کراچی (خصوصی خبر نگار/؍امت نیوز) امریکی حکومت کی طرف سے پاکستان کے لیے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ(آئی ایم ایف ) کے بیل آئوٹ پیکج میں رکاوٹیں ڈالنے کے اعلان کے باوجود آئی ایم ایف حکام پاکستان کو قرضہ دینے میں غیر معمولی دلچسپی لے رہے ہیں۔ آئی ایم ایف کی پاکستان کے لیے نمائندہ ٹریسا دیبن سانچز نے پاکستانی اسٹاک بروکرز کو بتایا ہے کہ امریکی حکومت پاکستان کو قرضہ دینے سے آئی ایم ایف کو نہیں روک سکتی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف قرض دے کر پاکستان پر ایسی شرائط عائد کرنا چاہتا ہے، جس کے تحت سی پیک منصوبوں کی تمام تر تفصیلات جزئیات سمیت منظر عام پر لانا لازم ہو جائے گا۔ ادھر اقتصادی ماہرین نے کہا ہے کہ سعودی عرب کی کوششوں سے پاکستان کو اسلامی ترقیاتی بینک سے 4 ارب ڈالر کا جو قرض ملنے والا ہے اس کے نتیجے میں محض نومبر تک معیشت کو سہارا مل جائے گا تاہم نومبر یا دسمبر میں آئی ایم ایف کے پاس جانے کی ضرورت پیش آئے گی۔ آئی ایم ایف کی جانب سے پاکستان کو قرضہ دینے میں غیر معمولی دلچسپی آئی ایم ایف پاکستان کیلئے نمائندہ ٹریسا ڈیبن سانچز کی پاکستانی اسٹاک بروکریج ہاؤسز کے نمائندوں سے ملاقات میں سامنے آئی۔اسٹاک بروکریج ہاؤسز کے جن ماہرین اور نمائندوں نے ملاقات میں شرکت کی ان میں سے ایک نے بعض صحافیوں کو بتایا کہ ملاقات کے دوران ٹریسا ڈیبن سانچز نے امریکی دباؤ پر پاکستان کیلئے بیل آؤٹ پیکج دینے سے انکار کی اطلاعات مسترد کرتے ہوئے کہا کہ عالمی مالیاتی ادارہ پاکستان کو درکار بیل آؤٹ پیکج دینے کیلئے مذاکرات شروع کرنے پر تیار ہے۔ایک اور بروکریج ہاؤس کے ماہر معیشت کے مطابق ملاقات (آئی ایم ایف کی طرف سے )ا س پہلو پر توجہ دلائی گئی کہ قرضوں کی منظوری یا استرداد کیلئے آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ میں امریکہ کو محدود اختیارات (صرف 16اعشاریہ 7 فیصد) حاصل ہیں ۔ ملاقات کے دوران ایک سوال کے جواب میں سانچز کا کہنا تھا کہ عالمی مالیاتی ادارہ دنیا بھر میں اقتصادی بحران سے دوچار ممالک کی مدد کیلئے قائم کیا گیا تھا کہ عالمی معیشت میں پیشرفت جاری رہے، لہٰذا یہ ممکن ہی نہیں کہ ایک ڈاکٹر مرتے ہوئے مریض کو بچانے کی کوشش نہ کرے ۔سانچز کا مزید کہنا تھا کہ ہوسکتا ہے کہ امریکی حکومت قرض کی شرائط پر اثر انداز ہو اور فریقین (پاکستان اور آئی ایم ایف )اس پر رضامند نہ ہوں ۔ آئی ایم ایف کی نمائندہ کا یہ بیان ایسے وقت پر سامنے آیا ہے جب امریکی وزیر خارجہ اور بعض سینیٹر پاکستان کو قرضہ دینے کی اعلانیہ مخالفت کر رہے ہیں۔ تاہم ٹریسا ڈیبن نے پہلی بار پاکستان کو قرض دینے کی بات نہیں کی۔عام انتخابات سے پہلے بھی وہ ا س موضوع پر بات کر چکی ہیں اور تب ان کا کہنا تھا کہ پاکستان خواہ ہم سے مدد لیتا ہے یا نہیں اسے کچھ ایڈجسٹمنٹ کرنا پڑیں گی۔ ذرائع کے مطابق قرض دینے کے ساتھ آئی ایم ایف کچھ شرائط رکھے گا جو آئی ایم ایف کے ہر پروگرام کا لازمی حصہ ہوتی ہیں۔ اس سلسلے میں ایک اہم شرط پاکستانی کرنسی کی قدر گھٹانا ہوسکتی تھی تاہم اس پر پہلے ہی بڑی حد تک عمل درآمد ہو چکا ہے اور ٹریسا ڈیبن نے اسٹاک بروکریج ہاؤسز کے نمائندوں سے ملاقات کے دوران اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے حالیہ پالیسی اقدامات پر اطمینان کا اظہار کیا ۔ چند دیگر شرائط جو بالعموم عائد کی جائیں گی وہ مالیاتی نظم و ضبط سے متعلق ہوں گی۔ ایسی شرائط کو بعض ماہرین معاشیات مثبت قرار دیتے ہیں۔ اس حوالے سے سعودی عرب کے انگریزی اخبار عرب نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے پاکستان کے سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر سلمان شاہ نے کہا کہ ملک کو آئی ایم ایف کے پروگرام کی اس لیے ضرورت ہے کیونکہ یہ اپنے ساتھ مالیاتی نظم و ضبط بھی لاتا ہے اور اس وقت پاکستان کو پیداوار اور مسابقتی شعبے میں ایسے مسائل کا سامنا ہے جن پر قابو پانا ضروری ہے۔ تاہم سینئر ماہر معاشیات اکرام الحق کا کہنا ہے کہ بہتر ہے پاکستان آئی ایم ایف شرائط کے بغیر ہی اسٹرکچرل اصلاحات کرے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کو آئی ایم ایف سے 6ارب ڈالر کا کوٹہ ہی مل سکتا ہے کیونکہ 6 ارب ڈالر اسے پچھلے پروگرام کی وجہ سے پہلے ہی واپس کرنے ہیں۔ اکرام الحق کا کہنا تھا کہ پاکستان کو اسلامی ترقیاتی بینک سے جو 4 ارب ڈالر ملنے والے ہیں وہ پاکستانی معیشت کو سانس لینے اور یہ فیصلہ کرنے کا موقع دیں گے کہ اسے آئی ایم ایف سےقرض لینا ہے یا نہیں ۔ بعض دیگر ماہرین کا کہنا ہے کہ اسلامی ترقیاتی بینک سے ملنے والے 4 ارب ڈالر صرف نومبر تک معیشت کو سہارا دے سکتے ہیں اور نومبر یا دسمبر میں پاکستان کو آئی ایم ایف کے پاس جانا ہی پڑے گا۔ تاہم ذرائع کے مطابق پاکستان کو قرض دینے کیلئے آئی ایم ایف کی جانب سے جو سب سے بڑی شرط عائد کی جائے گی وہ سی پیک کے منصوبوں کی تفصیلات جزئیات سمیت سامنے لانے کی ہوگی، اس کے علاوہ امریکہ آئی ایف ایم کے ذریعے پاکستان کو سی پیک کے منصوبے محدود کرنے کیلئے بھی کہہ سکتا ہے۔ امریکی جریدے وال اسٹریٹ جرنل نے الیکشن سے پہلے ہی 22 جولائی کو اپنی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا تھا کہ آئی ایم ایف کی جانب سے ممکنہ طور پر نئی پاکستانی حکومت کو مجبور کیا جائے گا کہ سی پیک کے منصوبوں کے بارے شفافیت کا مظاہرہ کرے ۔ اس وقت تحریک انصاف کے ترجمان فواد چوہدری نے وال اسٹریٹ جرنل سے گفتگو میں کہا تھا کہ ان کی جماعت سی پیک کی حامی ہے تاہم چاہتی ہے کہ تمام پارلیمنٹ کے سامنے جائزے کیلئے رکھے جائیں۔ انتخابات کے بعد تحریک انصاف کے رہنما اسد عمر اور جہانگیر ترین کہہ چکے ہیں کہ حکومت بنتے ہی بیل آئوٹ پیکج لینا ضروری ہوں گے۔ اسد عمر نے 12 ارب ڈالر درکار ہونے کی بات بھی کی ہے ۔ عرب نیوز سے گفتگو میں اسد عمر نے اسلامی ترقیاتی بینک سے ملنے والے 4 ارب ڈالر سے متعلق بات کرنے سے انکار کر دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ باضابطہ اعلان سے پہلے کچھ نہیں کہا سکتا، البتہ یہ خبر درست ہو سکتی ہے۔ یہ بات واضح نہیں کہ حکومت بنانے کے بعد بھی تحریک انصاف سی پیک کی تفصیلات سامنے لانے پر اصرار کرے گی جن میں سے بعض کا اسٹریٹجک وجوہات کی بنا پر سامنے لانا درست نہیں ہوگا۔ تاہم ذرائع کے مطابق تحریک انصاف کے بعض رہنما معاملات سامنے لانے کے حامی ہیں اور آئی ایف ایم سے رجوع کو سیاسی وجوہات کی بنا پر بھی سود مند سمجھتے ہیں۔ تحریک انصاف کے ایک اہم اتحادی شیخ رشید احمد نے بھی ہفتہ کو عالمی ادارے سے قرض لینے کی حمایت کی۔ نجی ٹی وی سے گفتگو میں شیخ رشید احمد کا کہنا ہے کہ 70سال میں اتنا قرض نہیں لیا گیا جتنا گزشتہ حکومت نے 4 سال میں لیا۔ آئی ایم ایف کے پاس جانے سے کوئی قیامت نہیں آجائے گی،20سے25لاکھ نوجوانوں کو نوکریاں بھی دے دیں تو عوام یاد کرےگی۔