے اپنے فون بند کردئیے تھے یا نمبر بدل دئیے تھے۔ ذریعے کے بقول انتخابی نتائج پر متحدہ پاکستان نے اعتراض کیا تو انہیں پیغام دیا گیا کہ وہ خوشدلی سے اسے تسلیم کرلیں۔ ورنہ ان کا حال بھی متحدہ لندن جیسا ہوگا۔ اس پیغام پر متحدہ رہنماؤں نے گھٹنے ٹیک دئیے اور خالد مقبول اور عامر خان نے ہر طرح سے تعاون کی یقین دہانی کرادی ۔ تاہم فاروق ستار نے اس پر احتجاج کیا اور اپوزیشن کی پہلی کانفرنس میں شرکت کے لئے پہنچ گئے۔ اس پر انہیں بھی سمجھادیا گیا کہ نتائج کو تسلیم کرلیں، کیونکہ اسی میں ملک کی بھلائی ہے اور ان کی بھی اس کے بعد فاروق ستار راہ راست پر آگئے ذریعے کے بقول انتخابی نتائج پر احتجاج کرنے والی تمام بڑی چھوٹی جماعتیں صرف اپنی فیس سیونگ کیلئے احتجاج کررہی ہیں، کیونکہ ان سب کو بتادیا گیا ہے کہ انتخابی نتائج انہیں تسلیم کرنے ہوں گے کیونکہ ملک کسی انتشار کا متحمل نہیں ہوسکتا ۔ ذریعے کے بقول تمام جماعتوں نے نتائج تسلیم کرنے کی یقین دہانی بھی کرادی ہے ۔باقی جو احتجاج ہو رہا ہے ، وہ محض گپ شپ ہے ۔